زندگی اے زندگی

245

درد کی شدت نے اسے بیدار کردیا، آنکھ کھلی تو خود کو ملبے کے ڈھیر کے نیچے پایا، ہاتھوں کو حرکت دینے کی کوشش بھی بے سود رہی۔ جسم کا نچلا حصہ بے جان محسوس ہوا۔ حواس بیگانے ہوچکے تھے۔ خاموش سے زندہ لاش کی مانند دم سادھے پڑی تھی۔ زخموں سے ٹیس اٹھی اور گرم آنسوئوں کی لڑی بہتی ہوئی اس کے بالوں میں کہیں گم ہوگئی۔ اسے لگا کہ شاید وہ مرچکی ہے اور قبر میں ہے۔ کچھ دیر میں اس نے محسوس کیا کہ سر ہلا سکتی ہے۔ ٹوٹے سلیب کے تین ٹکڑے آڑے ترچھے ایسے گرے تھے کہ اس کا سراور چہرہ محفوظ تھا۔ بے یقینی کی کیفیت میں اطراف کا جائزہ لینا چاہا تو ملگجے اندھیرے میں اینٹوں اور مٹی کے ڈھیر میں خود کو دبا ہوا محسوس کیا۔ اسے یاد آیا کہ وہ تو چائے بنا رہی تھی، قریب ہی اس کا تین سالہ بیٹا سعد کھلونوں سے کھیل رہا تھا، اور اس کا شوہر کسی کام سے گھر سے باہر گیا ہوا تھا۔ چائے اور بسکٹ سجاکر اس نے ٹرے کو میزپر رکھا ہی تھا کہ ایک زوردار دھماکہ ہوا اور سب ختم ہوگیا۔ اس کے گھر تو چند دنوں میں ایک ننھا مہمان بھی آنے والا تھا۔ یہ سوچتے ہی اس کے منہ سے گھٹی گھٹی سسکیاں نکلیں جنہیں سننے والا کوئی نہ تھا۔ غم اور اذیت کا پہاڑ تھا جو اسے دبائے دے رہا تھا۔

سعد کہاں ہو گا…؟ شوہر کو آواز دینا چاہی مگر لب ہل کر رہ گئے۔ اگلا خیال جسم میں بسی اس ننھی سی جان کا آیا۔ کم ہوتی آکسیجن کے سبب حواس شل ہونے لگے تھے۔ اس کو لگا کہیں دور سے کوئی پکار رہا ہے۔ یہ اس کا شوہر تھا۔ ’’میری پیاری…! میری پیاری حفصہ…!‘‘

’’سعد، سعد!‘‘ یہ زید تھا جو گھر سے باہر ہونے کی وجہ سے بچ گیا تھا۔ اس نے بے یقینی کی کیفیت میں پکار کا جواب دینا چاہا۔ کمزور سی آواز نکلی… بس۔

…٭…

زید دیوانہ وار اپنی بیوی اور بچے کو پکار رہا تھا۔ ہاتھوں سے پتھر ہٹاتا، ملبے میں جھانک جھانک کر آوازیں لگاتا، مگرکہیں زندگی کے آثار نہ دکھائی دیتے تھے، پھر بھی ایک آس اور امید تھی جو اسے یہاں سے وہاں دوڑا رہی تھی۔ بار بار پکارتا ’’میری پیاری… میرا سعد…‘‘ بہت سے لوگ بھی اس کے ساتھ ملبہ ہٹانے میں لگے ہوئے تھے اور کچھ اُن غم کے ماروں کو جن کے گھر ہی ان کے پیاروں کی قبر بن گئے تھے، سنبھالنے میں مصروف تھے۔

بہت زوردار دھماکہ تھا، کتنے ہی گھر منہدم ہوچکے تھے۔ افراتفری مچی ہوئی تھی۔ لوگ گرد و غبار میں اٹے ہونق چہرے لیے اِدھر سے اُدھر دوڑ رہے تھے۔ قیامت کا سماں تھا۔ بس ہر طرف یہی تلاش تھی کہ شاید کوئی زندہ بچا ہوا ہو۔ زید کی حالت دیدنی تھی، شدتِ غم سے اس کی رگیں پھول رہی تھیں، زار و زار تھا، اشک بھری آنکھوں سے بار بار آسمان کی طرف دیکھتا اور پھر ملبے کے ڈھیر میں اپنے پیاروں کی تلاش شروع کردیتا۔

