خانہ بدوشوں کی زندگی
ہندوستان میں شہر بنگلور واقع ہے۔ شہر سے کچھ فاصلے پر ریلوے پھاٹک کے قریب نشیبی علاقے میں، خانہ بدوشوں کی جھگیاں اور خیمے تھے، گرمیوں کے موسم میں تو کھلے آسمان تلے تیز دھوپ میں وہ درختوں کے سائے میں پناہ لیتے تھے اور رات کو کھلے آسمان تلے سونے کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے البتہ سرد موسم اور بارشوں میں انہیں پلوں، درختوں اور غاروں میں پناہ ڈھونڈنی پڑتی تھی۔ خانہ بدوش عورتیں، مٹی سے کھلونے اور سرکنڈوں سے بچوں کے لیے چیزیں بناکر گھوم پھر کر شہر کی گلیوں میں آواز لگا لگاکر یہ چیزیں بیچا کرتی تھیں جبکہ خانہ بدوش مرد زیادہ تر ہڈحرام ہوتے ہیں، وہ شاذونادر ہی کوئی کام کرتے، صرف تفریح یا کھیل تماشوں میں لگے رہتے، تاش، چوسر، لِڈو اور دوسرے شغلوں میں مصروف رہتے، زکوٰۃ، خیرات، صدقوں کی رقوم کی ٹوہ میں رہتے لیکن شبّیرے کا ابّا بشیرا جانو دوسرے مردوں سے مختلف تھا۔ اس نے اپنے روزگار کے لیے ایک جھولا بنایا ہوا تھا، جو گلی گلی، محلہ محلہ گھوم کر اور اسکولوں کے گیٹ کے آگے کھڑے ہوکر اپنی روزی کماتا تھا۔ شبیرے کی عمر تقریباً چھ سات سال تھی وہ ہر وقت اپنے ابا کے ساتھ رہتا تھا۔ ایک دن شبیرے نے اپنے ابا سے پوچھا کہ بچے اسکول کے گیٹ کے اندر کیا کرنے جاتے ہیں؟
شبیرے کا تجسس اور اسکول جانے کا عزم
شبیرے کے ابا نے اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ شبیرے نے سوچا کہ جو بچے جھولے میں بیٹھتے ہیں، ان سے پوچھوں گا، ان میں سے ایک بچے کے ساتھ میری جان پہچان بھی ہے، اس سے پوچھوں گا کہ وہ گیٹ کے اندر کیا کرنے جاتا ہے؟ جب شبیرے نے اس لڑکے سے پوچھا تو اس کی انگلی پکڑ کر اسکول کے اندر لے گیا۔ شبیرے نے بیٹھے ہوئے بچوں کو دیکھا تو ان میں اپنے آپ کو تلاش کرنے لگا لیکن وہ اپنے آپ کو ان بچوں میں نہ پاسکا۔ اس نے سوچا کہ میں تو ایک خانہ بدوش کا بیٹا ہوں اور میں یہاں کہاں؟ مگر پھر اس نے اسکول کا خوبصورت ماحول دیکھ کر اپنے دل سے وعدہ کیا کہ میں بھی ان بچوں کی طرح پڑھوں گا۔ اس نے گھر آکر اپنی ماں سے کہا۔ ماں! لوگوں کے بچے تو بڑے خوبصورت کپڑے پہن کر اسکول میں پڑھتے ہیں، اب میں بھی ان بچوں کی طرح پڑھوں گا۔
شبیرے کی ضد
یہ بات سن کر شبیرے کا ابا غصے میں کہنے لگا۔ ابھی دو چار دن ہوئے ہیں شبیرے کو اسکول کے دروازے کے سامنے کھڑا ہوتے ہوئے اور یہ لڑکا زبان چلانے لگا ہے۔ شبیرے کی ماں کہنے لگی۔ بچہ ہے، کوئی بات نہیں ہے، دوسرے بچوں کو دیکھ کر یہ بھی پڑھنا چاہتا ہے۔
کئی دن گزرنے کے بعد بھی شبیرے کی ضد برقرار رہی۔ اس نے کھانا پینا بھی کم کردیا۔ ایک دن شبیرے کا ابا اس سے کہنے لگا۔ چلو بیٹا: مزدوری کرنے چلیں۔ جب شبیرے نے اپنے ابا کے ساتھ جانے سے انکار کردیا تو اس کے ابا نے اس کو اتنا مارا کہ اسے تیز بخار چڑھ گیا۔ شبیرے کے ابا نے کوئی دوا بھی لاکر نہ دی۔
شبیرے کی بیماری کی خبر ساری جھگیوں میں پھیل گئی۔ قبیلے کا سردار شوکا، شبیرے کے والد کو بلاکر کہنے لگا۔ یہ بات کان کھول کر سن لے، ہمارے قبیلے میں نہ تو کوئی پڑھا ہے اور نہ کوئی پڑھے گا۔
جانو کے ضمیر کی آواز اور پچھتاوا
