پانی پت کی پہلی جنگ ظہیر الدین بابر اور ابراہیم لودھی کے درمیان 1526 میں واقع ہوئی بابر کی فوج تعداد میں کم تھی مگر اللہ نے اسے فتح سے ہم کنار کیا ابراہیم لودھی کی فوج تعداد میں زیادہ تھی مگر وہ شکست سے شرم سار ہوا ابراہیم لودھی میدانِ جنگ میں مارا گیا اس کی موت کا سبب وہ چاقو تھا جو بابر اپنے وطن فرغانہ سے ساتھ لایا تھا بابر ہندوستان کا نیا بادشاہ قرار پایا تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ یہی وہ شخص ہے جس نے مغلیہ سلطنت کی بنیاد ڈالی… بنیاد کافی مضبوط تھی لہٰذا اس پر جو عمارت تعمیر کی گئی وہ اورنگزیب کے دور تک تو صحیح رہی بعد ازاں حکمرانوں کی عیّاشیاں، آپسی عداوتیں اور ایک بھائی کا خون دوسرے بھائی پر حلال کر لینا،انہی سب وجوہات کی بنا پر بنیاد کمزور ہو گئی اور 1803 میں انگریزوں نے اس جگہ ایک نئی عمارت تعمیر کر کے اس پر اپنا جھنڈا لہرادیا… انا للہ وانا الیہ راجعون
پانی پت کی دوسری جنگ اکبر اور ہیمو بقّال کے درمیان 1556 میں ہوئی اکبر کی عمر اس وقت فقط نو سال تھی فوج کی کمان بیرم خان جو اکبر کا اتالیق تھا وہ کر رہا تھا ہیمو کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا گرفتاری کے بعد منہ دکھائی کے لیے اکبر کے دربار میں لایا گیا ابھی اکبر صحیح سے اس کے منہ کا دیدار بھی نہ کر سکا تھا کہ بیرم خان نے آگے بڑھ کر تلوار سے اس کا منہ اس کے جسم سے جدا کر دیا، ہیمو بقّال کے منہ دیکھنے کی حسرت اکبر کے دل میں ہی رہ گئی پانی پت کی تیسری جنگ ابھی تک وقوع پذیر نہ ہو سکی اس میں بھی کوئی راز پنہا ہے اس کی تکنیکی وجہ جنگ کے ماہرین اور دانشور حضرات ہی بتا سکتے ہیں میری سمجھ سے تو باہر ہے۔
پہلے وقتوں میں جنگ کی پلاننگ کرتے وقت دونوں فریق سب سے پہلے کسی کھلے میدان کا تعیّن کرتے تھے تاکہ ماحول سازگار رہے اور دونوں فریق کے جانباز سپاہی کھل کر اپنی شجاعت ،رقابت اور عداوت کا مظاہرہ کر سکیں جنگ کے اصولوں میں با قاعدگی تھی۔ جنگ آغاز کرنے کا وقت صبح ناشتہ کے بعد کا ہوتا تھا، قبل اس کے کہ جنگ شروع ہو، دونوں فریق بگُل بجا کر ایک دوسرے کو انتباہ کرتے … آؤ کہ ہم تیار ہیں، آؤ کہ ہم بیدار ہیں اور پھر گھمسان کی جنگ شروع ہو جاتی تھی جنگ دوبدو ہوتی تھی کچھ مارے جاتے تھے کچھ زخمی ہوتے تھے شام سورج غروب ہونے سے قبل جنگ بند کر دی جاتی تھی تاکہ سپاہی اور دیگر افراد کچھ کھانا پینا کر کے آرام کر سکیں اور اگلے دن کے لیے اپنے آپ کو تیار کر سکیں اس زمانے میں UNOکا وجود بھی نہ تھا جو جنگ بند کرا سکے، دنیا والے نہ تو اتنے مہذّب تھے اور نہ ہی تعلیم یافتہ کہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑائیں لہٰذاد ونوں فریق اس وقت تک مبتلائے جنگ رہتے تھے جب تک کہ ایک کی فتح اور دوسرے کی شکست نہ ہو جائے ۔
مگر آج کی جنگیں اس کے برعکس ہیں نہ تو یہ دو بدو ہوتی ہیں اور نہ ہی جنگ کے میدان کا تقر ّرہوتا ہے بس جنگ کہیں سے بھی شروع ہو جاتی ہے میزائل اور بم پھینکنے کی جگہ ہونی چاہیے وقت کا بھی تعیّن نہیں ہوتا دن ہو یا رات دھڑا دھڑ میزائل پھینکے جاتے ہیں یو این او میں بار بار اجلاس ہوتے ہیں کہ جنگ کی آگ بجھائی جائے یا اور بھڑکائی جائے ،انصاف ایک چھوٹے سے لکڑی کے صندوق میں بند کر کے بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے اورخود غرضی کی بین بجا کر تعصبات کے ناگ کو پٹاری سے باہر نکال لیا جاتا ہے تاکہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہو سکے اجلاس شروع ہونے سے قبل یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ فیصلہ کس کے حق میں کرنا ہے اور کسے ذلیل و خوار کرنا ہے موقع کی مناسبت سے ساحر لدھیانوی کے دو اشعار یاد آگئے :
