جنرل پرویز مشرف نے حزب اختلاف میں دراڑیں ڈال دی ہیں،پروفیسر غفور احمد کا ایک یادگار انٹریو

259

اے اے سید: آپ طویل پارلیمانی تجربہ رکھتے ہیں۔ موجودہ صورت حال کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

پروفیسر غفور احمد: پاکستان میں آزادانہ سیاست کو پنپنے کا موقع نہیں ملا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں بیشتر وقت فوج براہِ راست حکمراں رہی ہے اور بقیہ زمانوں میں بھی براہِ راست نہیں تو بالواسطہ اس کا اثر و رسوخ رہا ہے۔ 1988ء سے 1999ء تک جو حکومتیں تھیں بے نظیر صاحبہ یا نواز شریف صاحب کی‘ وہ منتخب حکومتیں تھیں لیکن وہ بھی قبل از وقت برطرف کی گئیں اور ان میں بھی فوج کا اثر و رسوخ بالکل نمایاں تھا۔ 1970ء میں الیکشن ہوئے دسمبر 1971ء میں ملک دو لخت ہو گیا‘ اس کے بعد 1972ء میں قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا جو کہ دستور ساز اسمبلی بھی تھی‘ پھر 1977ء کے انتخاب ہوئے‘ اس میں دھاندلی ہوئی اور پی این اے کی ایک تحریک چلی‘ پھر ایک مارشل لاء لگا اور یہ طویل مارشل لاء تھا اس کے بعد 1988ء کے بعد ایک نیا دور شروع ہوا۔ لیکن یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں آج سے زیادہ غیر مؤثر پارلیمنٹ کبھی نہیں رہی۔ یوں تو قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے‘ خواتین اقلیتوں‘ علماء اور دیگر لوگوں کو نمائندگی دی گئی ہے‘ سینیٹ کے ارکان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے‘ ان کے معاوضوں‘ سہولتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن عملاً پارلیمنٹ کا کوئی کام نہیں ہے‘ پارلیمنٹ میں یہ بھی ہوتا ہے کہ صدر مملکت اس سے خطاب کرے۔ لیکن وہ خطاب نہیں کیا جارہا ہے۔ پرویز مشرف کہتے ہیں کہ یہ غیر مہذب اسمبلی ہے اس لیے میں اس سے خطاب کرنا نہیں چاہتا۔ حالانکہ گریجویشن کی شرط پہلی مرتبہ عائد کی گئی ہے جس کے مطابق وہ شخص ہی پارلیمنٹ کا ممبر بن سکتا ہے جو کم از کم گریجویٹ ہو۔ جو قانون سازی کی گئی ہے وہ آرڈیننس کے ذریعے کی گئی ہے اور عملاً اقتدار کا ایک آدمی کے ہاتھوں میں ہے جو صدر بھی ہے اور آرمی چیف بھی ہے اور باقی سارے ادارے نمائشی بن گئے ہیں وہ چاہے ہماری پارلیمنٹ ہو یا الیکشن کمیشن ہو‘ یہاں تک کہ ہماری عدلیہ بھی۔ کسی پر بھی لوگوں کا اعتبار نہیں ہے۔ یہ ملک کے لیے بڑی خطرناک صورت حال ہے۔ بڑے بڑے فیصلے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر کیے جاتے رہے ہیں‘ مثلاً نائن الیون کو جب امریکہ کے اس وقت کے وزیر خارجہ کولن پاول اور صدر بش نے ٹیلی فون کیا جنرل پرویز مشرف کو کہ ہمیں آپ لاجسٹک سپورٹ دیجیے افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے تو انہوں نے کسی سے مشورہ نہیں کیا۔ یہاں فردِ واحد کی حکومت ہے۔ ملک اور چاروں صوبوں کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔ بلوچستان میں پہلے بھی بھٹو صاحب کے دور میں فوجی ایکشن ہوا تھا لیکن اس وقت جو صورت حال ہے‘ چھوٹے صوبوں میںاحساسِ عدم شرکت ہے‘ احساسِ محرومی ہے وہ اس سے پہلے اتنا کبھی نہیں تھا۔ سیاسی اور ملک گیر جماعتوں پر کام کرنے پر پابندی ہے‘ لیکن جو انتہا پسند لسانی‘ مقامی اور صوبائی جماعتیں ہیں ان کو کام کرنے کے مواقع حاصل ہیں۔ اس لحاظ سے ملک کی یک جہتی اور سالمیت پر بھی برا اثر پڑ رہا ہے۔ میں نے جو تحاریک جمع کروائی تھیں مقصد یہ تھا کہ ان پر بحث کی جائے جو کہ کبھی نہیں کی جاتی۔

