یوم تاسیس :پاکستان طلبہ اور جمعیت

311

’’طلبہ ملک کامستقبل ہیں۔ ‘‘یہ جملہ آپ اکثر سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں ، لیکن پتہ نہیں آپ نے کبھی یہ بھی غور کیا ہے یا نہیںکہ اس مستقبل، ہونے سے آپ کے ’’حال ‘‘ کاکیا تعلق ہے ؟

بڑی صاف اور سیدھی سی بات ہے آج جو طالب علموں کا حال نظر آ رہا ہے وہ کل ملک کامستقبل ہوگا۔ یہی طلبہ ہیں جو کل مختلف میدانوں میں اپنامقام پیداکریں گے۔ ہر گوشہ زندگی پر انہی کی چھاپ ہوگی ، صحافت ہو یا سیاست ، تجارت ہو یا معیشت ، علم و فکر کے میدان کی ترقیاں ہوں یا مادی ذرائع و وسائل کی ترقی ، اجتماعی زندگی کے ہر دائرہ کار کو مردان کار ان ہی طالب علموں میں سے ملیں گے۔ اور یوں ملک کے مستقبل کی تشکیل اسی نہج پر ہوگی جس نہج پر آج کا طالب علم چل رہاہے۔ اگر آج طلبہ ذمہ داری و فرض شناسی ، دیانت و محنت ، خودداری و غیرت ، حب وطن و حب دین اور خدا کے حضور جواب دہی کے احساسات سے معمور ہیں تو پاکستان کے مستقبل کی قیادت انہی صفات سے متصف ہوگی ۔ اور معاشرہ انہی کاعکاس ہوگا اور اگر آج کے طلبہ میں غیر ذمہ داری و لا ابالی پن ، ذاتی مفادات کی پرستش ،مغرب کے سامنے احساس کمتری ، خداسے بے خوفی اور آخرت سے نڈر ہونے کا چلن ہے تو کوئی وجہ نہیںکہ کل کے پاکستان میں اس کا رواج نہ ہو۔ تقسیم سے پہلے جو نسل انگریز نے تعلیم دے کر تیار کی تھی ، اس میں مخصوص غلامانہ کردار اور خاص قسم کی خوبیاں پرورش دی تھیں۔ ہماری آج کی قیادت ٹھیک اس ذہن و کردار اور انہی خوبیوں کامظہر ہے۔ یہ کل کے طالب علم، جو آج کا پاکستان ہیں اس حقیقت پر کھلے عام گواہ ہیں کہ طلبہ ملک کامستقبل ہوتے ہیں :

آج ہم طالب علموں کا جوکچھ حال ہے ، اس سے خود ہم سے زیادہ کون واقف ہوگا، ہمیں ہونا کیا چاہیے تھا اور ہم ہو کیا گئے ہیں ؟ آزادی ہم نے جن مقاصد کے لیے حاصل کی تھی ، ان کے لیے ہم کیاکررہے ہیں ؟ ہماری زندگی کا جو نصب العین ہونا چاہیے تھا کیا ہماری ساری جدوجہد اور مساعی اس کے لیے ہیں ؟ یہ کوئی ایسے سوالات نہیں جن کے جوابات کی ضرورت ہو ۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیںکہ ہمیں جو تعلیم وتربیت دی جارہی ہے وہ ہمیں اس حال کو تبدیل کرنے کے لیے نہیں ،بلکہ برقرار رکھنے کے لیے ہی تیار کررہی ہے ۔ یوں ساری ذمہ داری ہم طالب علموں پر خود آپڑی ہے ، ہماری اپنی بھی اور وہ بھی جو قاعدہ سے موجودہ کار فرما نسل کو اداکرنی چاہیے تھی۔ یہ دوچند ذمہ داری بڑی بھاری ذمہ داری ہے ، اگر ہم اس کو ادانہیںکرتے ہیں۔ اور بہاؤ کے رخ پر ہی بہے چلے جاتے ہیں۔ تو ہمارا جو حال ہوگا وہ تو ہوگاہی ، اس ملک کامستقبل اس کے حال سے بدتر ہوگا۔ ذرا آپ غور کریں۔ خدائے واحد پر ایمان رکھنے والے ایک نوجوان اور پاکستان کے ایک فرزند کی حیثیت سے یہ صورت حال آپ سے کیاتقاضا کررہی ہے ۔ ابھی وقت گیانہیں ، اس ملک کامستقبل ابھی ہمارے میں ہے لیکن اگر ہم ملک کے مستقبل سے آنکھیں بند کرلیں ، اپنے کو اس سے لا تعلق محسوس کریں اور اس کو اس نقشہ کے مطابق تعمیرکرنے کے لیے جس کی خاطر یہ علیحدہ خطہ پاک حاصل کیاگیا تھا، آج ہی سے ۔ جب کہ مستقبل ہمارے ہاتھ میں ہے۔ کچھ نہ کریں ، تو ہم سے زیادہ نادان اور ملک کابدخواہ کون ہوگا؟

