کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
کے خالق منیر نیازی اردو غزل کے ایک ایسے شاعر ہیں جن کی شاعری نے اردو غزل کو ایک نئی جہت دی۔ ان کی شاعری میں تخیل، رومان، اور اسرار کا ایک حسین امتزاج ملتا ہے۔ ان کی شاعری میں زندگی کے ہر رنگ کو پیش کیا گیا ہے۔ ان کی غزلوں میں محبت، نفرت، خوشی، غم، امید، اور یاس سب کچھ ملتا ہے۔
بانو قدسیہ نے کہا تھا، میں منیر نیازی کو صرف بڑا شاعر تصوّر نہیں کرتی، وہ پورا ’’اسکول آف تھاٹ‘‘ ہے جہاں ہیولے، پرچھائیں، دیواریں، اُن کے سامنے آتے جاتے موسم، اور ان میں سرسرانے والی ہوائیں، کھلے دریچے، بند دروازے، اداس گلیاں، گلیوں میں منتظر نگاہیں، اتنا بہت کچھ منیر نیازی کی شاعری میں بولتا، گونجتا اور چپ سادھ لیتا ہے کہ انسان ان کی شاعری میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ منیر کی شاعری حیرت کی شاعری ہے، پڑھنے والا اونگھ ہی نہیں سکتا۔
منیر نیازی کا ایک قصہ ریختہ میں شمیم حنفی نے بتایا کہ
”نارنگ ساقی کے ہاں ایک دعوت میں منیر نیازی، قتیل شفائی، مجتبیٰ حسین، کیول سوری، سرور تو نسوی، کیلاش ماہر اور بہت سے دوسرے احباب جمع تھے۔ شعرو شاعری کا سلسلہ شعروع ہوا۔ سب لوگ سنا چکے تو قتیل شفائی نے منیر نیازی سے کہا، ’’کچھ سناؤ بھائی“۔چونکہ منیر نیازی سنانے کی حالت میں نہیں رہ گئے تھے لہٰذا انہوں نے کیول سوری سے کہا کہ وہ ان کے شعر سنائے۔ شعر سننے کے بعد قتیل نے منیرسے کہا کہ سوری شعر اچھے طور پر سناتا ہے بہتر ہے کہ لکھوابھی اسی سے لیا کرو“۔
منیر نیازی کی شاعری میں محبت کا موضوع بہت نمایاں ہے۔ ان کی غزلوں میں عشق کے مختلف رنگوں کو پیش کیا گیا ہے۔ ان کی غزلوں میں محبت کی سرشاری، محبت کی سادگی، اور محبت کی ناکامی کا درد سب کچھ ملتا ہے۔مثلا دیکھیے:
ستارے جو دمکتے ہیں
کسی کی چشم حیراں میں
ملاقاتیں جو ہوتی ہیں
جمال ابر و باراں میں
گزر جائیں گے جب یہ دن
یہ ان کی یاد میں ہوگی
اسی طرح منیر نیازی کی شاعری میں رومان کا رنگ بھی بہت نمایاں ہے۔ ان کی غزلوں میں خواب و خیال کی دنیا، طلسم خانے کی کیفیات، اور محبت کی راتوں کی رونق سب کچھ ملتا ہے۔
یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں
منیر نیازی کی غزلوں میں زندگی کے اسرار، کائنات کے اسرار، اور انسان کے وجود کے اسرار کا اظہار کیا گیا ہے۔
زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا
ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا
اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں
شام آ گئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا
دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر
دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا
منیر نیازی نے اپنی شاعری میں سماجی مسائل کو بھی موضوع بنایا ہے۔ ان کی غزلوں میں غربت، بھوک، نا انصافی، اور جنگ و جدل جیسے مسائل کو پیش کیا گیا ہے۔آپ کی شاعری کی ایک خاص خصوصیت ان کے استعمال کردہ زبان ہے۔ ان کی زبان سادہ، سلیس، اور رواں ہے۔ ان کی زبان میں کوئی تکلف یا تصنع نہیں ہے۔
