طلسم ہوش ربا، الف لیلہ اور امیر حمزہ کی داستانیں عنفوان شباب کے دنوں میں پڑھنے سے یہی لگتا ہے کہ آدمی اسی دنیا کا ایک کردار ہے۔ ان داستانوں میں عمرو عیار کی داستان بھی عجیب حیرت انگیز ہے۔ یہ یمن کے بادشاہ کے دربار کا ایک شعبدہ باز تھا جو جادو دکھایا کرتا تھا۔ اس کے پاس چمڑے کی ایک زنبیل تھی جس سے وہ لوگوں کی حسبِ منشا چیزیں نکالتا تھا۔ شعبدہ بازی اور جادو گری ایک شیطانی علم ہے جس کے ذریعے لوگوں کو اپنے قابو میں کیا جاتا ہے یا ان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بنی اسرائیل کے ایمان کی آزمائش کے لیے اللہ نے ہاروت اور ماروت دو فرشتوں کو ان کے درمیان بھیجا، جن سے بنی اسرائیل کے لوگ منع کرنے کے باوجود جادو سیکھ کر میاں بیوی کے درمیان علیحدگی پیدا کیا کرتے تھے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی بنی اسرائیل کی ایک جادوگرنی نے جادو کیا جس سے آپؐ کے سر میں درد رہنے لگا اور آپؐ کی یادداشت متاثر ہوئی، یہ جادو سورہ فلق اور الناس کے ورد سے ختم ہوا۔ یہ جادو ایک پتلے میں گیارہ سوئیاں چبھو کر ایک اندھے کنویں میں چھپایا گیا تھا۔ جب اسے آیتوں کے ورد کے ساتھ نکالا گیا تو آپؐ کے سر کا بوجھل پن ختم ہوا اور یادداشت درست ہوئی۔
فرعون بھی جادوگروں کی مدد اور کاہنوں کی کہانت کے ذریعے لوگوں پر خدائی کا دعویٰ کرتا تھا۔ نمرود کے بارے میں تو یہ مشہور ہے کہ اس نے اپنے خدائی دعوے کو ثابت کرنے کے لیے عجیب و غریب چیزیں بنا رکھی تھیں۔ اس کے قلعے کے دروازے پر پتھروں کے دو بڑے بڑے بت تھے جو کسی اجنبی کو دیکھ کر چیخنے لگتے اور محافظ ہوشیار ہوجاتے تھے۔ اس کے پاس چمڑے کا ایک بڑا سا ڈھول تھا جو چوروں کے قریب آتے ہی بجنا شروع ہوجاتا تھا۔ ایک درخت تھا جس کا سایہ آدمیوں کی تعداد کے اعتبار سے پھیلتا تھا۔
اس کا تخت ہوا میں اُڑتا تھا۔ اسلامی خلافت کے زمانے میں مقنہ نامی ایک شخص نے خدائی کا دعویٰ اس بنیاد پر کیا تھا کہ وہ کنویں سے چاند نکالتا تھا، حالانکہ وہ ایک کیمیا دان تھا۔
حسن بن سبا کی مصنوعی جنت اور اس کے خودکش فدایان نے کتنے بڑے بڑے اور اسلامی دنیا کے نامور لوگوں کو قتل کیا۔ شداد کی جنت کے بارے میں کون نہیں جانتا! یہ سب اللہ کے باغی اور طاغوتی تھے۔
آج کی دنیا جدید طاغوتی اور کرشماتی ہوچکی ہے۔ جادوگری اور شعبدہ بازی کی جگہ جدید ترین ایجادات اور آلات نے لے لی ہے۔ آج کے حکمران اپنے اپنے ملکوں کے دارالحکومت میں بیٹھے بیٹھے اپنے عوام کو نہ صرف جادوگری کا کرشمہ دکھاتے ہیں بلکہ باغیوں اور اختلاف رکھنے والوں کو سزائیں بھی دیتے ہیں۔
میں صرف اسلام آباد کے عمرو عیاروں کی بات کروں گا۔ پاکستان بنے 76 سال ہوگئے مگر آج تک اس ملک میں عوام کی خدمت کرنے والی حقیقی جمہوری حکومت آئی اور نہ مخلص نمائندوں کی حکومت بنی… کیوں کہ عمرو عیاروں نے اس ملک کے عوام کو لسانی، علاقائی، مذہبی، قبائلی اور طبقاتی خانوں میں تقسیم کردیا ہے کہ یہ عوام ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کے روادار نہیں۔
جو بھی حکومت بنتی اور ختم ہوتی ہے اس عمرو عیاروں کی جادو گری ہوتی ہے۔