امریکہ کی عملاً بالادستی ہے۔ ان کے احکام کی پابندی ہوتی ہے۔ ان ہی کے اشارے دیکھے جاتے ہیں۔ جتنے بھی ایکشن ہوئے ہیں ان کے کہنے پر ہی ہوئے ہیں۔ ابھی آپ نے دیکھا کہ الرشید اور الاختر ٹرسٹ پر پابندی لگائی گئی ہے۔ وہ تو رفاہی کام کر رہے ہیں‘ ان کا واسطہ تو سیاست سے نہیں ہے‘ لیکن ظاہر ہے ان کے پاس ایک آدمی ہے‘ انہوں نے کہا امریکہ میں پابندی لگی ہے‘ اس نے یہاں بھی پابندی لگا دی۔ لیکن جو کام وہ کر رہے ہیں وہ کام کوئی اور آدمی نہیں کر رہا ہے‘ ان کے جو رفاہی کام ہیں‘ ان کے شفا خانے ہیں‘ تعلیمی ادارے ہیں‘ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کوئی چیز پارلیمنٹ میں زیر بحث لائی ہی نہیں جاتی۔ بجائے عوام کی بالادستی کے اور ان کے اثر انداز ہونے کے‘ امریکہ اور اس کے اتحادی اثر انداز ہو رہے ہیں۔

اے اے سید: عام خیال یہ تھا کہ جمہوریت فوجی آمر کو کمزور کر دیتی ہے‘ لیکن اس بار بالکل اس کے برعکس تجربہ سامنے آیا؟

پروفیسر غفور احمد: جمہوریت میں تو فوجی آمر ہوتے ہی نہیں ہیں‘ جب جمہوریت ہوتی ہے تو اس وقت جو فوج کا سربراہ ہوتا ہے وہ صدر اور وزیراعظم کا ماتحت ہوتا ہے‘ اس وقت وہ آمر نہیں ہوتا۔ لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایک شخص فوج کا سربراہ بھی ہے اور مملکت کا سربراہ بھی ہے۔ ساری قوتیں ایک آدمی کے ہاتھ میں ہیں‘ ظاہر بات ہے ایسی صورت حال میں تو جمہوریت ایک نام نہاد ڈھکوسلہ ہے۔ جمہوریت تو ممکن ہی نہیں ہے کہ جب سربراہ مملکت بھی ایک ہو‘ سربراہِ فوج بھی ایک ہو اور سارے اختیارات بھی اسی کے پاس ہوں اور انتخابات کرانے سے پہلے ساری ترامیم کر رہے ہیں۔ اکتوبر 2002ء میں انتخاب ہوئے‘ اور ستمبر میں 29 ترامیم کر دیں آئین میں اور ان ساری ترامیم کا مقصد یہی تھا کہ اپنے اختیارات کی توسیع کریں اور کروا لیں۔ اور ظاہر ہے کہ اس توسیع کے بعد 1973ء کا آئین تو بالکل بدل گیا‘ پہلے پارلیمانی آئین تھا اور اب عملاً صدارتی آئین ہے۔ سارے اختیارات صدر کے ہاتھو ں میں ہیں۔ (ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ) اور فوج اور قوت آرمی چیف کے ہاتھوں میں۔ اس لحاظ سے تو مملکت کے سارے اختیارات ایک آدمی کے ہاتھ میں ہیں۔ ان سے وہ جو چاہتے ہیں‘ کرتے ہیں۔ آپؒ دیکھیں جہاں ان کی مسلم لیگ ’’ق‘‘ کی حکومتیں ہیں وہاںکے وزیر اعلیٰ یہ کہتے ہیں کہ جب تک مشرف چاہیں گے ہم وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو اسمبلی ہے اس کے ارکان کی حمایت نہیں‘ بلکہ مشرف کی حمایت ہوگی تو ارکان کی حمایت بھی مل جائے گی۔

ے اے سید: معاشرے کے بعض حلقوں کا خیال ہے کہ جمہوریت پرویز مشرف کے لیے پردہ بن گئی ہے جس کی آڑ میں انہوں نے پورے ملک کو امریکہ کے ہاتھوں گروی رکھ دیا ہے‘ کیا آپ اس تجزیے سے متفق ہیں؟

پروفیسر غفور احمد: وہ تو پہلے سے رکھا ہوا ہے۔ افغانستان پر حملہ تو اسمبلی آنے سے پہلے 2001ء میں ہوا ہے اور یہ جو بھی نام نہاد جمہوریت ہی اس کی وجہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھاکہ تین سال کے اندر انتخابات ہوں گے‘ تو اس پر انہوں نے مجبوراً 2002ء کے انتخابات کرائے اور وہ انتخابات جیسے کرائے ہیں پوری دنیا جانتی ہے کہ کس طرح کرائے ہیں۔ ایک لبادہ تو انہوں نے جمہوریت کا اوڑھا ہوا ہے لیکن پوری دنیا یہ بات جانتی ہے کہ جمہوریت کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ قومی اسمبلی کا کورم پورا نہیں ہو رہا۔ کورم پورا کرنا تو حکومت کی ذمہ داری ہے۔ وزرا نہیں آتے اسمبلی میں‘ انہیں خود کوئی دل چسپی نہیں ہے‘ انہیں معلوم ہے اسمبلی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