جب دنیا کے نقشے پر کچھ لکیریں کھینچ کر ملک پاکستان وجود میں لایا گیا تو حقیقت یہ ہے کہ تاریخ نے بیسویں صدی کااہم ترین موڑی مڑا ، جغرافیائی لحاظ سے یہ دوعلیحدہ خطے محض اس بنیاد پر ایک وطن قرار دیئے گئے کہ یہاں کے رہنے والے ایک ہی نظام تہذیب و تمدن کو برپاکرکے آج کے دور میں کلمہ لا الہ الا اللہ کی فرمانروائی قائم کرنا چاہتے تھے۔ سرفروشی اور جاں بازی کی جولا زوال داستانیں شہیدان آزادی نے اپنے مقدس خون سے رقم کیں ، وہ صرف اس لیے تھیںکہ یہ ملک پھر سے اس نظام حیات کامظہر بنے جس کی برکتوں کامشاہدہ دنیانے چودہ ۱۴۰۰سو سال پہلے کیاتھا۔ ہندوستان میں رہ جانے والے چھ کروڑ مسلمانوں کے مستقبل کو ، ان کی جان ومال ، عزت وآبرو کو جس وجہ سے مستقل داؤ پر لگادیاگیا وہ بہرحال یہ نہ تھی کہ کچھ دوسرے علاقے کے مسلمانوں کو ملازمتوں اور تجارتوں میں آزادی سے کھل کھیلنے کے مواقع مل جائیں۔ اگر ہماری قیادت نے روز اول سے اس عہد کو پورا کیا ہوتا اور خدا اور رسول ﷺ کی حکمرانی قائم کی ہوتی تو آج دنیا خود یہ گواہی دے رہی ہوتی کہ ۱۴اگست ۱۹۴۷ء بیسویں صدی کااہم ترین دن تھا۔ ہماری حیثیت سسکتی ہوئی انسانیت کے لیے امن و سکون اور خوشحالی ، حقیقی مساوات اور بہترین نظام حیات کے ایک ایسے علمبردار کی ہوتی جس کی تقلید کرنے میں دوسری اقوام ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہی ہوتیں۔ لیکن بہرحال یہ ہوانہیں ہے ! جوکچھ ہوا ہے ، وہ تاریخ کاکتنابڑاالمیہ ہی سہی ، ایک حقیقت ہے اور اس صورت حال نے ہماری ذمہ داری کو اور گرانبار کردیا ہے۔

آزادی کے بعد ،ہماری جوکچھ بھی قیادت رہی ہے اس نے اُمت مسلمہ کو مایوس کیا ہے ، اور وہ اس امتحان میں ناکام رہی ہے جس میں اسے ڈالاگیاتھا۔ آزمائش کی اس کسوٹی پر اب ہم اس ملک کے نوجوان طالب علم کھڑے ہیں ۔ یہ ہمارے اختیار میں ہے کہ اپنے حال کو تبدیل کرکے اس ملک کے لیے ایک حقیقی باعزت اور اسلامی مستقبل کی بنیاد رکھیں۔

ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں ۔ ہم کوئی مشین اور کل پرزے نہیں جن سے جو کام چاہے کرالیاجائے اور جن کو جہاں چاہے فٹ کردیا جائے۔ ہم سوچنے سمجھنے والے دماغ اور حساس دل رکھنے والے انسان ہیں۔ ہمارے سینوں میں جذبات اور امنگیں کروٹیں لیتی ہیں ۔ ہم اس ملک کو اس عظیم نظریۂ حیات کے مطابق تعمیرکرنا چاہتے ہیں ، جس سے بہتر نظریہ اس کرۂ ارضی پر کوئی نہیں۔ دیہاتوں میں کھیتی باڑی میں مشغول نوجوان اپنے کو ان ذمہ داریوں سے بری محسوس کریں تو شاید انہیں حق بجانب قرار دیا جاسکے ، لیکن اگر ہم کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے نوجوان … قوم کے مستقبل سے اپنے کو لا تعلق قرار دے لیں اور ایک اچھے کیریئر کے علاوہ کوئی مطمح نظر نہ رکھیں تو سچ یہ ہے کہ پاکستان کے لیے اس سے بڑاسانحہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔

