غیبت کا کلچر اور اس کی بنیادیں

479

ہماری زندگی کا عام تجربہ ہے کہ جیسے ہی کہیں دوچار لوگ جمع ہوتے ہیں دیکھتے ہی دیکھتے ایک زبردست ’’غیبت کانفرنس‘‘ منعقد ہونے لگتی ہے۔ ایسی غیبت کانفرنسوں کا معاملہ عجیب ہوتا ہے۔ اس میں شریک ہر شخص غیبت کانفرنس کا ’’سامع‘‘ بھی ہوتا ہے اور اس کا ’’صدر‘‘ بھی۔ اہم بات یہ ہے کہ غیبت کانفرنس میں شریک لوگوںکے لیے غیبت کرنے میں بھی لطف ہوتا ہے اور اس کی سماعت میں بھی۔ اکثر لوگ غیبت میں اس شدت اور گہرائی سے شریک ہوتے ہیں کہ ان کی غیبت میں ایک ’’عالمانہ شان‘‘ پیدا ہوجاتی ہے اور اسے دیکھ کر خیال آتا ہے کہ غیبت کرنے والا ابھی ابھی اوکسفرڈ یا ہارورڈ سے غیبت میں پی ایچ ڈی کرکے لوٹا ہے۔ بعض رجحانات ’’طبقاتی‘‘ ہوتے ہیں یعنی ان کا اثر کسی خاص طبقے میں زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن غیبت کے دائرے میں سب ’’مساوی‘‘ ہیں۔ اس سلسلے میں امیر غریب، متوسط اور زیریں متوسط طبقے کی کوئی تخصیص نہیں۔ عالم جاہل میں کوئی فرق نہیں۔ مذہبی اور غیر مذہبی کا کوئی امتیاز نہیں۔ یہاں تک کہ مرد اور عورت میں بھی کوئی فرق نہیں۔ بلاشبہ خواتین غیبت میں زیادہ ملوث ہوتی ہیں لیکن مرد بھی غیبت کے ’’فن‘‘ میں اتنی اہلیت پیدا کرچکے ہیں کہ غیبت کے شعبے میں خواتین کے ’’شانہ بشانہ‘‘ جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔

یہ منظرنامہ کئی اعتبار سے حیران کن ہے۔ آپ کسی مسلمان کے سامنے خنزیز کے گوشت کا ذکر بھی کردیں گے تو اس کی طبیعت متلانے لگتی ہے۔ لیکن قرآن نے کہا ہے کہ غیبت کا عمل میں اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کی طرح ہے۔ تاہم مسلمانوں کی طبیعت جس طرح خنزیر کے گوشت سے ابا کرتی ہے اس طرح مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے ابا نہیں کرتی۔ آپ کسی مسلمان سے زنا کا ذکر کریں تو وہ کانوں کو ہاتھ لگانے لگے گا لیکن رسول اکرمؐ نے غیبت کو زنا سے زیادہ اشد یا شدید کہا ہے تاہم ہم غیبت اور اس کے مضمرات پر چونکتے تک نہیں۔ اس صورت حال نے غیبت کو ہمارا ’’کلچر‘‘ بنادیا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ رسول اکرمؐ نے غیبت کو زنا سے زیادہ شدید کیوں فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں غیبت کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ کیوں دی ہے۔

غور کیا جائے تو زنا صرف عصمت کی پامالی ہے لیکن غیبت پورے انسانی وجود کی پامالی ہے۔ تاہم ہم زنا کو شدید سمجھتے ہیں اور غیبت پر چونکتے تک نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کا سبب کیا ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ زنا ایک خارجی عمل ہے اور غیبت ایک باطنی عمل۔ لیکن اس بات کا مطلب کیا ہے؟ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ہم مذہب کو خارج میں تو پہچانتے ہیں لیکن باطن میں نہیں پہچانتے۔ یہ صورت حال ہماری ظاہر پرستی اور باطن سے غفلت کا ایک مظہر ہے۔ قرآن مجید میں غیبت کی ہولناکی کو نمایاں کرنے کے لیے غیبت کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے اس لیے تشبیہ دی گئی ہے کہ غیبت ایک یک سطحی ایک جہتی یا Single Dimensional عمل نہیں ہے۔ غیبت میں جھوٹ، بہتان، عیاری، مکاری، بے حسی، غرضیکہ بہت سی برائیاں جمع ہوجاتی ہیں۔ کہنے کو غیبت ایک لفظی عمل ہے۔ لیکن یہ نفسیاتی قتل ہے۔ جذباتی قتل ہے۔ ذہنی قتل ہے لیکن قتل کی عام واردات میں مقتول قاتل کی مزاحمت کرسکتا ہے۔ اپنا دفاع کرسکتا ہے۔ لیکن غیبت کے عمل میں مقتول اپنے قتل سے لاعلم ہوتا ہے۔ وہ اپنے دفاع کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے۔ یہ چیزیں غیبت کی ہولناکی کو بہت بڑھادیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید فرقان حمید نے غیبت کی کراہت کو شدت سے بیان کیا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آخر ہم غیبت کرتے ہی کیوں ہیں اور غیبت کا رجحان کیوں بڑھ رہا ہے؟

