کیا آپ دونوں کے ذہن میں اس سلسلے میں کوئی سوال ہے۔
دونوں نے بیک وقت کہا کہ یقیناً ہے۔
جب ہم پربت کی رانی کی مہم سر کر کے لوٹ رہے تھے تو کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد ہماری گاڑیاں جب ایک مقام پر رکیں تھیں، وہاں آپ کے اہل کار نے ہم سب کو پربت کی رانی کی آواز میں مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ ایسی خاتون کو اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتے جو پربت سے واپس نہیں جانا چاہتی۔
جواب میں کہا گیا کہ آپ دونوں اس سلسلے میں کیا کہنا چاہتے ہیں۔
ہم صرف یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اہل کار پربت کی رانی کی مہم پر جانے سے قبل آپ کے پاس کتنے عرصے سے ڈیوٹی انجام دے رہا تھا۔ یہ سوال سن کر ایک گھمبیر خاموشی سی چھا گئی۔ جواب آیا کہ ایک ماہ کی چھٹیاں گزارنے کے بعد وہ جب واپس اپنی ڈیوٹی پر آیا تو پربت کی رانی کی مہم پر جانے سے قبل وہ تین ماہ سے ہمارے درمیان ہی رہا۔ لیکن آپ دونوں اس بات سے کیا نتیجہ نکالنا چاہتے ہو؟۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہواؤں اور غذاؤں کا اثر 15 یا 20 دنوں کے بعد ختم ہو جاتا ہے تو پھر وہ 3 ماہ تک پربت کی رانی کے قبضے میں کیسے رہا۔
جمال اور کمال نے بیک وقت سوال کیا۔ ویلڈن، اس مرتبہ لاؤڈ اسپیکر سے آواز آئی جو اس گمان کی تصدیق کر گئی کہ سامنے بیٹھے تین ذمہ دار اہل کاروں کے علاوہ بھی کوئی چوتھا اس گفتگو میں شریک ہے اور یقیناً پہلے ہونے والی گفتگو میں بھی کوئی نہ کوئی چوتھا فرد شریک رہا ہوگا۔
ہم از خود بھی اسی نکتے پر غور کرتے رہے ہیں اس لیے موجودہ رپورٹ پر اپنی رائے ماہر سائنس دانوں تک پہنچاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر سے ہواؤں اور غذاؤں کا جائزہ لیں۔ آپ دونوں کے جوابات سن کر خوشی ہوئی کہ آپ دونوں ہر ایک بات پر بہت باریک بینی سے غور کرتے ہیں۔ جمال اور کمال نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ رپورٹ غلط نہیں ہے جس کا ثبوت متاثر ہونے والی خاتون کا نارمل ہو جانا ہے۔
توپھر
لاؤڈ اسپیکر پر پوچھا گیا؟۔
پھر یہ کہ ہمیں یقین ہے کہ جن لوگوں کو بھی پربت کی رانی اپنا بنانے کے بعد مختلف ممالک میں بھیجتی ہے ان کو کہیں نہ کہیں سے غذائیں اور ہوائیں یا پھر اس کے نعم البدل کے طور پر کچھ اور ادویات وغیرہ فراہم کرتی رہتی ہے۔ جمال اور کمال کی یہ بات سن کر سامنے بیٹھے تینوں اہلکار چونک سے گئے۔ امکان یہی ہے کہ پسِ پردہ ان سب پر نظر رکھنے والا بھی ضرور چونکا ہوگا۔ سامنے بیٹھے تینوں اہلکاروں نے کچھ دیر بعد کہا کہ کمال ہو گیا۔ اس انداز سے تو ہم نے سوچا ہی نہیں تھا۔ اسپیکر سے بھی اسی قسم کی بات سامنے آئی۔ جمال اور کمال نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پربت کی رانی کی جانب سے ہر ہفتے دو ہفتے کے بعد کسی کا آتے رہنا اور ہوائیں یا غذائیں فراہم کرنا آسان کام نہیں۔ ہمارے ملک میں تو شاید ایسا کیا جا سکے کیونکہ اس نے ہمارے ہی ملک کو ہدف بنایا ہوا ہے لیکن دنیا کے دیگر ممالک میں اس کے تربیت یافتہ لوگ جو بھیجے گئے ہیں ان سب تک مسلسل رسائی بہت مشکل کام ہے، اس لیے ہمارے خیال میں ایسے لوگوں کو تمام غذائیں اور ہوائیں یا ان کے متبادل ادویات ہر ملک میں مقامی سطح پر تیار کرکے دی جاتی ہونگی۔
