دنیا میں والدین کا راستہ وہ انمول رشتہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے‘ کسی کے جانے سے دنیا نہیں رکتی یہ سچ ہے‘ لیکن والدین کے جانے کے بعد دنیا میں کوئی ان جیسا مخلص نہیں ہوتا۔ جب تک والدین حیات اولاد بے فکر رہتی ہے‘ ان کے بعد کوئی مشورہ یا اچھی رائے دینے والا نہیں ہوتا بے شک بہن بھائی ایک دوسرے کے لیے ڈھال ہوتے ہیں لیکن ماں باپ کی کمی ہمیشہ رہتی ہے۔
میرے والد محترم پروفیسر عبدالغفور احمدؒ بھارت کے شہر بریلی میں پیدا ہوئے‘ بچپن میں والد کے سائے سے محروم ہوگئے۔ خاندان والوں نے معاشی مسائل کے ہاتھوں مجبور ہو کے ان کو ٹیلرنگ شاپ پر بٹھا دیا کہ اب کچھ کما کر ماں کا سہارا بنو۔ میرے والد کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ انہوں نے سلائی کے پہیے پر ہاتھ گھمانے کے ساتھ ساتھ قلم پکڑنے کا سلیقہ بھی سیکھ لیا تھا۔ اپنی تعلیم جاری رکھی غربت کی وجہ سے دیر تک تیل کا دِیا نہیں جَلا سکتے تھے تو اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں فیضانِ علم حاصل کرنا شروع کیا۔ انسان کی لگن سچی ہو تو اللہ کی مدد بھی حاصل ہوتی ہے۔ اللہ نے انتھک محنت اور لگن کی بہ دولت تعلیمی مراحل بخیر و خوبی پورے کروائے۔ ہر رکاوٹ آسانی میں تبدیل ہوئی اور تعلیم مکمل ہوئی۔ زمانۂ طالب علمی میں ہی ابا جی کے دوست جناب انور یار خان صاحب نے مولانا مودودیؒ صاحب کی لکھی کتابیں پڑھنے کو دیں‘ ان کے مطالعے کے بعد سے ابا جی نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی اور جماعت کے رکن بنے تعلیم مکمل کرنے کے بعد مختلف کالجز اور یونیورسٹیز میں پڑھایا‘ تدریسی عمل کے ساتھ ساتھ سیاسی مصروفیات بھی جاری رہیں۔ تعلیمی شعبے کی طرح سیاسی میدان میں بھی اصول پسندی اور دیانت داری کی شمع کو تھامے رکھا۔ سادگی کو اپنایا سچی بات بلا خوف و خطر کہتے جب طالب علم تھے تو جماعت اسلامی میں شامل ہوئے اور اپنی زندگی کی آخری سانس تک جماعت اسلامی سے وفاداری نبھائی۔
پاکستان کے سیاسی اُفق پر جلوہ گر ہونے والے بااصول اور دیانت دا و وضع دار سیاست دان کی حیثیت سے ابھرے۔ بلاشبہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ پروفیسر عبدالغفور احمدؒ اللہ کی مدد اور اپنی محنت و لگن سے ذرّے سے آفتاب بنے اور پاکستانی سیاست کے اُفق پر روشن ستارہ بن کر چمکے۔
ابا جی کی سیاسی خدمات کے حوالے سے تو قارئین نے بہت کچھ پڑھا ہوگا‘ گھریلو زندگی کے بارے میں کم ہی جانتے ہوں گے۔ میں نے سوچا کیوں نا ابا جی کے ساتھ گزرے وقت کو قلم بند کروں۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا اپنے والد کو سادہ زندگی گزارتے دیکھا۔ ہمیشہ سفید رنگ کا لباس زیب تن کیا۔ سادہ غذا لیتے۔ دن بھر میں صرف ایک وقت کا کھانا کھاتے‘ پانچوں وقت کی نماز باجماعت ادا کرتے۔ رمضان کے روزوں کے علاوہ نفلی روزے بھی رکھتے۔ مسکراتا چہرہ اور دھیمے لہجے میں بات کرنے کے عادی۔ اپنی اولاد سے ان کا تعلق ایسا تھا کہ سب کو یہ محسوس ہوتا کہ سب سے زیادہ اسی کو چاہتے ہیں۔ بیٹوں سے زیادہ اپنی بیٹیوں کو پیار کرتے۔ ہم سب کے اندر جو اعتماد ہے وہ والدین کی تربیت کی وجہ سے ہی ہے۔
امی اور ابا جی نے کبھی اپنی اولاد پہ سختی نہیں کی اپنے کردار و اطوار سے ہم سب کی ایسی تربیت کی کہ آج ماشاء اللہ ہم سب بہن بھی نماز کے پابند ہیں اور رمضان کے روزوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ ابا جی اکثر اس بات کا ذکر کرتے کہ الحمدللہ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ میرے بچے نماز کی پابندی اور رمضان کے روزوں کا اہتمام رکھتے ہیں۔ میری اللہ سے دُعا ہے اللہ ہم سب کو اپنے والدین کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے رکھے‘ آمین۔