غیبت کا انسان کے ’’تصورات‘‘ سے گہرا تعلق ہے۔ انسان خود کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے لیکن وہ صرف اپنی برتری کے احساس پر قانع نہیں ہوجاتا۔ وہ اپنی برتری کو دوسروںکی کمتری سے ظاہر اور ثابت کرتا ہے۔ یہی چیز اسے دوسروں کی برائی پر اکساتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انسان دوسروں کی غیبت کرکے اپنا قد بلند کرتا ہے۔ یہ عمل غیبت کو انسان کے لیے لذیذ اور مرغوب بناتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو غیبت انسان کی خود پسندی کا شاخسانہ ہے۔ اور خود پسندی شیطان کا ورثہ ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو غیبت کے رجحان میں اس لیے اضافہ ہورہا ہے کہ ہمارے ماحول میں خود پسندی کو فروغ دینے والے عوامل بڑھ رہے ہیں۔ جو عالمی کلچر ہم پر مسلط ہے اس میں انفرادیت پسندی بڑھ رہی ہے۔ نفس کے تزکیے کے امکانات معدوم تو نہیں ہوئے مگر محدود ضرور ہوگئے ہیں۔ اب ’’دوسرا‘‘ ہمارے وجود کی توسیع نہیں اس کی ضد ہے۔ ’’دوسرا‘‘ ہمارا حریف ہے بلکہ ہمارا دشمن ہے۔ اس سلسلے میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ انسان خود کو دوسروں سے کمتر سمجھے۔ نظری طور پر نہیں عملاً۔ تصوراتی سطح پر نہیں وجودی سطح پر۔ انسان اگر خود کو دوسروں سے کمتر سمجھنے لگے تو وہ پھر دوسروں کی تعریف کرے گا ان کی مذمت نہیں۔ ان میں کمال تلاش کرے گا زوال نہیں۔

اسلام انسان کی تکریم کی ایک ایسی بلند سطح متعین کرتا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اسلام انسان کو اشرف المخلوقات کہتا ہے۔ انسان زمین پر اللہ کا نائب ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ انسانی جان کی حرمت سب سے بڑھ کر ہے۔ یہاں تک کہ رسول اکرمؐ کی ایک حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ انسان خانہ کعبہ سے بھی زیادہ محترم ہے۔ مولانا رومؒ نے فرمایا ہے کہ انسانی تہذیب کی اصل احترام آدمیت ہے۔ ہمارے صوفیا کہتے ہیں کہ انسان کائنات اصغر یعنی ایک چھوٹی کائنات ہے۔ یعنی وہ اس وسیع و عریض کائنات کا خلاصہ ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ کائنات کتنی وسیع ہے؟ ایک سائنسی اندازے کے مطابق اگر انسان روشنی کی رفتار سے سفر کرے تو اسے کائنات کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سفر کے لیے 25 ارب نوری سال درکار ہوں گے۔ انسان اتنی بڑی کائنات کا خلاصہ ہے۔ انسانی تہذیب کا یہ تصور انسان اگر کسی کے دل و دماغ پر رتی برابر بھی اثر انداز ہو تو وہ کسی دوسرے انسان کی عدم موجودگی میں اس کی برائی نہیں کرے گا۔ اس کی غیبت نہیں کرے گا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو غیبت کا بڑھتا ہوا رجحان اس امر کا غماز ہے کہ ہم اسلام کے تصورِ انسان کو یکسر فراموش کرچکے ہیں۔ ہماری نظر میں اپنی کوئی تکریم ہے نہ دوسروں کی۔ ہمارے ذہنوں پر انسان کا یہ تصور غالب آگیا ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے اور بس۔ چوں کہ ہم زیادہ سے زیادہ اس بات کے قائل ہوتے جارہے ہیں کہ ہم ایک سماجی حیوان ہیں اس لیے ہمارے معاملات میں حیوانیت بڑھتی جارہی ہے۔

غیبت کے مزید تین محرکات کو خواتین کے حوالے سے سمجھا اور بیان کیا جاسکتا ہے۔ جن میں غیبت کا رجحان مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