یہ ایسی ہیئتِ مقتدرہ ہے جو ہشت پا جیسی عفریت ہے، اس کی زنبیل میں ہر رنگ و نسل کے جمہورے ہیں۔ ہر دو تین یا پانچ سال بعد انتخابی ڈگڈگی بجا کر سیاسی سرکس یہ پورے ملک میں لگاتے ہیں۔ شروع دن سے ہی کبھی ان کی زنبیل سے کنونشن لیگ، کبھی جرنیل کو ’’ڈیڈی‘‘ بولنے والا زلفی لاڈلا، کبھی مہاجر قومی موومنٹ، کبھی جونیجو لیگ، کبھی نون لیگ، کبھی قاف لیگ، کبھی کپتانی سرکس کا جمہورا، کبھی آئی جے آئی، کبھی متحدہ مجلس عمل اور اب استحکام پاکستان پارٹی کے جمہورے نکال کر کٹھ پتلیوں کی طرح ان کو لڑا کر عوام کو سحر زدہ کرکے اسلام آباد کے پُرفضا مقام پر سیاسی سرکس کراتے ہیں، اور جب ان کی طبیعت بھر جاتی ہے تو ان کو جیل کے پنجرے میں کچھ دن کے لیے بند کردیتے ہیں۔ عوام خوش ہوجاتے ہیں۔
چندر گپت موریا کی سلطنت کا سب سے عیار دانشور، سیاست کا ماہر، حکمرانی کا گُر جاننے والا اور چھل کپٹ میں یکتائے روزگار چندرگپت موریا کا اتالیق اور وزیراعظم چانکیہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ موریا خاندان کی حکومت کا دوام اسی کی حکمت و دانائی کی وجہ سے تھا۔ اس کی مشہور زمانہ کتاب ’ارتھ شاستر‘ ہے جس میں اُس نے نہ صرف وقت کے حکمرانوں بلکہ آنے والی نسلوں کو حکمرانی کی ایسی ایسی حکمت اور عوام کو قابو میں رکھنے اور اپنے دشمنوں کو شکست دینے کے طریقے سکھائے ہیں کہ آج بھی نہ صرف بھارت کا برہمن سامراج اور ہندوتوا کے پجاری بلکہ دیگر ممالک کے عوام دشمن حکمران بھی اس پر عمل کرتے ہیں۔ عوام کو الجھا کر رکھنے کے لیے ہر روز ایک نیا مسئلہ کھڑا کرنا، عوامی تحریک کے لیڈروں کو خریدنا، نہ بکیں تو قتل کروانا، دشمن ملک میں بے چینی پیدا کرنا، عوام کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرنا، فسادات پھیلانا وغیرہ وغیرہ۔ ٹھیک اسی طرح میکاولی کی کتاب The Prince مغربی اقوام کے حکمرانوں کی گائیڈ لائن ہے۔
برصغیر ہند و پاک کے پونے دو ارب سے زائد عوام بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ جب بھارت میں طلبہ اور کسانوں کی تحریک چلتی ہے تو اس کو ختم کرنے کے لیے مودی سرکار ہندو مسلم فسادات کرا دیتی ہے۔ پاکستان تو مسائلستان بن چکا ہے۔ عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی تو درکنار، جو پہلے سے موجود تھیں وہ بھی چھین لی گئی ہیں۔ لسانی، قبائلی، مسلکی، علاقائی تشدد عام ہے۔ پانی، بجلی، گیس عنقا ہے۔ مہنگائی کے نہ رکنے والے سیلاب نے عوام کا جینا حرام کردیا ہے۔ اس پر جرائم پیشہ گروہ پولیس کی سرپرستی میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ اپنے حق میں انصاف مطلوب ہے تو جج خرید لو… اعلیٰ عدلیہ کا ہو یا نچلی عدالت کا، سب منڈی میں بکنے کو تیار ہیں۔
مت پوچھیے اس دہر میں کیا کیا نظر آیا
انصاف سے توانا قاتل نظر آیا
خون بہا ڈالو ہر قتل کے بعد
منصف کے ہاتھوں میں تیشہ نظر آیا
یہاں جب بھی کوئی عوامی تحریک چلتی ہے اور نظامِ پلید بنام جمہوریت بدلنے کی امید بنتی ہے، عمرو عیاروں کی زنبیل سے مارشل لا کا بھتنا نکل آتا ہے اور عوام کی امیدوں پر پانی پھر جاتا ہے۔