جمال اور کمال کا اتنا مدلل جواب سن کر کمرے میں کافی دیر تک گھمبیر خاموشی چھائی رہی۔ صرف سانسوں کی آوازیں کسی کے ہونے کا احساس دلاتی رہیں۔
کمال ہے ہم نے اس پہلو پر غور ہی نہیں کیا۔ یہ صورتِ حال تو بہت خطرناک ہے۔ اب اس بات کا کیا اعتبار رہ گیا کہ ہمارے ایک معتمد اہل کار کے بعد کوئی اور کسی کے قبضہ قدرت میں نہیں ہوگا نیز اور بہت سارے سرکاری اور پرائیویٹ ادارے محفوظ ہونگے۔
آپ دونوں اس سلسلے میں کیا قدم اٹھا سکتے ہیں۔
ہمارا خیال ہے کہ اس سلسلے میں تمام تر تشویشوں کے باوجود گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ رپورٹ کا یہ پہلو بہت خوش کن ہے کہ پربت کی غذاؤں اور ہواؤں کا اثر عارضی ہے۔ ہماری رائے میں تو پہلے یہ بات ضروری ہے کہ ہر شے، خاص طور سے پربت پر موجود فضا و ہوا میں جو بھی زہر موجود ہے اس کا توڑ ایجاد کیا جائے۔ یہ کام ہمارے سائنسدان اور ماہرین ہی کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے شہروں، خصوصاً دارالحکومت کی حدود میں ان کے اڈے تلاش کرکے تباہ کئے جائیں اور پربت کی بستی کو تہہ و بالا کر دیا جائے مگر وہاں جس حالت میں بھی لوگ ہیں ان سب کی جانوں کو بچا لیا جائے۔ جب ان کو ہوائیں اور غذائیں یا ان سب کے متبادل ملنا بند ہو جائے گا تو یہ کچھ ہی ہفتوں بعد معمول کی زندگی کی جانب لوٹ آئیں گے۔ ایک بات کا خیال رکھا جائے کہ ان پر فضا یا زمین سے مسلح کارروائی سے گریز کیا جائے کیونکہ ہمارا خیال ہے کہ اگر اس میں غیر ملکی ہاتھ شامل ہے تو پھر اس کو دفاعی لحاظ سے یقیناً محفوظ بنایا گیا ہوگا۔ دنیا ہم سے بہت آگے نکل چکی ہے اور ظاہر ہے کہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ یقیناً دنیا کی بڑی طاقتوں کی ایما پر ہی ہو رہا ہے اس لیے ہمیں بہت ہی محتاط ہو کر ہر کام کرنا ہو گا۔
جمال اور کمال تو اپنی ذہانتوں کی دھاک بٹھا کر گھر آ چکے تھے لیکن خفیہ کے ادارے کے تمام ذمے داران انگشت بدنداں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دو بچوں کو کیا فہم و فراست عطا کی ہے جو ہر بات کو اتنی باریک بینی سے دیکھتے ہیں جس کو ہم سب بھی نہیں دیکھ پاتے۔ ساتھ ہی ساتھ سب پریشان بھی تھے کہ اب آئندہ کی منصوبہ بندی کیا ہونی چاہیے۔
جمال اور کمال انسپکٹر حیدر علی سے ملنے کے لیے بہت مضطرب تھے لیکن آج کل ان سے براہِ راست ملنے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ ملک کے ادارے نہیں چاہتے تھے کہ جمال اور کمال دشمنوں کی نگاہوں میں آ جائیں۔ اداروں کی بڑی خواہش تھی کہ جمال اور کمال اپنے موجودہ مکان اور محلے سے کسی اور محفوظ جگہ منتقل ہو جائیں اور ادارہ ان کو زیادہ سہولتوں والا مکان دیدے لیکن نہ تو جمال اور کمال اپنے محلے والوں سے دور ہو جانے اور نہ ہی ان کے والدین اپنی پرانی جگہ چھوڑنے کے لیے آمادہ تھے۔ (جاری ہے)