26 دسمبر 2012 کا دن اداسی لے کر طلوع ہوا۔ اس دن کی بے چینی اور گھبراہٹ ایسی تھی کہ جس کا اظہار ممکن ہی نہیں۔ دل ان جانے خوف سے اس تیزی سے دھڑک رہا تھا کہ جیسے پھٹ کر باہر آجائے گا۔ جب شام میں خبر موصول ہوئی کہ ہمارے ہر دل عزیز ابا جی ہزاروں سوگواروں کو روتا بلکتا چھوڑ کر نہایت پُرسکون چہرے کے ساتھ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ پاک ابا جی کے درجات بلند فرمائے۔ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ابا جی کی قبر کو نور سے بھر دے‘ آمین۔
اپنے ابا جی کے لیے قلم اٹھائوں تو سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ الفاظ کے چنائو کس انداز میں کروں کہ جس سے ابا جی کی شخصیت کا اظہار ہو سکے۔دروش صفت‘ دیانت دار‘ دین دار‘ سادگی اور شرافت کا مجسمہ‘ غرور تکبر سے پاک‘ ایثار و قربانی کا پیکر‘ بے باک سیاست دان‘ خدا اور رسولؐ پاک کے احکامات پر عمل پیرا‘ ایک سچے مسلمان تھے ابا جی‘ ایسے مسلمان جن کا شمار قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں جیسا ہو۔
ابا جی کا بچپن یتیمی کی صعبتوں اور تنگ دستی و سختی میںگزرا۔ ابا جی بتاتے تھے کہ ان کو اپنے والد کی بہت معمولی سی شکل یاد تھی۔ ایک عکس سا تھا جو ان کے ذہن میں موجود رہ گیاتھا۔ ابا جی اپنی والدہ سے بے پناہ محبت و عقیدت رکھتے تھے۔ والدہ کا ابا جی کے لیے مثالی پیار تھا۔
ہم نے ہوش سنبھالتے ہی گھر کا ماحول سکون والا دیکھا جہاں کوئی اونچی آواز سے بات نہ کرتا۔ ہم نے کبھی بھی ابا جی کو اونچی آواز سے بات کرتے نہ سنا‘ نہ ڈانٹتے نہ جھڑکتے دیکھا۔ ہمیشہ دھیما لہجہ اور خندہ پیشانی سے بات کرتے دیکھا۔ ابا جی کے مزاج میں کبھی کوئی سختی نہ دیکھی۔ ابا جی میں رحم دلی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ انسان ہی نہیں جانور سے بھی ہمدردی کی اعلیٰ مثال تھے۔ گھر میں بلیاں آتی جاتی رہتی تھیں ابا جی کی تاکید تھی کہ ان کو کھانا کھلایا جائے۔ امی بلیوں کے کھانے کا خاص خیال رکھتیں۔
امی ہمارے ابا جی کا خیال ایک بچے کی مانند رکھا کرتیں۔ خدا اور رسولؐ پاک کی اطاعت کے بعد امی کا اوّلین فریضہ ابا جی کی خدمت و اطاعت تھی۔ امی نے ابا جی کی بے لوث خدمت کی اور جواب میںکبھی کچھ نہ مانگا۔ ایسا لگتا کہ امی کے روپ میں اللہ پاک نے ابا جی کو بچپن کی سختیوں اور دکھوں و تکلیفوں کا انعام عطا فرمایا ہے۔ یہاں تک کہ امی کا ضعیفی کی وجہ سے دایاں ہاتھ اٹھ نہیں پاتا مگر وہ بائیں ہاتھ کی مدد سے دایاں ہاتھ اٹھا کر ابا جی کے لیے روٹی پکایا کرتیں۔ یہ خدمت گزاری کی اعلیٰ مثال ہے۔ امی نے کبھی ابا جی سے کوئی شکایت نہ کی بلکہ خندہ پیشانی سے گھر کے تمام امور سنبھالے اور اس کے لیے کبھی ابا جی کو پریشان نہ کیا۔ ابا جی کو سفید لباس ہی پسند تھا۔ ابا جی کا لباس شفاف‘ بے داغ ہوتا جس کا خیال امی رکھا کرتیں۔ ایک ایک بٹن اور سلائی چیک کیا کرتیں۔ ابا جی کے سفر کے کپڑے الگ رکھا کرتیں تاکہ اچانک سفر پر جانا ہو تو بیگ فوراً تیار ہو جائے۔