ادھر حفصہ نے جو باہر کی مدہم سی آوازیں سنیں تو وہ امید جو کچھ دیر پہلے ٹوٹنے لگی تھی پھر سے جڑ گئی، وہ بمشکل پکاری ’’زید…‘‘ پَر آواز حلق سے نکل کر اسی قبر میں گم ہوگئی۔ پھر زندگی کی اس میں قوت جمع کرکے تیز تیز پکارنے لگی۔

زید جو ملبے پہ کان ٹکائے ہلکی سے ہلکی جنبش کو بھی محسوس کرنے کی کوشش میں لگا تھا، اچانک خوشی سے چیخا ’’وہ اندر ہے… وہ زندہ ہے… اس نے مجھے آواز دی ہے۔‘‘

وہ چلاّ رہا تھا، رو رہا تھا۔ یہ وہ ڈور تھی جو محبت کے دھاگے سے بندھی ہوئی تھی، جو اس کی تڑپ کو اور بے قراری کو ملا رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب لوگ زید کے ساتھ مل کر تیزی سے پتھر اور ملبے کے ڈھیر کو ہاتھوں سے، ہتھوڑیوں سے ہٹانے لگے۔ بہت دیر کی اور بہت سارے لوگوں کی مسلسل کوشش نے اسے اپنی پیاری کے قریب کردیا۔ وہ لپک کر دیوانہ وار اپنی پیاری کے قریب گیا اور پاگل سا ہو گیا۔ بھاری سلیب کے ٹکڑوں اور اینٹوں کا ایک ڈھیر تھا جس میں وہ دبی پڑی تھی۔ وہ بے ساختہ لمحہ لمحہ موت کے منہ میں جاتی اپنی پیاری کے چہرے سے مٹی ہٹانے لگا جو ملبہ ہٹانے والوں کی نقل و حرکت سے اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی، اور کہتا جاتا تھا ’’کچھ نہیں ہوگا… کچھ نہیں ہوگا۔‘‘

فضا میں اللہ اکبر، اللہ اکبر کے نعرے بلند ہورہے تھے۔ دھماکے کے بعد جب کوئی ملبے سے زندہ سلامت نکلتا تو ان مظلوموں کے جوش و خروش اور ولولے بڑھ جاتے۔ بالآخر لوگوں کی کوششوں سے انتہائی زخمی حالت میں اسے نکال لیا گیا۔ جلد ہی ایمبولینس بھی آگئی اور اس کی پیاری حفصہ کو انتہائی تشویش ناک حالت میں اسپتال پہنچا دیا گیا۔ قریب ہی ملبے سے معصوم کمسن شہید سعد کی لاش بھی نکل آئی۔ زید مٹی اور خون میں لت پت اپنے کلیجے کے ٹکڑے کو سینے سے لگائے ’’حسبنا اللہ ونعم الوکیل‘‘ کہے چلا جا رہا تھا۔

حفصہ کی حالت بہت نازک تھی، زندگی کی کوئی امید نہ تھی، بس آخری سانسیں چل رہی تھیں۔ بالآخر ڈاکٹرز نے اس ننھی جان کو بچانے کا فیصلہ کیا جو اب بھی رحمِ مادر میں سانس لے رہی تھی، جس نے اس دنیا کی حقیقت کو جانا ہی نہ تھا۔ ادھر زید اپنے پیاروں کی زندگی ہارے بے سدھ اسپتال کے کونے میں پڑا تھا۔ یک لخت ایک ننھے امید کے چراغ کے رونے کی آواز نے اس کے خوابیدہ حواسوں پر ضرب لگائی۔ ڈاکٹر نے اس کا کاندھا ہلایا اور اس کی گود میں ایک اور سعد ڈال دیا۔ موت کی آغوش سے ایک زندگی نے جنم لیا تھا اورکمرہ اللہ اکبر کی صداؤں سے گونج رہا تھا۔

حصہ