رات کے ساڑھے تین بجے تھے، اچانک سمیع کے کمرے سے ہذیانی انداز میں چیخنے چلّانے کی بہت تیز آوازیں آنے لگیں۔ سمیع کے ماما، پاپا دونوں گھبرا کر اُس کے کمرے کی طرف دوڑے۔ سمیع کی آنکھیں بند تھیں، وہ پسینے میں ڈوبا ہوا تھا اور مسلسل اپنے پاپا کو پکار رہا تھا:
’’پاپا! مجھے بچاؤ‘‘۔ سمیع کی ماما نے اسے گلے لگایا اور اس پر آیت الکرسی پڑھ کے پھونکی۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اچانک سمیع کو کیا ہوا ہے؟ ماں کے گلے لگ کر شاید سمیع کو کچھ سکون ملا تو اس نے آنسوؤں سے بھری آنکھیں کھولیں اور ایک بار پھر شدت سے روتے ہوئے ان سے لپٹ گیا۔ ماما نے پانی کا گلاس اس کے ہونٹوں سے لگایا، وہ باقاعدہ سسکیاں لے کر رو رہا تھا۔
پانی پی کر جب اس کے حواس ذرا بحال ہوئے تو پاپا نے پیار سے پوچھا ’’بیٹا تم کیوں رو رہے تھے؟ ڈر گئے تھے کیا؟‘‘
سمیع روتے ہوئے کہنے لگا ’’شکر ہے ماما، پاپا! آپ لوگ ٹھیک ہیں، شاید میں نے خواب ہی دیکھا تھا کہ بہت سے فوجی ہمارے گھر میں گھس گئے ہیں اور انہوں نے فائرنگ کرکے آپ دونوں کو مار دیا ہے اور مجھے گھسیٹ کر اپنے ساتھ لے جارہے تھے۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا۔ ماما آپ کہیں مت جانا، میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘ سمیع بہت سہما ہوا اور پریشان تھا، اس کی آنکھوں سے اب بھی آنسو بہہ رہے تھے۔
ماما نے اسے تسلی دی۔ انہیں یاد آیا کہ کل سارا دن سمیع ٹی وی اور موبائل پر فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کی ویڈیوز دیکھ رہا تھا اور بہت افسوس کررہا تھا۔ ماما کہہ رہی تھیں ’’فلسطین میں ان مظلوموں پر جو کچھ گزر رہی ہے وہ تو ہم محسوس بھی نہیں کرسکتے جب تک ہم خود کو اُن کی جگہ رکھ کر نہ سوچیں، کیوں کہ فلسطین میں بچے، بوڑھے، عورتیں، جوان کوئی بھی ان ظالم اسرائیلیوں سے محفوظ نہیں ہے۔ انہوں نے مسلمان فلسطینیوں پر ظلم کی انتہا کردی ہے، لیکن ان کی بے انصافی روکنے والا یا ان مظلوموں کی جان چھڑانے والا کوئی نہیں۔ وہ دنیا بھر سے فریادیں کررہے ہیں، وہ اپنے حق کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے کو تیار ہیں، وہ اپنے گھر بار، اپنی اولادیں، اپنا مال و اسباب سب کچھ آزادی کی خاطر قربان کررہے ہیں۔ نڈر اس قدر ہیں کہ وسائل کی کمی کے باوجود جذبۂ جہاد سے سرشار ہیں اور دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے ہیں۔ وہ ہار ماننے کو تیار نہیں۔ وہ بھی تو ہم جیسے ہی انسان ہیں۔‘‘ سمیع کے ذہن میں یہی ساری باتیں تھیں جو خواب کی صورت میں اس کو نظر آئیں، اور یہاں اس نے فلسطینیوں کے بجائے خود کو اور اپنے گھر والوں کو اس جگہ پر محسوس کیا، اور جب یہ سب کچھ اس کو اپنے اوپر بیتتا نظر آیا تو وہ گھبرا گیا۔
