غزہ کی جنگ ایک عالمی جنگ؟

375

تحریک حماس جو جدوجہد کر رہی ہے، خواہ اس کا تعلق عسکری مزاحمت کے طریقوں اور ذرائع سے ہو، نفسیاتی جنگ کے اسالیب و آلات سے ہو، یا ذرائع ابلاغ کے مختلف ذرائع سے ہو ، ایسا کامیاب مثال کسی مزاحمتی تحریک کی تاریخ میں نہیں ملتی، خصوصا جب کہ غزہ کا پچھلے سولہ سال سے ہمہ جہت اور چاروں اطراف سے مکمل محاصرہ کیا گیا تھا ، تاریخ انسانی میں ایسی بھیانک و ظالمانہ مثال غزہ کے علاؤہ کہیں اور نہیں ملتی۔غزاویوں کیلئے یہ امر محال تھا کہ وہ کہیں سے کوئی مدد یا حمایت حاصل کر سکیں، یہاں تک کہ پینے کے پانی پر بھی انہیں اپنے تئیں دسترس نہیں تھی، ان سب مشکل حالات کے باوجود حماس اور دیگر مزاحمتی تنظیموں کا بنظیر اتحاد دفاع وطن میں دلیرانہ مصروف ہے ، ارض فلسطین کی آزادی کیلئے برسر پیکار یہ سب سے مضبوط اور کامیاب اتحاد ہے۔

آج کی تاریخ میں فوجی، سیاسی، اقتصادی اور میڈیا کے محاذوں پر جو کچھ ظاہر ہو رہا ہے، اس نے سب کو چونکا رکھا ہے، یہ جنگ کے تمام سابقہ طریقوں اور اس کے لئے مستعمل تمام طرق و آلات سے بالکل مختلف صورتحال ہے جس سے عالمی صہیونیت اور اس کے بے بصیرت عالمی حمایتی شسدر ہیں، اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنے والوں نے صیہونیوں کے فوجی ادارے کے منصوبوں کو شرمناک حد تک تل پٹ کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ اندرون خانہ متحیر و مقہور ہو چکے ہیں ، سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسرائیلی عوام پے در پے، تیز رفتار اور غیر متوقع مہلک مزاحمتی کارروائیوں کی فضاء میں جی رہے ہیں۔

وہ جب پچھلے صدمے سے نکلتے ہیں اس وقت تک اگلی کارروائی انہیں مزید جھٹکے دے دیتی ہے ، یہ فدائی حملےزمین کے اوپر اور زمین کے نیچے اور ان کے دائیں ، بائیں ہر جانب سے بلا توقف جاری ہیں جن سے نبر آزما ہونے کی صلاحیت تا حال ان میں ظاہر نہیں ہوئی ۔ طوفان الاقصی اسرائیلی حکومت کی انٹیلی جنس اور فوجی ناکامی سے شروع ہوا اور اب تیسرا مہینہ چل رہا ہے کہ وہ مقام نامراد تک پہنچ چکے ہیں جہاں کسی محاذ پر بھی یقینی کامیابی کا دور دور تک نشان نہیں ہے۔ قابض فوج کا اپنے بارے میں کوئی قابل قبول پروپیگنڈہ جس پر اندرون اسرائیل اور باقی دنیا یقین کر لے ابھی تک اس محاذ پر بھی انھیں مکمل ناکامی کا سامنا ہے جب کے ذرائع ابلاغ کے تمام ٹول ان کے ہاتھ کا کھلونا ہیں ، اس وجہ سے اسرائیلی عوام میں شدید بے یقینی اور اضطراب پایا جاتا ہے ، جسے وہ حکومت مخالف مظاہروں میں بھی ظاہر کرتے ہیں ، اسی طرح ناتن یاہو اور متشدد صیہونیوں کا حماس کو مذاکرت میں اینگیج کرنے سے قاصر رہنا بھی ان کی ایک بڑی ناکامی ہے ، یہ تمام میدانوں میں ناکامی اور شکست کا مظہر ہے ۔

لہٰذا، جنگ کے نتائج جو بھی ہوں ، تاریخ کے ایک قاری کے طور پر، میں کہتا ہوں: یہ ہر لحاظ سے تاریخ کی ایک بے مثال جنگ ہے، خواہ اسرائیلی قابض فوج کے جنگی جرائم کا کھل کے ظاہر ہونا ہو، یا حماس کا مزاحمت کے ذریعے حاصل کی گئی فتوحات کا حجم اور معیار ہو ، وہ عدو کے منصوبے کی مکمل ناکامی ظاہر کرتا ہے ۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر دو فریق اپنی اپنی جانب سے جنگ کی اسٹریٹیجی پر کیسے عمل پیرا ہیں ، اس کے ہاتھ میں تاش کے جو پتے اور جو عسکری داؤ پیچ ہیں ، وہ اسے کس طرح حرکت دیتا ہے۔

یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ عالم انسانیت نے اسرائیلی ظالمانہ بلکہ مجرمانہ اقدامات کی تائید کی ہے یا مخالفت کی ہے اس بارے میں یقینی صورتحال یہ ہے کہ دنیا کے تمام مذاہبِ کے افراد نے جن میں معتدل یہودی بھی شامل ہیں نے اور تمام فرقوں، نسلوں اور ادیان کی خواتین و نوجوانوں باشمول مردوں نے بہت زیادہ حصہ لے کر انسانیت دشمن صیہونیوں کو ان کے غلط اقدامات پر بڑا واضح پیغام دیا ہے عملی مظاہروں کے ساتھ ساتھ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے حمایت میں حصہ بھرپور حصہ ڈال رہے ہیں۔ عالمی سوشل میڈیا میں اسرائیل سے نفرت کے رجحان اور اس کے برملا اظہار اور پھر مسلسل اس کےفالو اپ سے یہ واقعی ایک عالمی جنگ بن چکی ہے ، جس کا انکار نا ممکن ہو چکا ہے۔

حصہ