اے اے سید: پانچ سال تک امریکہ کے لیے سب کچھ کرنے کے بعد تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ ناٹونے ہمارے علاقے میں گھس کر حملے شروع کر دیے ہیں۔ امریکہ میں ایٹمی اسلحے کے پھیلائو کے حوالے سے قانون سازی ہو رہی ہے اور امریکہ نے پھر کہنا شروع کر دیا ہے کہ پاکستان اگر ہمارے ایجنڈے کے مطابق کام نہیں کرے گا تو ہم اسے سابق سکھائیں گے۔ ان حالات کو کس طرح آپ دیکھ رہے ہیں؟

پروفیسر غفور احمد: جوکچھ مشرف صاحب نے امریکہ کے لیے کیا ہے وہ کوئی بھی نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن اب محسوس یہ ہوتا ہے کہ امریکہ کا جھکائو بھارت کی طرف زیادہ ہے۔ اس بات کے باوجود کہ بھارت ایک ایٹمی قوت ہے اور اس کے پاس جوہری ٹیکنالوجی ہے‘ اس کے ساتھ دوستی بڑھ رہی ہے۔ اس کے برعکس امریکہ میں مئی 2003ء میں نقشے شائع کیے گئے جس میں انہوں نے کشمیر کی لائن آف کنٹرول کو مستقل لائن دکھایا‘ یعنی جو بھارت کے پاس حصہ ہے اس کا ہے اور جو یہاں ہے وہ پاکستان کے پاس رہے تاکہ اس طرح کشمیر قضیہ ختم ہو جائے۔ امریکیوں کا بھارت کی طرف جھکائو ہے اور پاکستان سے وہ دھمکیاں دے کر کام کہتے ہیں اور میرے خیال میں اس کا بہت بڑا سبب یہ ہے کہ وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی جو ایٹمی قوت ہے وہ کسی وقت بھی مذہبی جنونیوں کے ہاتھ لگ سکتی ہے‘ انتہا پسندوںکے ہاتھوں میں جا سکتی ہے۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اس پر قبضہ کرنا چاہتے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو تو آپ نے دیکھا ہے کہ بیماری کے باوجود اور کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود گھر میں بند ہیں‘ کسی سے مل بھی نہیں سکتے‘ علاج کا انتظام بھی نہیں ہے‘ لیکن اس کے باوجود امریکہ کا کہنا یہ ہے کہ ان کو ہمارے حوالے کر دو‘ ہم مزید پوچھ گچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اور پھر اصل اور بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ ہمارے ایٹمی اثاثے پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ہمیں انتہا پسند کہتے ہیں لیکن حقیقتاً دیکھا جائے تو امریکہ انتہا پسند ہے۔ صدر بش کٹر عیسائی ہیں‘ چرچ جاتے ہیں‘بائبل پڑھتے ہیں اور ان کا یہی مقصد ہے کہ عیسائیوں کا پوری دنیا میں عروج ہو‘ انتہا پسندی تو ان کی طرف سے ہو رہی ہے۔ جو کچھ وہ عراق میں کر رہے ہیں‘ لبنان میں جو کچھ کیا‘ فلسطین میں جو کچھ کیا‘ اسرائیل کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ پاکستان تو میرے خیال میں اس وقت بہت بڑے خسارے میں ہے کہ ان کی پوری طرح غلامی کرنے کے باوجود مسلسل اس کے اوپر ایک تلوار لٹکتی رہتی ہے کہ کب امریکہ ہمارے خلاف ایکشن لے گا اور ابھی جو امریکہ نے اپنی پارلیمنٹ میں قانون منظور کیا ہے کہ ہم جو 13 ملین ڈالر کی امداد یا قرضہ دینے والے ہیں وہ اس بات سے مشروط ہے کہ پاکستان اپنے نظام تعلیم میں تبدیلی کرے اور اس میں سے قرآنی آیات اور جہاد سے متعلق چیزیں حذف کی جائیں اور مدرسوں کو بند کیا جائے۔ یعنی یہ شرائط لگائی ہیں قرضہ دینے کے لیے۔ تو ظاہر بات ہے کہ ان کا ہدف یہی ہے اور حکومت یہ کام کر بھی رہی ہے۔ نصاب تعلیم میں تبدیلیاں کی جا رہی ہیں‘ مدرسوں کی اوپر ایکشن لیے جا رہے ہیں۔ یہ باتیں امریکہ انڈیا سے نہیںکہتا۔ وہاں بھی مدرسے ہیں لیکن وہاں وہ نہیں کہتے کہ مدرسے انتہا پسندی کا درس دے رہے ہیں یا ان کے ایٹمی اثاثے ان کے پاس جاسکتے ہیں۔ انڈیا کی تیرہ ریاستوں میں عملاً بغاوت ہو رہی ہے لیکن انڈیا سے مطالبہ نہیں ہوتا‘ پاکستان سے مطالبہ ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ ایک آدمی پر دبائو ڈال کر ہمیں کام لینا ہے۔ پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ وزرائے اعلیٰ اور وزیر تعلیم کی کوئی حیثیت نہیں ہے‘ مشرف پر دبائو ڈال کر وہ جب چاہتے ہیں کام کروا لیتے ہیں۔