ماما نے اسے سمجھایا کہ ’’بیٹا اس طرح رونے پیٹنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا، اگر ہمیں واقعی اپنے مسلمان بھائیوں سے ہمدردی ہے تو عملی طور پر اُن کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔ اس وقت اسرائیلیوں نے ان کی خوراک، لباس، زخمیوں اور بیماروں کے لیے دوائیں، حتیٰ کہ پانی تک بند کیا ہوا ہے، چند دن کے سیزفائر کے بعد کچھ امداد پہنچائی جا سکی ہے۔ یہ حالات ایسے ہیں کہ ہم مسلمانوں کا فرض ہے اپنے دینی بھائیوں کے لیے جو کچھ بھی ممکن ہو، کریں۔ ‘‘
سمیع نے کہا ’’ہم تو اتنے دور ہیں، ہم کس طرح اُن کے کام آسکتے ہیں؟ اگر میں فلسطین میں ہوتا تو ضرور اُن کے ساتھ مل کر جہاد کرتا۔‘‘
ماما نے کہا ’’جہاد کا فرض تو تم یہاں بیٹھ کر بھی ادا کرسکتے ہو، فلسطین تک چیزیں پہنچانا تو ممکن نہیں ہے لیکن ہم اُن کی مالی مدد تو کرسکتے ہیں۔ ہم قابلِ اعتماد اداروں کے ذریعے اُن تک اپنی امداد ضرور پہنچا سکتے ہیں کیوں کہ اسرائیلیوں نے ان کو ہر چیز سے محروم کیا ہوا ہے، وہ روٹی کے ٹکڑے تک کو ترس رہے ہیں۔ ان کا جو حال ہے وہ سوچ کر تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔‘‘ یہی باتیں کرتے کرتے فجر کی اذان ہوگئی۔ سمیع نے ماما، بابا کے ساتھ نمازِ فجر ادا کی اور مظلوم فلسطینیوں کے لیے خاص طور سے دعا کی۔ اس کے بعد بھی اُس کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔ صبح ہوئی تو اُس نے اپنی الماری کی دراز کھولی اور اس میں سے بہت سارے نوٹ نکالے جو کہ لگ بھگ تین ہزار روپے تھے۔ یہ پیسے کئی مہینوں سے سمیع اپنے جیب خرچ سے بچا رہا تھا۔ اسے کرکٹ کا ایک بہت خوب صورت بیٹ پسند آگیا تھا، جو خاصا مہنگا تھا، لیکن ان حالات میں اسے محسوس ہوا کہ میرا کرکٹ کا بلا اتنا ضروری نہیں جتنا ان مظلوموں کی امداد ضروری ہے۔
اتوار کا دن تھا، بابا گھر پر ہی تھے۔ وہ اُن کے پاس گیا اور کہا کہ بابا فلسطین کے لیے عطیہ دینے میرے ساتھ چلیں۔ ماما، بابا نے سمیع کو بہت پیار کیا اور دُعا کی کہ اس ننھے سمیع کا یہ عطیہ اللہ قبول فرمائے اور اللہ فلسطین کو فتح سے ہمکنار کرے، آمین۔ سمیع نے نہ صرف خود فلسطین کے لیے امداد دی بلکہ اپنے تمام دوستوں کو بھی اس بات پر آمادہ کیا کہ ہمیں اپنے مجبور اور بے کس بھائیوں کی مدد ضرور کرنی چاہیے۔ سمیع کے تمام دوستوں نے… کسی نے کم، کسی نے زیادہ… امداد دی۔ ان بچوں نے خصوصی دعا کا بھی اہتمام کیا، نصر من اللہ فتح قریب پڑھ کر اللہ سے فلسطین کی آزادی کے لیے دعا کی کہ اللہ ان مجاہدین کی قربانیوں اور شہادتوں کو قبول فرمائے اور قبلہ اوّل مسجد اقصیٰ میں مسلمان پھر سے آزادانہ اللہ کی عبادت کریں۔ اس عمل سے سمیع کے دل کو بڑا سکون ملا اور بے چینی کم ہوئی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان نیکی کا کوئی بھی کام کرے وہ سکونِ قلب کا باعث ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو نیکی، اخوت، بھائی چارے اور ہمدردی کے جذبات سے لبریز کردے، آمین۔