ڈاکٹر اکبر رحمانی (م:17 ستمر 2002ء) جلگائوں‘ مہاراشٹر کے ایم جے کالج میں درس و تدریس کے ساتھ وہاں سے ایک تعلیمی ماہ نامہ ’’آموز گار‘‘ نکالتے تھے۔ متعدد تعلیمی اور علمی اور صحافتی انجمنوں اور نصابی کمیٹیوں کے رکن تھے۔ ماہ نامہ آموزگار انہوں نے جلگائوں سے 1974ء میں جاری کیا تھا۔ یہ اپنی نوعیت کا واحد جریدہ تھا جس میں تعلیمی مسائل کے ساتھ ساتھ مختلف درجوں اور مضامین کی نصابات بھی زیر بحث آتے تھے۔ اسی طرح اردو زبان و ادب کے بارے میں حکومتی پالیسیوں کا جائزہ بھی لیا جاتا تھا‘ اس لیے اس کی خوب پذیرائی ہوئی۔ ڈاکٹر حسین‘ ظ انصاری‘ باقر مہدی‘ کلیم سہسرامی اور خلیق انجم نے ان کے جان دار اداریوں کو سراہا مگر آموزگار کی اشاعت میں بعض (زیادہ تر مالی) وجوہ سے تسلسل نہ رہ سکا۔ چند سال بعد دوبارہ جاری ہوا اور رحمانی صاحب نے نامساعد حالات کے باوجود اسے بڑی ہمت اور حوصلے سے اپنی وفات تک جاری رکھا۔ اس کے چند خاص نمبر بھی شائع کیے۔ ادبِ اطفال نمبر‘ اقبال نمبر‘ تاریخ نمبر‘ راہ نمائے تدریس نمبر وغیرہ۔
اکبر رحمانی اقبالیات سے بھی گہری دل چسپی رکھتے تھے یہی حوالہ ان سے تعارف کا سبب بنا۔ غالباً 1987ء کی بات ہے‘ وہ اقبال کے ایک مکتوب الیہ عباس علی خان لمعہ پر‘ خصوصاً ان کے نام اقبال کے خطوں پر تحقیق کر رہے تھے۔ بعدازاں انہوں نے اسی موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1989ء میں وہ پاکستان آئے اور کراچی سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے۔ ان سے پہلی اور آخری ملاقات یہیں ہوئی۔ کراچی اور لاہور سے انہوں نے علمی کتابوں‘ بطورِ خاص اقبالیاتی رسائل و کتب کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کیا اور جلگائوں پہنچ کر اپنے رسالے میں ذخیرۂ اقبالیات پاکستان کا تعارف کرانا شروع کیا۔ اس ضمن میں آموزگار کے پانچ اقبال نمبر شائع ہوئے۔ بعدازاں ان نمبروں کو یکجا کرکے آموزگار اقبال کے نام سے کتابی صورت میں شائع کر دیا۔
لاہور میں قیام کے دنوں میں انہوں نے لمعہ کے نام خطوط اقبال کے ایک مجموعہ بہ عنوان ’’مکاتبِ اقبال بنام لمعہ حیدرآبادی‘‘ بزم اقبال لاہور کے اس وقت کے اعزازی سیکرٹری ڈاکٹر وحید قریشی صاحب کو اشاعت کے لیے پیش کیا۔ مجھ سے انہوں نے اس مجموعے پر دیباچہ لکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ مجھے ان کے مسودے پرکچھ تحفظات تھے۔ مذکورہ مجموعہ شائع نہیں ہو سکا۔ ان کی تحقیق پر بھوپال کے ماسٹر اختر صاحب نے شدید اعتراض کیے تھے۔ مگر اس مناقشے کے باوجود‘ رحمانی صاحب بڑے استقلال سے اپنا کام کرتے رہے۔ اس موضوع پر انہوں نے اس کے بعد بھی متعدد مضامین لکھے۔
پاکستان کے دورے میں اقبالیاتی احباب (خصوصاً سید اسعد گیلانی اور پروفیسر ظفر حجازی) نے ان کی خوب پذیرائی کی اور انہیں کثیر تعداد میں علمی و ادبی کتابیں تحفے میں دلوائی۔ لاہور کے بعد وہ روالپنڈی اور اسلام آباد گئے۔ وہاں سے بھی کتابیں جمع کیں۔ بہت خوش ہو کر پاکستان سے واپس گئے۔ اس پہلے دورے سے وہ اس قدر خوش اور متاثر (Inspire) ہوئے کہ دوبارہ پاکستان آنے کا پروگرام بنانے لگے مگر شدید مصروفیات اور صحت کی خرابی کے سبب یہ ممکن نہ ہوا۔
زندگی کے آخری چار پانچ برسوں میں انہوں نے اتنا تحقیقی و تنقیدی اور علمی کام کیا جو ابتدائی دور کے دس‘ بیس برسوں میں کبھی نہ کیا ہوگا۔ ایک حادثے میں ان کی ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے چنانچہ گوشہ نشین ہونا پڑا۔ اس جبری گوشہ نشینی سے انہوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور لکھنے پڑھنے کے بہت سارے کام مکمل کیے۔
اس سے قبل انہوں نے ایک تعلیم کاررواں مرتب کرکے بہت سے دوستوں اور شاگردوں کے ساتھ بھارت کے کئی شہروں کے چکر لگائے۔ اردو زبان اور تعلیمی بیداری کے سلسلے میں یہ کاررواں مفید ثابت ہوا اس کے روداد رحمانی صاح نے علی گڑھ سے دیو بند تک کے نام سے شائع کی۔ نامور بزرگ علمی و ادبی شخصیت سید حامد صاحب نے اکبر رحمانی کی بہت حوصلہ افزائی کی اور ممکنہ حد تک تعاون بھی کیا۔
اکبر رحمانی آموزگار میں مختلف مضامین کی نصابی کتابوں کا جائزہ لیتے رہتے تھے۔ ضیا الدین اصلاحی کے بقول ’’فرقہ وارانہ اور تنگ نظر ذہن کے لوگ درسی اور غیر درسی خصوصاً تاریخ اور نصابی کتابوں میں جو زہر بھرتے رہتے تھے یا اردو یا اقلیتوں کے ساتھ جس طرح کی زیادتیاں اور ناانصافیاں ہو رہی تھیں‘ ان کا تدارک کرنا خود پرفرض کرلیا تھا۔
ڈاکٹر سید عبدالبار کے بقول ’’اکبر رحمانی کی شخصیت ہمہ گیر تھی ادب‘ صحافت‘ تاریخ‘ عمرانیات‘ انسانیت کہاں کہاں ان کے قدم کے نقوش نہیں۔ وہ مہاراشٹر کے ایک چھوٹے مقام پر تھے مگر روشنی کا مینار بن گئے جس سے ملک کے مختلف حصوں میں لوگ اپنی منزل کا پتا حاصل کرتے رہے۔ اردو زبان اور مسلمانوں کی تعلیم کے فروغ کو انہوں نے اپنی زندگی کا مشن بنا لیا تھا۔ زندگی نہایت سادہ اور مجاہدانہ تھی۔‘‘ خدا ان کی مغفرت کرے‘ آمین۔
nn