ہادیہ کو سائیکل چلانے کا بہت شوق تھا ایک دن اس نے اپنے ابو سے سائیکل کی فرمائش کی،امتحانوں کے بعد اس کے ابو اسے سائیکل دلانے لے گئے وہ بہت خوش ہوئی، خوبصورت سی لال سائیکل خرید کر وہ خوشی خوشی گھر آ گئی وہ اب روز سائیکل چلانے کی کوشش کرتی ، اسکول سے گھر آتے ہی کپڑے بدلتی اور سائیکل چلانے کی پریکٹس کرتی وہ بار بار سائیکل سے گر جاتی مگر دوبارہ کوشش شروع کر دیتی ایک دن ہادیہ سائیکل چلانے کی کوشش کر رہی تھی کہ سائیکل کا بریک دروازے میں آیا اور ٹوٹ گیا ، وہ بہت دل برداشتہ ہو گئی اور رونے لگی اس کے بھائی نے اس کا بہت مذاق اڑایا ،کہنے لگے ، تم کبھی سائیکل نہیں چلا سکتیں، ہادیہ پر ان کی باتوں نے بہت اثر ڈالا اور وہ سوچنے لگی کہ شاید بھائی ٹھیک کہتے ہیں میں کبھی سائیکل نہیں چلا سکوں گی ،اس نے مایوسی کے عالم میں اپنی سائیکل اپنے بھائی کو دے دی اب اس کا بھائی مزے سے سائیکل پورے محلے میں دوڑاتا پھرتا اور وہ سائیکل کو حسرت سے دیکھا کرتی، اکثر اس کو صاف کرتی اور چمکانے کی کوشش کرتی اور کبھی کبھی سائیکل پر بیٹھ کر تصور میں خود کو سائیکل چلاتا محسوس کرتی۔
آج ہادیہ اپنی دوست فرح کے گھر گئی اور اس کے چھوٹے بھائی معاذ سے کھیلنے لگی معاذ چھوٹا سا پیارا سا بچہ تھا ،اس نے نیا نیا چلنا شروع کیا تھا، ہادیہ اس کو پیار سے اپنے پاس بلاتی تو وہ رٹک رٹک کے اس کے پاس آتا ،گرتا، پھر اٹھ کر چل پڑتا ، ہادیہ اس کی شرارتوں سے بہت لطف لے رہی تھی، معاذ کو بار بار گرتے دیکھ کر ہادیہ کو یاد آیا کہ وہ بھی سائیکل چلاتے چلاتے اسی طرح گر جاتی تھی مگر دوسرا خیال جو اس کے دماغ میں آیا وہ یہ تھا کہ اگر یہ بھی میری طرح سوچ لے کہ میں نہیں چل سکتا تو یہ کبھی بھی چلنا نہ سیکھ سکے گا ۔
وہاں ہادیہ نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی دوبارہ سائیکل چلانے کی کوشش کرے گی اگلے دن اس نے دوبارہ سائیکل چلانے کی کوشش شروع کردی ،پورے یقین اور دیہان سے کوشش کی، وہ گری مگر ڈٹی رہی،ہمت نہ ہاری، مایوس نہ ہوئی، دوبارہ کوشش کی، بار بار کوششیں کیں اور آخر کار وہ سائیکل چلانے میں کامیاب ہو گئی۔
پیارے بچو! اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں کبھی بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور مستقل کوشش انسان کو ضرور کامیاب کرتی ہے۔