سوال یہ ہے کہ ہم اس ملک کے مستقبل کے لیے کیا کرسکتے ہیں ؟ جواب یہ ہے کہ ہم اپنا ’’حال ‘‘ بہتر کرسکتے ہیں ، ناممکن ہے کہ یہ بہتری ملک کے مستقبل پر اثر انداز نہ ہو ، جب یہ حال ملک کے مستقبل کی شکل میں ظہور پذیر ہوگا تو قوم بچشم سر دیکھے گی کہ اس کے نوجوان شہیدان آزادی سے غداری کے مرتکب نہیں ہوئے بلکہ انہوںنے اپنا فریضہ ادا کیا ہے ۔

یہ طے ہے کہ اس ملک کامستقبل اسلام ہے۔ یہ اس لیے حاصل کیاگیا ہے کہ اس کی فلاح اسی میں مضمر ہے اس کی بقا اسی پر منحصر ہے ۔ اگر یہاں پر کوئی نظام حیات ملک کے عوام کی خواہشات اور ان کی تمناؤں سے ہم آہنگ ہو کر برگ و بار لاسکتا ہے تو وہ اسلام کانظام حیات ہے۔ آج چند سوشلزم کانعرہ لگانے والے بھی نظر آتے ہیں ۔ یہ ہماری اٹھارہ سالہ ناعاقبت اندیشوں کامال ہے کہ سرخ جنت کے فریب میں مبتلا ان لوگوں کو اس وہم میں مبتلا ہونے کی گنجائش نظر آتی ہے کہ مسلمانوں کی یہ قوم جس نے یہ سرزمین حاصل نظام اسلام کی کا رفرمائی کے لیے کی تھی ۔ اشتراکیت کے راستے پر بھی لے جائی جاسکتی ہے۔ یہ ذمھ داری بھی ہم نوجوانوں کی ہے کہ ہم نظام اسلام کے حق میں اتنی فیصلہ کن فضا پیداکریں کہ سوشلزم کے ان نادان پرستاروں کو اپنا انجام خود نظر آجائے۔ بہرحال ان صداؤں سے ،اور اس واقعہ سے کہ ہماری قیادت کی روش اسلام کو اختیارکرنے کی روش نہیں ہے ، اس حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، ہماری منزل اسلام ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آج قوم ادھر ادھر بھٹک رہی ہو ، انجام کار اسے اپنی منزل پر پہنچنا ہے اورہم نوجوانوں کا یہ فرض ہے کہ اس کی رہنمائی کریں اور اسے اس منزل تک پہنچائیں۔

…اور اس کے لیے ہمارے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہے۔ زندگی کے اس نظام کا ہم خود عملی نمونہ بنیں جس کا نمونہ مستقبل میں ہم اس ملک کو بنانا چاہتے ہیں۔ اسلام کے لیے زبانی جمع خرچ کرنے والوں کی کمی نہیں ، ہم بھی یہ شروع کردیں تو نہ یہ اسلام کی خدمت ہوگی اور نہ ہی اپنی۔ اسلام کی ضرورت ان نوجوانوں کی ہے جو ایک غرتہذیب کی یلغار کے مقابلے میں دل و دماغ کے پورے اطمینان کے ساتھ ثابت قدمی سے اس کے پرچم کو پکڑ سکیں اور کسی مرحلے پر اسے سرنگوں نہ ہونے دیں ۔ مخالفتوں کے اس طوفان اور لغزشیں کہلانے والے اس ماحول میں ان کی زندگیاں خدا اور رسول کی ہدایات کانمونہ اور اس نظام زندگی کی برتری اور حقانیت پر منہ بولتی گواہ ہوں۔

آج سب سے مشکل کام یہی ہے کہ خدا کی ہدایت ، اسلام کے مطابق زندگی گزاری جائے لیکن سب سے زیادہ ضروری کام بھی یہی ہے پھر کیا ہم یہ کام نہ کریں گے۔

ہمارا فرض یہی نہیں ہے کہ ہم خود اچھے مسلمان بن کر رہ جائیں ، ہمارا مسلمان ہونا ہی ہم سے یہ چاہتاہے کہ ہم اپنے ماحول کو بھی اسلام کے مطابق ڈھالے بغیر چین سے نہ بیٹھیں۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ایک ایک طالب علم کے اسلا م کانمونہ بنے بغیر ، یہ نہیںکہاجاسکتا کہ فرض اداکردیاگیا ہے۔ صحیح معنوں میں ہم اس وقت تک مسلمان ہو ہی نہیں سکتے جب تک کہ ہم دوسرے طالب علموں تک اسلام کی دعوت پہنچانے اور ان کی زندگیوں کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کی جدوجہد میں ہمہ وقت مصروف نہ ہوجائیں۔ یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ انسان اس زعم میں مبتلا ہوجائے کہ اس نے نیکی کی راہ اختیارکرلی ہے اور ماحول و معاشرے کو اور اپنے ساتھیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دے۔