ابا جی اپنی مصروفیات کے باوجود بیٹیوں سے غافل نہیں ہوئے۔ وقتاً فوقتاً ہمارے ہاں آتے جس کی اطلاع ہمیں لالہ پہلے ہی دے دیا کرتے۔ اپنے ہاتھ سے موسم کی سوغات لاتے۔ نہ چائے پیتے نہ پانی۔ سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دیتے ’’جیتی رہو۔‘‘ ابا جی نے ایک بار بچوں کے کمرے میں قالین دیکھ کر کہا یہ اچھی چیز نہیں‘ اس میں بہت جراثیم موجود ہوتے ہیں۔ اس کے بعد سے آج تک کسی کمرے میں قالین نہیں رکھا۔ ہم نے ہوش سنبھالتے ہی ابا جی کے گھر میں اُن سب لوگوں کوجن کی وہ مدد کیا کرتے تھے‘ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔ بدتمیزی‘ بدتہذیبی اور بد اخلاقی سے ہمیں دور رکھا گیا۔ سب میں لالہ سرفہرست ہیں جن کو ابا جی اپنا بیٹا مانتے تھے۔ بہت سے افراد کی مدد ابا جی چھپ کر کیا کرتے ھے جس کی خبر لالہ کے سوا کسی کو نہ تھی۔
ابا جی سادگی و قناعت پسند تھے۔ کمرے میں مختصر سا سامان موجود تھا۔ ایک چھوٹی ٹیبل تھی جس میں رات کو لیمپ کی روشنی میں آٹھ کتابیں لکھ ڈالیں۔ کمرے میں ہر چیز نہایت سلیقے و قرینے سے رکھتے۔ کتابیں ایک ترتیب سے رکھا کرتے تھے یہاں تک کہ اپنے دھلنے والے کپڑوں کو بھی تہہ بنا کرکے رکھتے۔ اپنے جوتے خود پالش کیا کرتے۔ ابا جی کی غیر موجودگی میں اپنا وقت ان کے کمرے میں گزارتی۔ ابا جی کے کمرے میں عجب روحانیت اور سکون تھا۔ ان کے تکیے پر سر رکھنے میں بہت سکون ملا کرتا تھا۔ کمرے کی رکھی ہر شے اباجی کے درویشی صفت شخصیت کے سحر میں مبتلا کر دیتی۔ ابا جی نہایت نڈر اور بے باک سیاست دان تھے۔ حق بات کہنے سے کبھی نہ ڈرتے۔ مشکل ترین حالات بھی ہمت نہ ہارتے۔ ہماری امی بھی ابا جی کی طرح نڈر تھیں۔ 1977ء میں جب ابا جی گرفتار ہوئے تو امی نے سیاسی سرگرمیوں میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیا۔ خواتین کے جلوس کی قیادت کیا کرتیں۔
ابا جی جب جیل سے رہا ہوئے تو مجھے یاد ہے کہ انہوں نے آتے ہی مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا۔ پورا گھر اس دن مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ ابا جی کے گھر کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوئے تھے۔ گھر میں ابا جی جتنے لوگوں کو بھی کھانے پر مدعو کرتے امی اپنے ہاتھ سے ہی کھانا اور روٹی بناتیں۔ ہمارے ہاں بازار کی روٹی کا رواج ہی نہیں تھا۔
ابا جی سراپا محبت تھے‘ پیار سے سر پر ہاتھ کر دعا دیتے ’’جیتے رہو‘‘ اس دعا میں بلا کی تاثیر تھی ایسا لگتا یہ دعا ہمیں ہر طرح کی پریشانیوں سے نجات دلانے کا ذریعہ ہو۔
ابا جی ہر طبقے میں مقبول تھے‘ کوئی بھی مخالف جماعت موجود ہو وہ اپنا نظریہ نہایت خندہ پیشانیء اور خوش اسلوبی سے بیان کردیتے۔ ان کے چہرے کی طمانیت اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ ہمیشہ اللہ کی رضا کے راستے پر گامزن رہے۔
ابا جی کی رحلت سے ایک ہفتے قبل ملاقات کا شرف ملا۔ ضعیفی کے باوجود بھی ہمت اور طاقت کو جمع کرتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے میرے سر کر مضبوطی سے پکڑا اور دعائوں کی لڑی سی پرو دی۔ زندگی کا وہ لمحہ تاحیات نہیں بھول سکتی۔ اتنے سال گزرنے کے باوجود کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جو ان کی یاد سے خالی گیا ہو۔ اس وقت بھی ابا جی کا مطمئن چہرہ اس بات کی غمازی تھا کہ جیسے وہ اپنے خالق حقیقی سے ملنے کی خوشی سے سرشار ہوں۔
یا اللہ میرے والد کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرنا‘ ان کے درجات بلند کرنا‘ ان کی قبر کو نور سے بھر دینا‘ آمین۔