کائنات کے بنیادی اصول دو ہیں۔ وحدت اور کثرت۔ مرد وحدت کی علامت ہے اور عورت کثرت کی علامت ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ زندگی میں مرد کی دلچسپی کلیّات یا Fundamentals سے ہوتی ہے اور عورت کی فطرت جزیات کی طرف زیادہ راغب ہوتی ہے۔ لیکن جب جزیات پسندی منفی قوت بن جاتی ہے تو وہ آسانی کے ساتھ غیبت میں ڈھل جاتی ہے۔ کیوں کہ غیبت نفسیاتی سطح پر بال کی کھال اُتارنے، گڑے مردے اکھاڑنے اور ایک برائی کو ہزار برائیوں میں تبدیل کرنے کا عمل ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مردوں میں غیبت کا بڑھتا ہوا رجحان اس امر کا ثبوت ہے کہ مردوں کی فطرت میں جزیات پسندی در آئی ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مردوں کی بہت بڑی تعداد پر نسائیت یا نسائی رجحان کا غلبہ ہوگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح مغرب میں اور اس کے زیر اثر ہمارے یہاں بھی عورتیں مرد بنتی جارہی ہیں اس طرح مردوں میں ایک طرح کا زنانہ پن نمودار ہورہا ہے۔ کہیں یہ زنانہ پن خود کو نفسیات کے دائرے میں ظاہر کررہا ہے اور کہیں یہ زنانہ پن جسمانی ساخت میں بھی در آیا ہے۔

مردوں کے مقابلے پر عورتیں زیادہ باتونی ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لڑکیوں میں زبان سیکھنے کی اہلیت لڑکوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لڑکیاں لڑکوں سے بہت پہلے بولنا سیکھ لیتی ہیں۔ لیکن لڑکیوں کی زبان کا سانچہ گہرا نہیں ہوتا۔ لڑکیوں کی زبان جذبات اور احساسات سے بلند نہیں ہوپاتی۔ چناں چہ ان کی زبان میں ایک طرح کی خود کاریت یا Automation پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس لڑکے دیر میں زبان سیکھتے ہیں لیکن ان کی زبان کا سانچہ گہرا ہوتا ہے اور اس میں تفکر اور تعقل کی صلاحیت لڑکیوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ چناں چہ لڑکوں کی زبان میں خودکاریت یا Automation کم ہوتی ہے۔ خواتین کی زبان کی یہی خود کاریت انہیں مردوں کے مقابلے میں غیبت کا زیادہ عادی بناتی ہے۔

لیکن فی زمانہ مردوں کا لسانی سانچہ بھی سطحی اور سرسری ہوتا جارہا ہے اور ان کی زبان بھی جذبات اور احساسات سے زیادہ مغلوب ہورہی ہے اور اس پہ شعور کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مردوں کی زبان میں بھی خود کاریت درآئی ہے۔ اور وہ بھی غیبت پیدا کرنے والی مشین بن گئے ہیں۔

ہمارے تہذیبی نظام میں مردوں کی فکری اور سماجی کائنات بہت وسیع ہے۔ اس کے مقابلے پر خواتین کی فکری اور سماجی زندگی بہت محدود ہے۔ زندگی کا مشاہدہ، تجربہ اور علم بتاتا ہے کہ فکر و نظر کی وسعت انسانوں کو بہت سے پست رجحانات سے بلند کردیتی ہے۔ غیبت بھی کبھی ایسا رجحان تھا جس میں مرد کم کم ملوث ہوتے تھے۔ اس کے برعکس خواتین کی محدود فکری اور سماجی زندگی کا جبر انہیں غیبت جیسے رجحانات کی طرف دھکیل دیتا تھا اور آج بھی دھکیل دیتا ہے۔ لیکن ہمارے زمانہ تک آتے آتے یہ صورت حال ہوگئی ہے کہ مردوں کی فکری اور سماجی کائنات کا بھی سکڑ سمٹ کر رہ گئی ہے۔ ان کے وقت کا بیش تر حصہ معاشی جدوجہد کی نذر ہوجاتا ہے۔ باقی وقت انفرادی یا خاندانی زندگی میں صرف ہوجاتا ہے۔ اس زندگی کی نہ کوئی فکری جہت ہے نہ نظریاتی بنیاد۔ اس زندگی میں نہ کوئی اجتماعیت ہے نہ بین الاقوامیت اور آفاقیت۔ چناں چہ لوگوں کی دلچسپیوں اور ذوق کی سطح بھی پست ہوگئی ہے اور انہیں پست چیزوں ہی میں لطف آنے لگا ہے۔ ایک پست چیز غیبت ہے جس کی ہماری زندگی میں یہ اہمیت ہے کہ وہ ہمیں منفی معنوں میں لوگوں سے جوڑے رکھتی ہے اور اس کے ذریعے ہم یہ محسوس کرتے ہیں ہمارا بھی دوسروں سے تعلق ہے۔

حصہ