شاید منزل دور نظر آئے لیکن آپ یہ کیوں بھولتے ہیں کہ خدا کے دین میں فطرتِ انسانی کے لیے بڑی کشش ہے ۔ آپ اس کے پرچم کو لے کر خلوص اور عزم و ہمت سے اُٹھ کھڑے ہوں ، آپ دیکھیں گے کہ خدا آپ کے ساتھ ہے اور کامیابی آپ کے قدموں پر ۔ اپنی زندگیوں کو اسلام کاحقیقی نمونہ بنائیے۔ آپ دیکھیں گے کہ چراغ سے چراغ جلے گا، شمع سے شمع فروزاں ہوگی اور تاریکیوں کے اس ماحول میں روشنی ہی روشنی ہوجائے گی …جب نوجوانوں کا ’’حال ‘‘ یہ ہو ، تو یقین رکھیے کہ اس ملک کے مستقبل کی اسلام کے مطابق تعمیر نو ہونے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہوسکے گی۔

ہمارا مقصد پاکستان کو دور حاضر کی نظریاتی کشمکش میں نظریۂ اسلام کے ایک تابندۂ مینار کی حیثیت سے پیش کرناہے۔ ایک ایک ایسا مینار جو جو سارے عالم کی رہنمائی کرے ، یہ بڑا بھاری کام ہے ہمیں علم و فکر کی دنیامیں مغرب کی برتری کا طلسم پاش پاش کرکے اپنی عظمت کا سکہ جمانا ہے ۔ ہمیں فن و مہارت کے میدان میں وہ کمالات دکھانے ہیں جن کے سامنے مغربی ماہرین کے کمالات ہیچ نظر آئیں ۔ ہمیں عالمی قیادت کے منصب سے ان کو اتار کر اسلام کو یہ مقام دلانا ہے۔ یہی ہم نوجوانوں کے لیے آج کے دور کا چیلنج ہے!

ہم نے یہ ملک اسی چیلنج کا جواب دینے کے لیے حاصل کیاتھا۔ ہمارے قائدین نے جو کچھ بھی کیاہو، اب یہ ہمارافرض ہے کہ ہم وقت کے اس تقاضے کا جواب دیں تاکہ تاریخ کی اس پکار پر لبیک کہیں اور اس ملک میں نظام اسلام قائم کریں تاکہ اپنے خدا کے آگے سرخرو ہوسکیں ۔ شہیدوں کے آگے سر اٹھاسکیں ، اور دنیا کو وہ راستہ دکھاسکیں جس کی وہ متلاشی ہے۔

لیکن یہ کام وعظوں اور تقریروں سے ہونے والا نہیں ۔ اور نہ ہی ہمتیں ہارنے والوں نے دنیا میں کبھی کوئی کام کیاہے ۔ تاریخ کے صفحات گواہ ہیںکہ بڑے سے بڑے انقلابات عزم و ہمت کے بل پر لائے جاسکتے ہیں اور پھر ہمارے ساتھ تو خداوند تعالیٰ کی ذات ہے !

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس دین کو پور ا پورا اختیارکریں جسے خدا کا رسول لایا تھا۔ اور جس کو قبول کرکے مٹھی بھر صحابہ ؓ نے تاریخ انسانی کاعظیم ترین انقلاب برپا کیا ۔ کوئی وجہ نہیں کہ اس دین کو اختیارکرکے آج ہم بھی اس قوت کے خزانے کے مالک نہ بن جائیں۔

’’مستقبل ‘‘ سنوارنے کی اس کے علاوہ کوئی راہ نہیںکہ ہم اپنے ’’حال ‘‘ کو اسلام کے مطابق ڈھالیں اور اسلامی جمعیت طلبہ اس دعوت کی علمبردار ہے ۔

اگر آپ کے سینے میں دل بیدار ہے ،اگر آپ کے اندر دین و وطن کے لیے کچھ تمنائیں اور آرزوئیں مچلتی ہیں تو یقین کیجیے کہ آپ کامقام اسلامی جمعیت طلبہ ہے۔ یہ تنظیم پاکستان کے طلبہ کے اس عزم کی مظہر ہے کہ یہاں اسلام کا بول بالا ہوا ور یہاں کامستقبل اسلام کے مطابق تشکیل پائے۔

ہمارے ساتھ آئیے !

اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ آئیے تو ہم دراصل یہ کہتے ہیںکہ اپنے فرض کو پہچانیے اور اس کو ادا کیجیے۔!

حصہ