اے اے سید: جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت کی موجودہ پالیسی کی روشنی میں مستقبل میں پاکستان کو کہاں کھڑا دیکھتے ہیں؟

پروفیسر غفور احمد: پاکستان ان شاء اللہ باقی رہے گا ‘ اس سے پہلے بھی بہت سے آمر آئے ہیں۔ اس سے پہلے بھی تین مارشل لاء آئے ہیں‘ پہلے ایوب پھر یحییٰ کا۔ یہ دونوں زندہ رہے اقتدار سے ہٹنے کے بعد بھی۔ جنرل ضیا الحق کے ہوائی جہاز کا کریش ہوا اور اس میں وہ جاں بحق ہوئے لیکن جنرل مشرف کے جو کارنامے ہیں ان کی بنیادپر میں اس بات کی پیش گوئی کرتا ہوں کہ جب یہ اقتدار سے ہٹیں گے‘ ایک دن بھی پاکستان میں نہیں رہ سکیں گے۔ اسی دن امریکہ یا بیرون ملک جانا پڑے گا‘ اس لیے کہ جتنی انہوںنے قوم و ملک کے خلاف باتیں کی ہیں وہ لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہیں۔ آج بھی آپ دیکھتے ہیں ان کے لیے کتنا سیکورٹی کا انتظام ہے‘ جہاں جاتے ہیں شہروں میں کرفیو تک لگ جاتا ہے۔ وہ اب بھی اتنے خوف زدہ ہیں کہ عوام میں آ نہیں سکتے تو اقتدار سے ہٹنے کے بعد تو پاکستان میں رہ ہی نہیں سکیں گے۔ وجہ اس کی ان کا آٹھ سالہ کردار ہے‘ اس میں انہوں نے قوم کی خدمت کرنے کے بجائے اپنی اور امریکہ کی خدمت کی ہے۔

اے اے سید: پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ ہر آمر کے خلاف تحریکیں چلتی رہی ہیں۔ ایوب خان کے خلاف‘ بھٹو کے خلاف‘ ضیا کے خلاف‘ نواز شریف کے خلاف تحریک چلی لیکن پرویز مشرف کے خلاف کوئی تحریک نہیں چل سکی ہے‘ اس کی کیا وجوہات ہیں؟