تم ہی کرتے ہو امن کا پرچار
تم ہی سامان جنگ بانٹتے ہو
تم ہی کرتے ہو قتل پہ ماتم
تم ہی تیر و تفنگ بانٹتے ہو
جنگ کے دو فریقوں میں ایک فریق کے حامی اور مددگار بہت ہوتے ہیں جو ہر اعتبار سے اس کی مدد کرتے ہیں دوسرے فریق کے زبانی جمع خرچ کرنے والے توہوتے ہیں مگر کوئی اس فریق کا مددگار نہیں ہوتا اور وہ بد نصیب ہے آج کے دور کا مسلمان بے یار و مددگار…
آج کی دنیا میں بسنے والے ایک ارب 75 کروڑ مسلمان خاموش تماشائی ہیں حماس پر کیا قیامت گزر رہی ہے مگر سب مہر بلب ہیں انہیں خدا کے خوف سے زیادہ زمینی خداؤں کا خوف ہے غیر مسلم اگر خوفزدہ ہوتا ہے تو صرف اور صرف مسلمانوں کے جذبہء جہاد سے اسے پتا ہے کہ یہی وہ جذبہء ایمانی ہے جس کے ذریعے طارق بن زیاد کی 12 ہزار افواج نے اسپین کی عیسائی بادشاہ کی ایک لاکھ فوج کو شکست دی تھی لہٰذا آج کے غیر مسلم حکمرانوں کی یہی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو عیّاشی اورآرام طلبی میں اس طرح مبتلا کر دو کہ لفظ جہاد ان کے ذہن سے ہی نہیںبلکہ ان کی روح سے بھی نکل جائے اور دوسری سب سے خطرناک بات مسلمانوں میںفرقہ بندی ہے جس نے امّتِ مسلمہ کو بے انتہا نقصان پہنچایا ہے کاش کہ دنیا کے سارے مسلمان ایک ہو کر ان یہودیوں کا مقابلہ کرتے جو حمّاس پر غضب ڈھا رہے ہیں… ’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‘‘ بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی آپ حضرات نے بھی ضرور پڑھی ہوگی ایک بوڑھے کے سات بیٹے تھے بوڑھے نے سات پتلی لکڑیاں ایک ساتھ باندھ دیں اور ہر بچّے سے کہا اسے توڑ دو کوئی نہ توڑ سکا مگر جب بوڑھے نے ساتوں لکڑیاں جدا کر دیں تو ہر بچّے نے اپنی اپنی لکڑی توڑ دی … بوڑھے کو اپنے بچّوں کو نصیحت کرنی تھی کہ اتحاد میں طاقت بھی ہے اور برکت بھی آج کی امّتِ مسلمہ کی عقل میں یہ چھوٹی سی بات کیوں نہیں آتی خلافتِ عثمانیہ کے دور میں مسلمانوں میں اتحاد تھا دنیا کے سارے یہودی اور نصرانی ان سے خوفزدہ تھے مگر بدقسمتی سے مسلمانوں کی غلطیوں اور دنیاوی مال و زر کی ہوس نے ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا اور مسلمان ٹکڑوں میں بٹ گیا یہیں سے خلافتِ عثمانیہ کا زوال شروع ہوا۔دورِحاضر میں اقتدار کے نشے میں چور مسلم حکمران یہ سمجھ رہے ہیں کہ اگر آج حماس کے گھروں میں آگ لگی ہے اور ان کے اپنے گھر محفوظ ہیں تو یہ ان کی خام خیالی ہے بقول راحت اندوری…
لگے گی آگ تو آئیں گے کئی مکاں زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
حماس اسرائیل جنگ کو آج ڈھائی ماہ سے اوپر ہو رہے ہیں مگر الحمدللہ حماس کے حوصلے ابھی تک بلند ہیں وہ اسی جراء ت اور بہادری سے ڈٹے ہوئے ہیں انہیں اللہ کی ذات سے پوری امید ہے کہ فتح انہی کی ہوگی شہدا کی قربانیاں رائگاں نہیں جائیں گی تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ جب کبھی مسلمانوں کی جنگ غیر مسلموں سے ہوئی ہے اللہ تعالی نے مسلمانوں کو تعداد کم ہونے کے باوجود فتح سے ہمکنار کیا ہے اس کی وجہ وہ جذبہء جہاد تھا جو مسلمانوں کی روح میں سمایا ہوا تھا آج بھی وہی کیفیت ہے حماس کی تعداد کم ہے مگر شوقِ شہادت کے جذبے نے اسرائیلیوں کو لوہے کے چنے چبانے پر مجبور کر دیا ہے’’ شہادت ہے مطلوب و مقصودِمومن‘‘ سر ِ دست جو پریشانیاں ہیں وہ عارضی ہیں …ابھی اندھیرا ضرور ہے مگر سحر تو ہونی ہے…ساحر لدھیانوی کا ایک شعر لکھ کر مضمون ختم کرتا ہوں…
کچھ اور بڑھ گئے جو اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم