-1 اولاد کو اللہ کا انعام سمجھیے، ان کی پیدائش پر خوشی منایئے، ایک دوسرے کو مبارک باد دیجیے خیر و برکت کی دعائوں کے ساتھ استقبال کیجیے اور اللہ کا شکر ادا کیجیے کہ اس نے آپ کو اپنے ایک بندے کی پرورش کی توفیق بخشی اور یہ موقع فراہم فرمایا کہ آپ اپنے پیچھے اپنے دین و دنیا کا جانشین چھوڑ جائیں۔
-2اولاد نہ ہو تو اللہ سے صالح اولاد کے لئے دعا کیجیے جس طرح اللہ کے برگزیدہ پیغمبر حضرت ذکریا علیہ السلام نے صالح اولاد کے لئے دعا فرمائی:
’’میرے رب! تو اپنے پاس سے مجھے پاک باز اولاد عطا فرما، بے شک تو دعا کا سننے والا ہے‘‘۔
-3 اولاد کی پیدائش پر کبھی دل تنگ نہ ہوں، معاشی تنگی صحت کی خرابی یا کسی اور وجہ سے اولاد کی پیدائش پر کڑھنے یا اس کو اپنے حق میں ایک مصیبت سمجھنے سے سختی کے ساتھ پرہیز کیجیے۔
-4 اولاد کو کبھی ضائع نہ کیجیے، پیدا ہونے سے پہلے یا پیدا ہونے کے بعد اولاد کو ضائع کرنا بدترین سنگ دلی، بھیانک ظلم، انتہائی بزدلی اور دونوں جہاں کی تباہی ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے:
’’وہ لوگ انتہائی گھاٹے میں ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کو ناسمجھی میں اپنی حماقت سے موت کے گھاٹ اتار دیا‘‘ (الانعام: 140/6)
اور اللہ نے انسانی کوتاہ نظری کا دل نشین جواب دیتے ہوئے صاف صاف ممانعت فرمائی ہے کہ اپنی اولاد کو قتل نہ کرو‘‘۔
’’اور اپنی اولاد کو فقرو فاقے کے خوف سے قتل نہ کرو، ہم ان کو بھی رزق دیں گے اور ہم ہی تمہیں بھی رزق دے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اولاد کا قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے‘‘ (بنی اسرائیل: 31/17)
ایک بار ایک صحابی نے دریافت کیا، یا رسولؐ اللہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ فرمایا: ’’شرک‘‘ پوچھا اس کے بعد، فرمایا: ’’والدین کی نافرمانی‘‘۔ پھر پوچھا اس کے بعد فرمایا: ’’تم اپنی اولاد کو اس ڈر سے مار ڈالنا کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گی‘‘۔
-5ولادت کے وقت ولادت والی عورت کے پاس آیتہ الکرسی اور سورۃ الاعراف کی نیچے لکھی ہوئی دو آیتوں کی تلات کیجیے اور سورۃ الفلق اور سورۃ الناس پڑھ پڑھ کر دم کیجیے:
(ترجمہ) ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے وہ زندہ و جاوید، نظام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے نہ وہ سوتا ہے اور نہ اسے اُونگھ آتی ہے۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اسی کا ہے، کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے اس سے بھی وہ واقف ہے اور انسان اس کے علم میں سے کسی بات کا بھی احاطہ نہیں کرسکتا سوائے اس کی کہ جتنا علم وہ خود انسان کو دینا چاہے، اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان کی حفاظت و نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں۔ وہ بڑا ہی بلند مرتبہ اور صاحب عظمت ہے‘‘۔(البقرہ: 255/2)
سورہ اعراف کی دو ایتیں یہ ہیں:
