رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ابلیس اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے، پھر وہ اپنے لشکر روانہ کرتا ہے، اُس کے سب سے زیادہ قریب وہ ہوتا ہے جو سب سے بڑا فتنہ ڈالتا ہے۔ ان میں سے ایک آکر کہتا ہے: میں نے فلاں فلاں کام کیا ہے۔ وہ کہتا ہے: تم نے کچھ نہیں کیا۔ پھر ان میں سے ایک آکر کہتا ہے: میں نے اس شخص کو (جس کے ساتھ میں تھا) اُس وقت تک نہیں چھوڑاجب تک کہ اُس کے اور اُس کی بیوی کے درمیان تفریق نہ کرادی۔ وہ اس کو اپنے قریب کرتا ہے اور کہتا ہے: تم سب سے بہتر ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ پھر وہ اسے اپنے ساتھ لگالیتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم 2813)
سوچنے کی بات ہے دنیا میں اتنی کثیر تعداد میں شیطان کے پھیلائے گناہوں کی تعداد ہے، لیکن ان میں سب سے محبوب شیطان کے لیے میاں بیوی کی تفریق ہی کیوں؟ بہت غور کریں تو سمجھ میں آتا ہے کہ اس کی وجہ میاں بیوی کی محبت اور ایثار و قربانی کا مضبوط رشتہ ہے، یہ وہ قیمتی بندھن ہے جو ایک مضبوط و مستحکم خاندان اور معاشرے کی بنیاد ہے۔
آسانی سب کو پسند ہے اور کم محنت سے زیادہ کا حصول سب کے لیے پُرکشش ہوتا ہے۔ شیطان بھی اسی کو پسند کرتا ہے۔ اُس کے لیے مسلمان معاشرے کے ایک ایک فرد کو مختلف مشقتیں کر کے بہکانا زیادہ مشکل مرحلہ ہے، نسبتاً اس کے کہ سب سے طاقتور حملہ میاں بیوی کے تعلق پر کردیا جائے۔ جب بنیاد ہی کمزور ہوجائے گی تو خاندان اور معاشروں کو توڑنا اور گمراہ کرنا بھی آسان ہوگا۔
یہ حملہ صرف ان دو زندگیوں کو نہیں بلکہ ان کے ساتھ جڑے ہر رشتے کو متاثر کرتا ہے۔ ان کی اولاد، والدین، بہن بھائی، رشتے دار، دوست احباب غرض تمام خاندان کی جڑوں کو کمزور کردیتا ہے۔ اس حملے کا نقصان اس قدر وسیع ہوتا ہے کہ اس خاندان تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ مستقبل کے بننے والے نئے خاندانوں اور معاشروں کی بنیادیں بھی کھوکھلی کر ڈالتا ہے۔ جس نسل کی مضبوطی اور آبیاری کی ذمہ داری اللہ رب العزت نے میاں بیوی کی محبت، خلوص اور قربانیوں میں رکھی ہوتی ہے، جب وہ ذمہ داران، مالی اور محافظ خود ہی اپنے چمن کو بے سہارا، اجڑتا اور بکھرتا چھوڑ جائیں تو تصور کریں کیا رہ جاتا ہے!
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے ۔ اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو۔ اور رشتے و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو ۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے۔‘‘ (سورۃ النساء1)
بحیثیت عورت اگر دیکھیں، تو اللہ تعالیٰ نے اس سرسبز و شاداب چمن کی اصل کوکھ اس عورت کے رحم مادر کو بنایا ہے جہاں سے نئے پودے اور نئے گلستان جنم لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو صرف جنم دینے والا نہیں بلکہ اسے اس گلستان کی نگہبانی اور پروان چڑھانے کی وہ بیش بہا صلاحیتیں بھی عطا فرمائی ہیں جن کی بدولت وہ اللہ کی مدد و فضل کے ساتھ خوب صورت چمن وجود میں لاتی ہے۔ ایک عورت کے لیے اس کا یہ چمن ہی اس کی ساری کائنات ہوتا ہے اور بہت عزیز تر ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مرد کو اس چمن کا سربراہ بناکر اسے بھی اس چمن کی بہار کو برقرار رکھنے، اس کی حفاظت کرنے اور ضروریات پوری کرنے کی بھاری ذمہ داری سونپ رکھی ہے۔ یہ دونوں مرد و زن مل کر محبتوں کے ساتھ جس چمن کو پروان چڑھاتے ہیں وہ مسلم معاشروں کو مضبوطی فراہم کرتا ہے۔
افسوس آج عورت اپنے رب کے دیے ہوئے اتنے عظیم مقام و رتبے کو بھول کر شیطان کے پھیلائے ہوئے فتنے فیمینزم اور مغرب سے مرعوبیت کے جالوں میں پھنستی چلی جا رہی ہے۔
جس عورت کو نسلِ انسانی کی تربیت و پرورش جیسا عظیم کام ملا ہو، جسے امت کی نسلوں کا امین بنایا گیا ہو، وہ اتنے عمدہ اور بلند مرتبے، اور صدقۂ جاریہ کو چھوڑ کر کسی کمپنی میں ایک کاریگر بننا پسند کرے تو کیا یہ ناسمجھی نہیں؟
رسولؐ نے فرمایا ’’جب انسان مر جاتا ہے تو تین صورتوں کے سوا اس کے سب عمل منقطع ہوجاتے ہیں اور وہ یہ ہیں: صدقۂ جاریہ، وہ علم جس سے (بعد میں بھی) فائدہ اٹھایا جاتا رہے، اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔‘‘ (سنن نسائی)
ایک صحابی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ! میرے اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے ؟ فرمایا: تمہاری ماں۔ پوچھا: اس کے بعد کون ہے ؟ فرمایا: تمہاری ماں۔ انہوں نے پھر پوچھا: اس کے بعد کون ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ انہوں نے پوچھا: اس کے بعد کون ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا باپ۔‘‘ (صحیح بخاری)
جس عورت کو شوہر کا مضبوط حصار ملا ہو اور پھر بھی وہ اس جائے قرار کو چھوڑ چھاڑ کردرندوں کے مقامات پر سکون تلاش کرنے لگے تو کیا یہ بے وقوفی نہیں؟