سیاسی مصروفیات کے باوجود ابا جی ہماری تربیت سے غافل نہیں رہے۔ ابا جی کے کمرے میں فون کے برابر میز پہ ایک نوٹ بک رکھی ہوتی تھی۔ ابا جی کی غیر موجودگی میں اگر ان کے لیے کوئی فون آئے تو نوٹ بک پہ نام لکھ دیا جاتا کہ کس کس کا فون آیا تھا۔ ایک مرتبہ میں نے فون پہ بات کرکے نوٹ بک پہ نام لکھ دیا کہ کس کا فون آیا تھا۔ ابا جی نے گھر آکے جب نوٹ بک چیک کی تو پوچھا اس میں نام کس نے لکھے ہیں؟ میں نے کہا ابا جی میں نے فون اٹھایا تھا‘ میں نے نام لکھے ہیں۔ ابا جی نے پھر پیار سے سمجھایا کہ کبھی صرف نام نہیں لکھتے‘ ہمیشہ نام کے آگے صاحب لکھا کرو کہ فلاں فلاں صاحب کا فون آیا تھا۔ اس وقت سے اب تک اس بات پر ہم سب عمل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھریلو ملازمین کے لیے بھی سمجھایا گیا تھا اور ان کا بھی کبھی خالی نام نہ لیا جائے بلکہ ڈرائیور صاحب یا مالی صاحب کہا جائے۔
جب نیا نیا ٹیلی ویژن آیا تو ہم اس وقت چھوٹے تھے۔ ایک مرتبہ ہم بہن بھائی پڑوس میں ٹی وی دیکھنے چلے گئے۔ ابا جی گھر آئے تو امی سے معلوم کیا ’’بچے کہاں ہیں؟‘‘ امی نے بتایا ’’پڑوس میں ٹی وی دیکھنے کے لیے گئے ہیں۔‘‘
جب ہم واپس آئے تو ابا جی نے کسی سے کچھ نہیں کہا بلکہ دوسرے دن ہمارے گھر میں ٹی وی موجود تھا۔ بھائیوں کو ٹیبل ٹینس کھیلنے کا شوق تھا۔ ابا جی ٹیبل ٹینس کی میز گھر پر لے آئے تاکہ بچے کو گھر پر رہ کر ہی اپنے شوق پورے کرسکیں۔
ابا جی کی طبیعت میں مزاح کا بھی پہلو تھا۔ ایک مرتبہ میں نے ضد کی آپ جب لاہور جائیں گے تو مجھے بھی ساتھ لے کر جائیں۔ ابا جی نے کہا ٹھیک ہے کل جائوں گا تو ساتھ لے جائوں گا۔ میں خوش ہوگئی۔ دوسرے دن ابا جی جب جانے لگے تو میں نے پوچھا آپ تو کہہ رہے تھے کل جائوں گا تو تمہیں ساتھ لے جائوں گا‘ آپ تو اکیلے ہی جا رہے ہیں۔ تو ہنس کے کہنے لگے ’’کل کہا تھا کون سی والی کل یہ نہیں کہا اور کل تو کبھی آتی نہیں ہے۔‘‘ میں بھی ہنسنے لگی واقعی کل تو کبھی آتی نہیں۔
ہم سب کو ابا جی کی رفاقت میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ ابا جی کو جھوٹ بولنے اور غیبت سے سخت نفرت تھی۔ کھانے کی میز پر اکثر کہتے کھانا پکانے میں گھنٹوں لگتے ہیں اور ہم منٹوں میں کھانا کھا کر فارغ ہو جاتے ہیں۔ ہمیں ہمیشہ سمجھاتے یہ اللہ کا کرم ہے کہ کھانے کی میز پر جو کچھ بھی پکا رکھا ہے وہ ہم کھا سکتے ہیں ورنہ دنیا میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں ڈاکٹر نے پرہیز بتایا ہوا ہے وہ سب کچھ کھا پی نہیں سکتے اس لیے صحت کی قدر کرو اور اللہ کا شکر ادا کرتے رہو۔ کھانا کھانے جب میں ابا جی کو رات کی دوائیں دیتی تو کہتے اتنے مزے کا کھانا کھانے کے بعد یہ کڑوی دوائیں لے آتی ہو۔ جب کھانا سب ساتھ کھا رہے ہیں تو دوائیں بھی سب کو کھلایا کرو۔ یہ بات سن کر ہم سب ہنسنے لگتے۔
اس طرح کی بہت سی یادداشتیں ہیں جو ذہن کے پردے پہ موجود ہیں۔ ابا جی اور امی کی شخصیت سے جو ہم سب نے سیکھا وہ ہمارے لیے انمول تہفہ ہے۔ بے شک انسان محنت اور لگن سے کچھ حاصل کرنا چاہے تو اللہ کی رضا شامل حال ہوتی ہے۔
ابا جی نے اپنی محنت سے پاکستان کی سیاست میں نام پیدا کیا‘ ملک کی محبت ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ اسلم سعید صدیقی صاحب نے ابا جی کے لیے کیا خوب کہا ہے؎
ہمیں تو قوم و وطن پر نثار ہونا ہے
ہمارے پیشِ نظر اور کوئی کام نہیں