پروفیسر غفوراحمد: اصل میں جو تحریکیں چلی تھیں‘ آپ نے نام لیا بھٹو کا‘ وہ پی این این اے (پاکستان نیشنل الائنس)کی تحریک تھی‘ وہ نو جماعتوں کا مجموعہ تھا اور قوم کو ان کے اوپر اعتبار اور بھروسا تھا کہ یہ سیاسی جماعتیں ہین‘ ان کو اقتدار ملے گا تو یہ وہ کام پورا کریں گی جو ان کا منشور ہے۔ اس کے بعد ضیا الحق کے بارے میں جیسا کہ آپ نے کہا محدود تحریک چلی‘ جو میرا خیال ہے سندھ کی اندرونی حالات تک محدود تھی۔ پرویز مشرف کے خلاف تحریک نہیں چل رہی ہے‘ یہ بات آپ کی ٹھیک ہے‘ اس کی بنیادی وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ وہ اپوزیشن دراڑیں ڈالنے میں کامیاب ہو گئے ہیں‘خود اے آر ڈی ایک بڑا اتحاد ہے جس میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) شامل ہیں۔ ان دونوں کے اندر اختلافات ہوگئے ہیں۔ متحدہ مجلس عمل میں دو بڑی پارٹیاں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) ہیں‘ ان کے اندر بھی آپ نے اختلافات دیکھے ہیں استعفوں اور دوسرے معاملات میں۔ تو عوام جب دیکھتے ہیں کہ کوئی ایسی قیادت سامنے نہیں ہے تو میرا خیال ہے کہ وہ ایک حجاب ہے لوگوں کے سڑکوں پر نہ آنے کا۔ حالانکہ آج جتنی گرانی‘ بے روزگاری‘ بدامنی ہے اتنا کبھی نہیں تھی کہ ایک شخص یہ بورڈ لگا کر بیٹھ جائے کہ میرے بچے برائے فروخت ہیں‘ میں بھوکا ہوں۔ ایسا بھی کبھی نہیں ہوا تھا کہ مائیں اپنے بچوں کو خود دریا میں ڈال کر خودکشی کر لیں۔ تو یہ روز مرہ کی بات ہے‘ کوئی محفوظ نہیں ہے۔ کوئٹہ میں دھماکے ہوئے‘ جج سمیت 16 افراد جاں بحق ہوئے۔ ملک گیر مہم نہ چلنے کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن ایسی نہیں ہے جس پر پوری قوم کو اعتماد ہو۔ لیکن میرا خیال ہے کہ موقع جب بھی آئے گا اور انتخابات میں یہ موقع آئے گا اور لوگ اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ یہ موقع آجائے اور اس میں دو مواقع آئیں گے‘ ایک تو انہی اسمبلیوں سے مشرف کو صدر بنوانے کا فیصلہ جو انہوں نے پھر پی ٹی وی چینل میں کیا ہے کہ میں ان ہی اسمبلیوں سے اپنے آپ کو منتخب کرووائوں گا۔ تویہ موقع ہوگا پوری اپوزیشن کے ایک ہونے کا اور تحریک چلانے کا۔ اگر انتخابات میں بڑی دھاندلی ہوتی ہے جیسے حلقہ این اے 250 میں کی گئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں کیا گیا اور فوج‘ رینجرز‘ پولیس سب دیکھ رہے تھے اور یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ سب فیئر ہوئے ہیں۔ تو اس طرح آپ دیکھتے ہیں سارے لوگ کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں‘ ان کے ہاتھوں میں تماشا بنے ہوئے ہیں‘ اس لیے میرا خیال ہے کہ جب موقع آئے گا ایک ملک گیر احتجاج کا وہ اگلے انتخاب میں دھاندلی کی وجہ سے ہوگا۔

اے اے سید: سیاسی کارکنوں کی جدوجہد اور کردارکا مستقبل روشن ہے یا تاریک ہو گیا ہے؟

پروفیسر غفور احمد: سیاسی کارکن تو ملک کی بقا اور ملک کی حفاظت کے لیے کام کرتے ہیں اور اس لیے کام کرتے ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے۔ اس کی بقا اور حفاظت کے لیے کام کرنا ان کا دینی و قومی فریضہ ہے۔ ان کا مستقبل تابناک ہے۔ کامیاب ہوں یا کامیاب نہ ہو‘ ان کی ہر کوشش اللہ کے سامنے بھی مقبول ہے اور اللہ کے بندوں کے سامنے بھی۔

اے اے سید: آپ نے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ جنرل مشرف فوج کے ادارے کو بدنام کر رہے ہیں‘ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ فوج بحیثیت ادارہ وہ کچھ نہیں کرنا چاہتی جو یہ کر رہے ہیں؟

پروفیسر غفور احمد: دیکھیے ہماری فوج ایک ڈسپلنڈ فوج ہے اور فوج کا ڈسپلن قائم رہنا چاہیے‘ اس لیے کہ فوج میں انارکی ہوگی تو یہ ملک کے لیے بہت خراب ہوگا‘ لیکن فوج میں جو کام ہوتے ہیں وہ چوٹی کے لوگ ہیں جو ان کے لیے احکام صادر کرتے ہیں جیسے کور کمانڈر کی میٹنگ ہوتی ہے اس میں سب کچھ ہوتاہے تو یہ کور کمانڈر کی سطح کے چند لوگ ہیں جو یہ سب کر رہے ہیں۔ ابھی جو کچھ انتخابات میں ہواہے اس کی ساری ذمہ داری فوج پر جاتی ہے‘ ان کی وجہ سے یہ ہوا ہے۔ اس لحاظ سے نیچے جو فوج کے لوگ ہیں وہ تو تابع داری کرتے ہیںاحکام کی‘ لیکن ان کے طرزِ عمل سے ملک میں بدامنی‘ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ بدعنوانی‘ رشوتیں ہیں‘ اس لحاظ سے بدنام تو کور کمانڈر اور آرمی چیف نہیں ہوتا بلکہ پوری فوج بدنام ہوتی ہے اور فوج اور لوگوں کے درمیان بہت بڑی خلیج واقع ہوگئی ہے اور اب لوگ محبت کے بجائے فوج سے نفرت کرنے لگے ہیں‘ اس لیے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ڈنڈے کے زور پر ہم پر حکومت کی جا رہی ہے۔ اتنا حکم تو بیرونی طاقتوں نے نہیں کیا تھا جتنا یہ کر رہے ہیں۔ کسی کو کوئی آزادی میسر نہیں ہے۔ اس لحاظ سے ظاہر ہے فوج بدنام ہوئی ہے‘ کام کرنے والے چند لوگ ہیں بدنام ہونے والی پوری فوج ہے۔

