حریم ادب کی ایک شام

300

امام غزالیؒ کا قول ہے کہ ’’بری صحبت سے تنہائی اچھی ہے، لیکن تنہائی سے پریشان ہوجانے کا اندیشہ ہے، اس لیے اچھی کتابوں کے مطالعے کی ضرورت ہے۔‘‘

اسی بامقصد کام کو مشن بنائے خواتین کی ادبی انجمن ’’حریم ادب پاکستان‘‘ ادبی میدان میں مصروفِ عمل ہے۔ گزشتہ دنوں بیرونِ ملک مقیم معروف قلم کار بشریٰ تسنیم پاکستان آئیں تو نگراں حریمِ ادب کراچی عشرت زاہد اور ان کی ٹیم نے کراچی کی خواتین قلم کاروں کے ساتھ ان سے ملاقات کا اہتمام کیا۔

بشریٰ تسنیم کی معاشرتی، سماجی موضوعات پر کالم، مضامین اور افسانوں پر مشتمل گیارہ کتب منظرعام پرآچکی ہیں۔ ماہنامہ ’’بتول‘‘ کے قارئین عشروں سے آپ کے کالم ’گوشۂ تسنیم‘‘ سے مستفید ہوتے آئے ہیں۔ وقتِ مقررہ پر کراچی کی خواتین قلم کاروں کی بڑی تعداد معزز مہمان سے ملاقات کے شوق میں ہال میں موجود تھی۔ صائمہ راحت نے مہمان کا تعارف پیش کیا اور گفتگو کا سلسلہ جاری ہوا۔

لکھنے کی ابتدا کے بارے میں بشریٰ صاحبہ نے بتایا کہ بچپن میں ان کی نانی بہت شوق سے اور جذبات و احساسات سے آراستہ کرکے کہانیاں سناتی تھیں۔ لکھنے کے شوق کی ابتدا وہیں سے ہوئی۔ میں ان سے سن کر کہانی لکھ لیتی تھی۔ پہلی کہانی نو برس کی عمر میں شائع ہوئی۔ ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’بامقصد ادب لکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اللہ سے تعلق مضبوط ہو، پہلا کام اللہ سے جڑنے کا ہے۔ اللہ سے دُعا اور مدد کے ساتھ لکھیں تو اللہ خود لکھوا دیتے ہیں اور بعد میں ہم حیران ہوتے ہیں کہ کیا یہ ہم نے ہی لکھا ہے!‘‘

کیا موبائل کے استعمال نے ہمیں قلم سے دور کردیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’’جدید ابلاغی ذرائع قلم کار کے لیے نعمت ہیں، ان سے خوف زدہ نہ ہوں، یہ انسانی ارتقا کا حصہ ہیں۔ کی بورڈ ورق ہے اور آپ کی انگلی قلم، اسی شہادت کی انگلی کو اپنا گواہ بنایئے۔ اردو کی بورڈ کی عادت ڈالیے۔‘‘

اگلا سوال تھا کہ قلم پر جمود طاری ہوجائے تو کیا کیا جائے؟ بشریٰ تسنیم کا کہنا تھا کہ’’لکھنے کا عمل رک جائے تو مطالعے کا عمل نہ روکیں۔ موضوعات بدل بدل کر پڑھیں۔ ہلکا پھلکا ادب اور کہانیاں پڑھیں۔ یہ ذہنی تھکن دور کرنے کا ایک وقفہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد قلم دوبارہ تر وتازہ ہوکر رواں ہوجاتا ہے۔‘‘

محفل آگے بڑھ رہی تھی، شرکا کے ذہنوں میں نئے سوال اٹھ رہے تھے۔ ایک سوال آیا کہ پاکستانی اقدار میں آنے والی تبدیلیوں کو آپ کس نظر سے دیکھتی ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ ’’پاکستانی معاشرے میں بہت تیز تبدیلی آئی ہے، مادہ پرستی اور میڈیا کے یلغار نے معاشرتی مسائل کو بہت بڑھا دیا ہے، مگر اس سے مثبت سوچ رکھنے اور اصل کی طرف رجوع کرنے والے بھی سامنے آئے ہیں۔ خیر موجود ہے، ہمارا کام قلم کے ذریعے معاشرے کے خیر کو نمایاں کرنا ہے۔‘‘

محفل عروج پر پہنچ رہی تھی اور وقت کی کمی آڑے آرہی تھی، آخر میں انہوں نے مومن قلم کار کو حدیثِ مبارک سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ مومن قلم کار بھی صنوبر کے درخت کی مانند ہوتا ہے جس کی جڑیں گہری اور شاخیں آسمان کی وسعتوں میں بڑھتی ہیں۔ لہٰذا جدت کے ساتھ لکھیے، ہر موضوع پر لکھیے، ہر صنف میں لکھیے لیکن اپنے مقصد سے جڑے رہیے۔ قاری کے ذہن کو ایسے پکڑیں کہ وہ آپ کو پڑھنے کے لیے راضی ہوجائے۔ اگر آپ ایک جملے سے کسی کی جنت کی طرف رہنمائی کردیتی ہیں تو یہ آپ کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔‘‘

ہماری خوش نصیبی کہ کراچی حریم ادب کی سرپرست اور کراچی شہر کی ناظمہ اسماء سفیر صاحبہ بھی ہمارے درمیان موجود تھیں۔ اپنے کلمات میں انہوں نے حریم سے منسلک خواتین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس وقت زندگی کا ہر دائرہ دین کے حوالے سے محنت اور استقامت طلب کررہا ہے۔ اس چھت تلے بیٹھی خواتین کے لیے مبارک باد کہ وہ اپنے قلم سے خیر کے عنصر کو نمایاں کرنے میں مصروف ہیں۔‘‘
پروگرام کے اختتام پر لذتِ کام و دہن کا بھی اہتمام تھا اور ملاقاتوں کا بھی۔ اور یوں نگراں حریم ادب پاکستان عالیہ شمیم، ان کی نائب فرحی نعیم، کالم اور افسانہ نگار غزالہ عزیز، کراچی نشر و اشاعت کی نگراں ثمرین احمد اور ان کی نائب سمیہ عامر اور بہت ساری کراچی کی اہلِ قلم ساتھیوں سے سجی یہ محفل اختتام کو پہنچی۔

حصہ