(ترجمہ) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی تمہارا پروردگار ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا۔ پھر اپنے تخت حکومت پر جلوہ گر ہوا۔ وہی رات کو دن پر ڈھانپ دیتا ہے اور پھر دن، رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے، اسی نے سورج، چاند و تارے پیدا کئے جو اس کے حکم سے کام میں لگے ہوئے ہیں، سن رکھو اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور اسی کا حق ہے حکم دینا۔ پس کیا ہی برکت والا ہے خدا سارے جہانوں کا مالک اور پروردگار، اپنے رب کو پکارو گڑ گڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے، بے شک وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (الاعراف: 54/7،55)
-6 ولادت کے بعد نہلا دھلا کر دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہیے جب حضرت حسینؓ کی ولادت ہوئی تو نبیؐ نے ان کے کان میں اذان و اقامت فرمائی۔ (طبرانی)
اور نبیؐ نے یہ بھی فرمایا کہ جس کے یہاں بچے کی ولادت ہو اور وہ اس بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہے توبچہ ام الصبیان (مرگی جو بچوں کو فاسد ہوا لگنے سے ہوجاتی ہے اور بچے اس مرض میں بے ہوش ہوجاتے ہیں) کی تکلیف سے محفوظ رہے گا۔ (ابویعلی ابن سنی)
پیدا ہوتے ہی بچے کے کان میں اللہ اور رسولؐ کا نام پہنچانے میں بڑی حکمت ہے، علامہ ابن قیم اپنی کتاب ’’تحفۃ الودود‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے کان میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کی آواز پہنچے اور جس شہادت کو وہ شعوری طور پر ادا کرنے کے بعد داخل اسلام ہوگا اس کی تلقین پیدائش کے دن ہی سے کی جائے۔ جس طرح مرنے کے وقت اس کو کلمہ توحید کی تلقین کی جاتی ہے، اذان اور اقامت کا دوسرا فائدہ یہ بھی ہے کہ شیطان جو گھاٹ میں بیٹھا ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ پیدا ہوتے ہی انسان کو آزمائش میں مبتلا کرے اذان سنتے ہی بھاگ جاتا ہے اور شیطان کی دعوت سے پہلے بچے کو اسلام اور عبادت الٰہی کی دعوت دے دی جاتی ہے‘‘۔
-7 اذان و اقامت کے بعد کسی نیک مرد یا عورت سے کھجور چبوا کر بچے کے تالو میں لگوایئے اور بچے کے لئے خیر و برکت کی دعا کرایئے۔ حضرت اسماؓ فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن زبیرؓ جب پیدا ہوئے تو میں نے ان کو نبیؐ کی گود میں دیا۔ آپؐ نے خرما منگوایا اور چبا کر لعاب مبارک عبداللہ بن زبیرؓ کے منہ میں لگادیا اور خرما ان کے تالو میں ملا اور خیر و برکت کی دعا فرمائی۔
حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ نبیؐ کے یہاں بچے لائے جاتے تھے۔ آپؐ تحنیک (کھجور وغیرہ کو چبا کر خوب نرم کر کے بچہ کے تالو یں نکالنے کو تحنیک کہتے ہیں) فرماتے ہیں ان کے حق میں دعا کرتے‘‘۔ (مسلم)
حضرت امام احمد بن حنبلؒ کے یہاں بچے کی ولادت ہوئی تو آپ نے اس کی تحنیک کے لئے مکے کی کھجور منگوائی جو آپ کے گھر میں موجود تھی اور ایک نیک بی بی ام علیؒ سے تحنیک کے لئے درخواست کی۔
-8 بچے کے لئے اچھا سا نام تجویز کیجیے جو یا تو پیغمبروں کے نام پر ہو یا اللہ کے نام سے پہلے عبد لگا کر ترکیب دیا گیا ہو جیسے عبداللہ، عبدالرحمٰن وغیرہ۔
نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’قیامت کے روز تمہیں اپنے اپنے ناموں سے پکارا جائے گا، اس لئے بہتر نام رکھا کرو‘‘ (ابودائود)
اور نبیؐ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ اللہ کو تمہارے ناموں میں سے عبداللہ اور عبدالرحمٰن سب سے زیادہ پسند ہیں اور آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ انبیا کے ناموں پر نام رکھو۔