جانو اپنے بیٹے کی بیماری کی جہ سے پہلے ہی پریشان تھا۔ سردار کی یہ بات سن کر جانو غصے میں آگیا اور دل میں کہنے لگا کہ کیا ہم اپنے بچوں کی خوشیوں کے لیے کچھ نہیں کرسکتے؟ جب رب نے سارے انسانوں کو برابر ہی بنایا ہے پھر خانہ بدوشوں کے ساتھ یہ بے انصافی کیوں؟ پھر وہ خاموشی سے جھگی میں آکر بیٹھ گیا۔ اس نے ایک نظر اپنے بیمار بیٹے کی طرف دیکھا۔ دوسری طرف اپنے قبیلے کی روایات تھیں، جانو اپنے ماحول میں قید تھا۔ شبیرے کی ماں کہنے لگی۔ شبیرے کے ابا! مجھ سے شبیرے کی بیمار حالت دیکھی نہیں جاتی، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم سوچتے سوچتے دیر کردو اور ہم اپنے بیٹے کی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں، تم اپنا فیصلہ جلدی بدل دو۔
شبیرے کی بیماری اور اسپتال میں داخلہ
یہ سن کر جانو اپنے بچے کو اسپتال لے آیا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ تم نے بچے کو لانے میں بہت دیر کردی، اب تم اللہ سے اپنے بچے کی زندگی کی دعا مانگو، وقت پر طبی سہولت اور خوراک نہ ملنے کی وجہ سے بچہ بہت کمزور ہوگیا ہے۔ تھوڑی ہی دیر بعد قبیلے کا سردار شوکا بھی اسپتال پہنچ گیا۔ شبیرے کو بے ہوشی کی حالت میں دیکھ کر اس کے منہ پر چپ لگ گئی۔ وہ اندر ہی اندر اپنے فیصلے پر شرمندہ تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے مگر وہ منہ سے کچھ بول نہ سکا۔ ڈاکٹر نے جانو سے بچے کی بیماری کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا: ڈاکٹر صاحب! ہم خانہ بدوش ہیں، ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے، یہ زمین ہمارا بستر اور آسمان ہماری چادر ہے، اس کے آگے ہم کچھ نہیں جانتے، گلی گلی، محلہ محلہ گھوم کر بچوں کو جھولا جھلاتا ہوں، ایک دن میں نے اپنے جھولے کو اسکول کے سامنے کھڑا کیا ہوا تھا تو شبیرے نے اپنی عمر کے بچوں کو دیکھ کر کہا کہ ابا! لوگوں کے بچے تو سوہنے سوہنے کپڑے پہن کر اسکول میں پڑھتے ہیں، ابا میں بھی پڑھوں گا، ڈاکٹر صاحب! ہم اور ہمارے باپ دادا بھی نہیں پڑھے، ہم کبھی ادھر تو کبھی ادھر گھومتے پھرتے ہیں، کہیں ایک جگہ ہمارا ٹھکانہ نہیں ہے، اس بات پر غصے میں آکر میں نے اپنے بیٹے کو مارا اور وہ صدمے سے بیمار ہوگیا۔
ڈاکٹر کی تلقین
ڈاکٹر صاحب کہنے لگے، ہمارے ملک میں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جن کے پاس اپنا کوئی گھر نہیں اور وہ کرائے کے مکانوں میں زندگی بسر کرتے ہیں، پھر بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلواتے ہیں کیونکہ تعلیم کے بغیر روشن مستقبل نہیں ہوسکتا، آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کا بچہ آپ کے گھر علم کی روشنی لے کر آنا چاہتا ہے، اگر آج آپ اپنا فیصلہ نہیں بدلیں گے تو ساری زندگی خانہ بدوشوں کی قید سے نہیں نکل سکیں گے، آج آپ اپنے بچے کی جائز اور بہترین خواہش مان کر یہ ثابت کردیں کہ خانہ بدوش بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں۔
ڈاکٹر کی بات سن کر قبیلے کا سردار جانو کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مسکرایا اور بولا! تم اپنے بچے کی خواہش ضرور پوری کرو۔ ادھر سے نرس نے آواز دی۔ بابا جی! اپ کے بچے کو ہوش آگیا ہے، آپ اس سے مل سکتے ہیں اور جانو کو یوں لگا کہ جیسے اسے زمانے بھر کی خوشیاں حاصل ہوگئی ہیں۔