آپ کی پیدائش 9 اپریل 1928 کو ہوشیار پور، پنجاب، برطانوی ہندوستان میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام محمد فتح خان تھا اور وہ محکمۂ انہار میں ملازم تھے۔ منیر نیازی کے والد کی وفات ان کی ایک سال کی عمر میں ہو گئی۔ ان کی پرورش ان کی والدہ نے کی۔
منیر نیازی کے ایک ہم عصر رحیم گل نے نہایت خوبصورتی سے ان کی ظاہری شخصیت کا خاکہ کھینچا ہے۔
’’ربع صدی قبل میں ایک نوجوان سے ملا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے سیاہ وسرخ قمیص میں اس کا چہرہ اور زیادہ سرخ نظر آتا تھا۔ اس کے سیاہ بال بانکپن سے اس کی پیشانی پر لہرا رہے تھے نیلگوں بھوری سی دو بڑی شفاف آنکھیں اس کے چہرے پر یوں جھلملا رہی تھیں جیسے سر خ ماربل میں سے دو چشمے ابل پڑے ہوں۔ ستواں ناک مگر نتھنے کچھ زیادہ کشادہ غالباً یہی وجہ تھی کہ اس کی قوت شامہ بہت تیز تھی اور وہ فطری طور پر بوئے گل اور مانس بو کی مکروہات اور خصوصیات پالیتا تھا۔ پہلی ملاقات میں منیر مجھے اچھا لگا“۔
منیر نیازی نے ابتدائی تعلیم ساہیوال کے گورنمنٹ دیال سنگھ گرائمر اسکول سے حاصل کی۔ اس کے بعد وہ لاہور کے گورنمنٹ صادق ایجرٹن کالج میں داخل ہوئے۔ کالج میں ان کی ملاقات مجید امجد سے ہوئی۔ مجید امجد کی صحبت نے ان کی شاعری پر گہرا اثر ڈالا۔
منیر نیازی نے اپنی شاعری کا آغاز 1940 کی دہائی میں کیا۔ ان کی پہلی غزل 1947 میں شائع ہوئی۔ ان کی ابتدائی غزلوں میں حب الوطنی کی لہریں نمایاں تھیں۔ 1950 کی دہائی میں ان کی شاعری میں رومان اور تخیل کا رنگ غالب آ گیا۔ گوکہ آپ نے فلموں کے گیت بھی لکھے ہیں اور اس میں کوئی دو رائے بھی نہیںکہ وہ مقبول بھی ہوئے لیکن اس کے باوجود آپ نے اپنی سنجیدہ شاعری کو اپنی پہچان بنایا۔
1970 ء کی دہائی میں منیر نیازی نے پاکستان ٹیلی ویژن پر پروگرام بھی کیے۔ ان پروگراموں میں ڈاکٹر محمد اجمل اور پروفیسر اشفاق علی جیسے لوگوں کی میزبانی کے فرائض سر انجام دیتے۔ اسی طرح وہ پاکستان ٹیلی ویژن کے ایڈوائزر کے طور پر بھی کام کرتے رہے لیکن اس ایڈوائزر شپ کی نوعیت زیادہ تر اعزازی قسم کی تھی۔
منیر نیازی کی اردو اور پنجابی شاعری کا دوسری زبانوں بالخصوص انگریزی زبان میں ترجمہ بھی کیا گیا ہے ۔حکومتِ پاکستان نے آپ کو ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور ’’پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ سے بھی نوازا تھالیکن اس کے علاوہ بھی منیر نیازی ایک بڑے اور اہم شاعر تھے۔
آپ کے 13 اردو اور پنجابی کے تین مجموعے شائع ہوئے جن میں اس بے وفا کا شہر، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، چھ رنگین دروازے، پہلی بات ہی آخری تھی، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی، ایک تسلسل اور دیگر شامل ہیں۔
آپ کا انتقال 26 دسمبر 20006ء کو ہوا،منیر نیازی کی شاعری نے اردو غزل کو ایک نئی جہت دی۔ ان کی شاعری نے اردو غزل میں تخیل، رومان، اور اسرار کا ایک نیا رنگ بھرا۔آپ اردو غزل کے ایک ایسے شاعر ہیں جن کی شاعری آج بھی قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