اے اے سید: گزشتہ دنوں سینیٹر رضا ربانی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ آپ کو اس سے اتفاق ہے؟

پروفیسر غفور احمد: اس وقت بھی استعمال ہو رہی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ تو ہیں ایک فوجی بیورو کریسی اور ایک سول بیورو کریسی۔ یہ دونوں ہی عملاً حکومت کر رہے ہیں‘ صرف فوج حکومت نہیںکر رہی ہے۔ سول اسٹیبلشمنٹ ‘ سول سروس وہ بھی حکومت کر رہے ہیں‘ اور دونوں مل کر سارے کام کر رہے ہیں اور مخالف جماعتوں کے لوگوں کو توڑ کر اپنی جماعت میں شامل جاتا ہے‘ انہیں وزارتیں دی جاتی ہیں۔ یہ سارے کام اسٹیبلشمنٹ ہی کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس کی واضح مثال پیپلزپارٹی ہے جس کے کچھ منتخب ارکان کو توڑ کر پیپلزپارٹی پیٹریاٹ بنائی اور پھر یہ ارکان مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ یہ سارے کام اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ ایجنسیاں ہی کرتی ہیں۔ 1977ء کا جو مارشل لاء لگا اس میں بھی انہوںنے پارٹیوں کو استعمال کیا‘ کچھ لوگوں کو پی این اے سے توڑا‘ کچھ لوگوں نے بھٹو صاحب کو باور کرایا کہ آپ تو مستقل وزیر اعظم ہیں۔ ظاہر ہے ایسا ہوتا رہا ہے۔ پارٹیاں آزاد ماحول میں کام نہیںکر رہی ہیں بلکہ ایسا ماحول ہے کہ ان پر اوپر سے کچھ لوگ مسلط ہو جاتے ہیں۔ ریاست بڑی قوت ہوتی ہے‘ اس کے پاس خزانہ ہوتا ہے‘ فوج ہوتی ہے‘ سول اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے۔ ظاہر ہے اسٹیبلشمنٹ ریاست اورحکومت کی ایک بڑی قوت ہے‘ اس کا بے جا استعمال کرکے سیاسی جماعتوںمیں توڑ پھوڑ کی گئی ہے‘ اس میں شک کی بات نہیں ہے۔

اے اے سید: آپ نے ملک میں عریانی و فحاشی کے حوالے سے کہاکہ اس کا معاشرے میں سخت ردعمل ہوگا لیکن ہمیں 5 سال میں تو وہ کہیں بھی ہوتا نظر نہیں آتا‘ آپ کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ ردعمل پیدا ہوگا؟

پروفیسر غفور احمد: دیکھیں! ردعمل کا مطلب یہی نہیں ہوتا کہ لوگ سڑکوں پر توڑ پھوڑ کریں۔ ردعمل کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ اس سے لوگ اپنا تحفظ کریں۔ اتنی اس وقت فحاشی ہے‘ عریانی کا سیلاب ہے‘ لیکن آپ کراچی یونیورسٹی چلے جائیں آپ کو بہت بڑی تعداد میں طالبات پردے میں ملیںگی۔ مساجد میں آپ کو نوجوان بیٹھیں ملیں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سارے لوگ کلبوں میں جاتے اور شرابیں پیتے‘ فحاشی ہوتی‘ لڑکیاں‘ عورتیں بے پردہ ہو جاتیں‘ لڑکے سارے غلط راستوں پر چلے جاتے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ سارا ردعمل ہی ہے کہ لوگ اپنا تحفظ کر رہے ہیں اور صحیح راستے پر چل رہے ہیں۔

اے اے سید: انتخابات ہونے جا رہے ہیں‘ انتخابی فہرستوں زبردست دھاندلیاں ہو چکی ہیں‘ الیکشن کمیشن آزاد نہیں ہے‘ گزشتہ بلدیاتی انتخابات اور حال ہی ضمنی انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیوں کا ذکر آپ نے بھی کیا ہے۔ کیا ان حالات میں انتخابات ہونے چاہئیں اور ان میں سیاسی جماعتوں کو حصہ لینا چاہیے؟

