ڈاکٹر محمد سعید سجراوی (رکن الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین ) نے (القدس ویب سائٹ) پر نیتن یاہو اور جنرل سیسی کی اہل غزہ کے ساتھ خیانت کے حوالے سے انکشافات کیے ہیں جس کا اردو ترجمہ مرکز تعلیم و تحقیق اسلام آباد کے نائب مدیر مولانا ڈاکٹر عبدالوحید شہزاد نے کیا ہے۔ جو نذر قارئین ہے۔
مسئلہ فلسطین کے حوالے سے مصری حکومت کی غداریوں کے حوالے سے محققین کو بہت سے شواہد ملیں گے۔ عوجاء اور کامب دیفید کا معاہدہ اور پھر حسنی مبارک اور سیسی کے دور حکومت میں غزہ کی پٹی کا محاصرہ کر لیا گیا۔ ان کی اسرائیل کے ساتھ حمیت کا اظہار اس جنگ میں ہوا جب طوفان اقصیٰ کے بعد محاصرہ مزید تنگ کردیا گیا ہے، جب کہ پورے عالم میں اہل غزہ کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور ان کے ساتھا اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔ ایسے عالم میں سیسی نے اپنا ریاستی جبر استعمال کرتے ہوئے اور صہیونی حکومت کے منصوبے کی تکمیل کرتے ہوئے ان کو بنیادی سہولیات (ادویات، کھانے پینے کا سامان،بجلی، پانی) سے محروم کردیا ہے۔
دو ماہ سے جاری جنگ کے مشاہدین کے ذہنوں سے یہ بات اوجھل نہ ہونے پائے کہ اسرائیل کی جارحیت کا واحد مقصد یہ ہے کہ اہل غزہ کو غزہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا جائے اور وہ نقل مکانی کرکے صحراء سینا میں آبسیں۔ لیکن یہ بات بھی واضح رہے کہ جنرل سیسی نے (مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے) بیان جاری کیا کہ ہم تو صحراء سینا نہیں دے سکتے (یہ بات اس نے اس لیے کہی کہ مسلمان کہیں کے دیکھو سیسی نے اسرائیل کی بات نہیں مانی) اور اسی طرح اہل غزہ نے صحراء سینا کی طرف ہجرت کرنے سے منع کردیا، اس لیے کہ 1948 میں ان کے آبا و اجداد کے ساتھ بھی یہ دھوکا کیا گیا تھا کہ ان کو بالجبر ہجرت پر مجبور کیا گیا، اہل غزہ ان کی دھوکہ دہی سے واقف ہیں اور اس امر پر قائم ہیں کہ ہمارے لیے ہجرت سے غزہ میں موت افضل ہے یا ہم اپنے مسمار شدہ عمارتوں پر اپنی زندگی بسر کرلیں گے لیکن غزہ سے ہجرت نہیں کریں گے۔
اسی طرح اس دوران یہ مشاہدہ بھی کیا گیا کہ صہیونی حکومت نے اہل غزہ کو زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا اور جنگ بندی سے قبل غزہ میں غذائی اشیاء وغیرہ کے داخل ہونے کے لیے مختلف قوانین وضع کیے گئے تاکہ کم سے کم امدادی سامان اہل غزہ تک پہنچ پائے۔ گویا اہل غزہ کو ایسی صعوبت میں مبتلا کر دیا ہے کہ وہ فضائی حملوں کے بغیر ہی موت کو گلے لگالیں گے۔
یہ تمام پابندیاں صہیونی اور مصری حکومت کی سازش کا نتیجہ ہے اور اس کے حصول کے لیے مصر 17 سال سے غزہ کے محاصرے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے اور ان کی اہل غزہ کے ساتھ زیادتی کا ایک مظہر یہ سامنے آیا ہے کہ وہ غزہ کی طرف جانے والے امدادی سامان میں سے قیمتی سامان کو نہیں جانے دیتے ۔
مجھے اس امر کا اندیشہ ہے کہ ان دونوں کے اتحاد و اتفاق کے نتیجے میں سخت حصار کے بعد مصر رفح بارڈر کو کھول دےگا (تاکہ اہل غزہ خوش ہو جائیں) اور ساتھ ہی ان پر فضائی، بری اور بحری حملہ کرکے قتل عام کرے گا تاکہ وہ غزہ سے صحراء سینا کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوجائیں۔
اسی طرح آنے والے دنوں میں مصری حکومت کی جانب سے ہم یہ اعلان سنیں گے کہ حقوق انسان کے پیش نظر ہم یہ فتح کراسنگ کھول رہے ہیں تاکہ اہل غزہ جنگ کے اختتام تک غزہ سے نقل مکانی کر لیں، ان کا یہ اقدام اہل غزہ کے لیے خوشی کا باعث بنے گا اور وہ بہت بڑی تعداد میں صحراء سینا کی طرف ہجرت نقل مکانی کر سکتے ہیں جہاں ان کو ہر قسم کی سہولیات فراہم کی جائی گیں۔ اسی طرح مصری حکومت کی جانب سے ہم یہ اعلان سنیں گے کہ رفح کے شہر کے قریب متاثرین غزہ کے لیے خیمہ بستی قائم کی جائے گی تاکہ وہ اپنی زندگی امن و سکون کے ساتھ بسر کرسکیں اور جنگ بندی کے بعد غزہ منتقل ہو جائیں گے۔ میرا یقین ہے کہ ان کی خوشنما باتوں کے پیچھے ایک ہی ہدف ہے کہ غزہ ان کے قبضے میں آجائے اور مزاحمت کی تحریک کو کچل ڈالا جائے جس نے حصار کے 17 سال کے دوران دنیا کے سامنے مختلف معجزات پیش کیے ہیں ۔
لیکن اس منظرنامے میں آپ سب سے کچھ اہم سوالات ہیں جن کا جواب درکار ہے۔
1۔کیا عرب دنیا غزہ کے خاتمے تک ان کی تماشائی بنی رہے گی؟
2۔کیا عالم اسلامی امریکی جنگی جہازوں اور ان کی فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والے بچوں اور زخمیوں کے اعداد و شمار میں مصروف رہے گا؟
3۔کیا پورا عالم صرف فضائی حملوں میں مسمار ہونے والے مدارس ، مساجد اور گھروں کی گنتی بیان کرنے پر ہی اکتفا کرے گا؟ یا اس ظلم کو روکنے میں بھی اپنا کردار اد ا کرے گا؟
کیا پورا عالم صرف صہیونی حکومت پر لعن و طعن پر اکتفاء کرے گا یا کوئی عملی اقدام بھی کرے گا؟یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ صہیونی حکومت ہر قسم کے قانون سے بالا تر ہے۔
نوٹ: اس کالم میں بہت اہم انکشافات کیے گئے ہیں، اہل غزہ اور فلسطین کو اسرائیلی جبر سے نجات دلانے کے لیے مسلم حکمرانوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ بالخصوص مصر اور دیگر حکمرانوں کو اسرائیل کی حمایت سے روکنے میں عملی کردار ادا کریں۔ اس وقت عالمی طاقتیں مل کر حماس پر گھیرا تنگ کرنے کے در پہ ہیں اور اس کے مقابلے مسلم حکمران صرف بیان بازی پر اکتفاء کیے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ ظلم و جبر کا یہ سلسلہ بند ہو اور اہل فلسطین کو ان کا حق مل سکے اور فلسطین کو اسرائیل کے ناپاک وجود سے پاک کیا جاسکے۔