پروفیسر غفور احمد: انتخابات ہونے چاہئیں اور سیاسی جماعتوں کو حصہ لینا چاہیے اور جو باتیں آپ نے بتائی ہیں یہ سب کے سامنے ہیں۔ جنرل مشرف کی موجودگی میں جو بھی انتخابات ہوںگے‘ وہ ایسے ہی ہوں گے جیسے اے این اے 250 کے ہوئے یا دوسرے بلدیاتی انتخابات اور ضمنی انتخاب اور ریفرنڈم ہواہے۔ لیکن جب ملک میں عام انتخابات ہوں گے اور ان میں اتنے بڑے پیمانے پر اگریہ دھاندلی کریں گے تو جیسا میں نے پہلے عرض کیا تھا آپ سے یہ وہ موقع ہوگاجب اپوزیشن جماعتیں متحد ہو کر کوئی فیصلہ کریں گی۔ اس وقت دونوں جو بڑے اتحاد ہیں اور دوسری جماعتیں جو اتحاد سے باہر ہیں وہ سب مل کر فیصلہ کریں گی کہ ہمیں انتخابات میں حصہ لینا ہے یا نہیں لینا ہے اور پھر وہ تحریک چلنے کا موقع ہوگا۔ تو سیاسی جماعتیں تیاری کر رہی ہیں انتخابات میںحصہ لینے کی جب کہ ان کی جانب سے انتخابات کو ڈھونگ بنانے کی کوشش کی جائے گی توظاہر بات ہے کہ سیاسی جماعتیںمتحد ہوں گی اورکوئی لائحہ عمل طے کریں گی کہ ہمیںکیا کرناہے۔

اے اے سید: بھٹو صاحب کے دور میں انتہائی کمزور حزب اختلاف تھی اور وہ ایک عوامی لہر کے ساتھ کامیاب ہو کر آئے تھے‘ لیکن اس وقت مفقہ اسلامی دستور بن گیا جس میں آپ بھی شامل تھے‘ اور آج پاکستان کی تاریخ کی مضبوط حزب اختلاف ہے۔ ان دونوں ادوار کی حزب اختلاف کے پارلیمانی کردارکا موازنہ آپ کس طرح کریں گے؟

پروفیسر غفور احمد: جیسا کہ میں نے کہا کہ جو ہماری پارلیمانی تاریخ ہے اس کی سب سے زیادہ بدترین صورت ہے۔ بھٹو صاحب کے دور میں جیسا کہ آپ نے خودکہا کہ اپوزیشن تعداد میں بہت تھوڑی تھی لیکن دستور بنانے کے لیے انہوں نے باتیں مانیں اور ایک متفقہ دستور بن گیا‘ اور اس کے باوجود مجھے یاد ہے میں قومی اسمبلی کا ممبر رہا تھا کہ ہم جو ترامیم دیتے تھے‘ جو مسودہ بل کا پیش کرتے تھے ان میں سے بہت ساری باتیں وہ مانتے بھی تھے اور منظور بھی کر لیتے تھے۔ لیکن جب بھٹو صاحب برسراقتدار تھے ظاہر ہے کہ وہ بھی بہت با اختیار تھے‘ لیکن اس وقت سیاسی جماعتیں بھی تھیں اور کچھ نہ کچھ رکاوٹ اور چیک ہوتا تھا۔ آج یہ رکاوٹ اور چیک نہیں ہے۔ ایک آدمی جب صدر مملکت اور فوج کا سربراہ ہوگا تو ظاہر ہے اس کے سامنے کسی کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ وہ روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر عریانی کو فروغ دے رہے ہیں بسنت میلہ اور میراتھن ریس کے ذریعے۔ ان کی تو کوشش یہ ہے کہ ملک میں فحاشی کا سیلاب آجائے اور امریکن سوسائٹی بن جائے‘ جس طرح وہاں مادر پدر آزادی ہے وہ یہاں ہو جائے۔ لیکن قوم ان کے راستے پر نہیں چل رہی ہے۔ ان کا اقتدار ختم ہونے کا اب وقت آگیا ہے۔ ایوب خان اور بھٹو کے دور سے بڑی تحریک چلے گی کیوں کہ اتنے برے حالات اس سے پہلے کبھی نہیں تھے۔

اے اے سید: سیاسی اور صحافتی مبصرین کا خیال ہے کہ فیڈریشن کمزور ہے۔ پرویز مشرف نے بھی اعتراف کیا ہے کہ فیڈریشن کمزور ہے‘ اس کا کیا سبب ہے؟

پروفیسر غفور احمد: فیڈریشن کمزور نہیں‘ مضبوط تھی۔ اس کو جنرل مشرف نے ہی کمزور کیا ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ صوبائی حکومت بنانے اور وہاں کے کاموں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ اُسی وقت مضبوط ہوں گے جب سارے کمزور ہو جائیں گے۔ وہ تو خود اپنی پارٹی مسلم لیگ (ق) کو بھی مضبوط نہیںہونے دیتے۔ مشرف صاحب کی مضبوطی کا راز یہی ہے کہ ان کے علاوہ ملک کا ہر ادارہ اور ہر شخص اور ہر پارٹی کمزور ہے اس کوجتنا آج خطرہ ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔

اے اے سید: پاکستان کی اریخ میں پہلی مرتبہ لاپتا افراد کا مسئلہ سامنے آیا ہے‘ لوگ غائب ہو جاتے ہیں‘ پتا نہیں چلتا کہاں ہیں؟ کئی صحافی بھی غائب ہیں۔ اس صورت حال کو کس طرح دیکھ رہے ہیں؟

پروفیسر غفور احمد: جتنے لوگ لاپتا ہوئے ہیں ان کو زیادہ تر خفیہ ایجنسیوں نے اٹھایا ہے۔ سپریم کورٹ بھی بے بس ہے‘ وہ بھی نوٹس نہیں لیتی ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے علم میں نہیں ہے کہ وہ کہاں پر ہیں۔ اور ظاہر ہے پولیس کہہ دیتی ہے کہ ہمارے پاس نہیں ہیں‘ فوج کہتی ہے ہمارے پاس نہیں ہیں۔ ایسا تو روس میں ہوتا تھا جہاں کے جی بی کے کارندے لوگوں کو اٹھا کر لے جاتے تھے یا شہنشاہ ایران کے دور میں ایران میں ہوا تھاکہ لوگوں کو اٹھا لیا جاتا تھا۔ اب پاکستان میں بھی ایسا ہو رہا ہے جو بھی ان کی مخالفت کرتاہے اٹھا کر لے جاتے ہیں اور ان کے خاندان والوں کو پتا بھی نہیں چلتا۔ کتنے ہی ان کے گھر کے افراد‘ عورتیں‘ بچے مظاہرے کرتے رہیں پارلیمنٹ کے سامنے کہ ہمیں یہ تو بتا دو کہ وہ زندہ ہیں یا مردہ۔ لیکن کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔ مشرف صاحب کا اقتدار اسی لیے ہے کہ وہ کہتے ہیں جو بھی ان سے اختلاف کرے گا اس کی سزا موت ہے۔

اے اے سید: مہنگائی‘ بے روزگاری انتہا پر ہے‘ خودکشیوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ پیٹرول کے نرخ بین الاقوامی نرخ کے مطابق بڑھائے جاتے ہیں کم نہیںکیے جاتے۔ عوام میں تاثر ہے کہ اس مسئلے پر سیاسی جماعتوں نے کبھی بیانات دینے اور چند مظاہرے کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا‘ اس تاثر کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

پروفیسر غفور احمد: میں یہی کہوں گا کہ سیاسی جماعتوں میں تفریق ہے‘ لوگوں کو اس طرح کا اعتماد نہیں ہے جس طرح پی این اے کی تحریک میں تھا‘ لیکن یہ چزیں زیادہ دیر تک نہیں چلیں گی اور وہ لمحہ آئے گاجب یہ سارے لوگ ایک ہوں گے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ جو جماعتیں کام کرتی ہیں انہیںسختی کے ساتھ رینجرز‘ فوج اور پولیس کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسی صورت حال میں چھوٹا موٹا اتحاد کامیاب نہیں ہو سکتا۔

اے اے سید: گرینڈ اپوزیشن الائنس نہ بننے کا کیا سبب ہے؟

پروفیسر غفور احمد: متحدہ مجلس عمل میں بھی اختلاف رائے ہے اور اے آر ڈی میں بھی اختلاف ہے‘ یہی وجہ ہے کہ لوگوں میں اعتماد میں پیدا نہیںہو رہا ہے۔ گرینڈ اپوزیشن الائنس نہ بننے کی بھی یہ وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کے نظریات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

اے اے سید: آپ پاکستان کے ان چند سیاست دانوں میں سے ہیں جنہوں نے مختلف سیاسی ادوار پر مکمل کتابیں لکھی ہیں لیکن آپ کے قارئین کا ایک حلقہ اس سے زیادہ کی توقع کرتا ہے‘ اس کا خیال ہے کہ آپ اپنا ذاتی‘ کھرا‘ بے لاگ تبصرہ بھی پیش کریں تاکہ تاریخ کا ریکارڈ درست ہو اور آنے والی نسلوں کے لیے اس میں واضح رہنمائی موجود ہو۔

پروفیسر غفور احمد: علیحدہ کتاب لکھنے کی کوشش کروں گا۔ لیکن اب تو میرا خیال ہے وقت مشکل سے ملے گا۔

حصہ