اور بخاری میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’میرے نام پر نام رکھو میری کنیت پر مت رکھو‘‘۔
-9 اگر کبھی لاعلمی میں غلط نام رکھ دیاہو تو اس کو بدل کر اچھا نام رکھ دیجیے۔ نبیؐ غلط نام کو بدل دیا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ کی ایک صاحبزادی کا نام عاصیہ تھا۔ آپؐ نے بدل کر جمیلہ رکھ دیا۔ (مسلم)
حضرت زینب، ابو سلمہؓ کی بیٹی ہیں، ان کا نام برہ تھا، برہ کے معنی ہیں پاکباز، نبیؐ نے یہ سنا تو فرمایا خود ہی اپنی پاکبازی کا دم بھرتی ہو، لوگوں نے کہا پھر کیا نام رکھیں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’زینب نام رکھو‘‘ (ابودائود)
-10 ساتویں دن عقیقہ کیجیے۔ لڑکے کی طرف سے دو بکرے اور لڑکی طر ف سے ایک بکرا کیجیے۔ لیکن لڑکے کی طرف سے دو بکرے کرنا ضروری نہیں ہے۔ ایک برا بھی کرسکتے ہیں اور بچے کے بال منڈوا کر اس کے برابر سونا یا چاندی خیرات کیجیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’ساتویں روز بچے کا نام تجویز کیا جائے اور اس کے بال اتروا کر اس کی طرف سے عقیقہ کیا جائے‘‘ (ترمذی)
-11 ساتویں دن ختنہ بھی کرادیجیے، لیکن کسی وجہ سے نہ کرائیں تو سات سال کی عمر کے اندر اندر ضرور کرادیں، ختنہ اسلامی شعار ہے۔
-12 جب بچہ بولنے لگے تو سب سے پہلے اسے کلمہ ’’لاالہ الا اللہ‘‘ سکھایئے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’جب تمہاری اولاد بولے لگے تو اس کو ’’لاالہ الا اللہ‘‘ سکھا دو، پھر مت پروا کرو کہ کب مرے اور جب دودھ کے دانت گر جائیں تو نماز کا حکم دو‘‘ (نسائی)
اور حدیث میں یہ بھی ہے کہ حضورؐ کے خاندان میں جب کسی بچے کی زبان کھل جاتی تو آپؐ اس کو سورۃ الفرقان کی دوسری آیت سکھاتے، جس میں توحید کی پوری تعلیم کو بڑی خوبی کے ساتھ سمیٹ دیا گیا ہے۔
’’وہ خدا جو آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک ہے جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے، جس نے ہر چیز کی تخلیق کی اور پھر اس کی موزوں تقدیر مقرر فرمائی‘‘۔
-13 بچے کو اپنا دودھ بھی پلایئے، ماں پر بچے کا یہ حق ہے، قرآن نے اولاد کو ماں کا یہی احسان یاد دلاکر ماں کے ساتھ غیر معمولی سلوک کی تاکید کی ہے۔ ماں کا فرض یہ ہے کہ وہ بچے کو اپنے دودھ کے ایک ایک قطرے کے ساتھ توحید کا درس، رسولؐ کا عشق اور دین کی محبت بھی پلائے اور اس محبت کو اس کے قلب و روح میں بسانے کی کوشش کرے۔ پرورش کرے۔ پرورش کی ذمہ داری ماما پر ڈال کر اپنا بوجھ ہلکا نہ کیجیے بلکہ اس خوش گوار دینی فریضے کو انجام دے کر روحانی سکون اور سرور محسوس کیجیے۔
-14 بچوں کو ڈرانے سے پرہیز کیجیے۔ ابتدائی عمر کا یہ ڈر ساری عمر ذہن و دماغ پر چھایا رہتا ہے اور ایسے بچے بالعموم زندگی میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دینے کے لائق نہیں رہتے۔
-15 اولاد کو بات بات پر ڈانٹنے، جھڑکنے اور برا بھلا کہنے سے سختی کے ساتھ پرہیز کیجیے اور ان کی کوتاہیوں پر بیزار ہونے اور نفرت کا اظہار کرنے کی بجائے حکمت و سوز کے ساتھ ان کی تربیت کرنے کی محبت آمیز کوشش کیجیے اور اپنے طرز عمل سے بچوں کے ذہن پر یہ خوف بہرحال غالب رکھیے کہ ان کی کوئی خلاف شرع بات آپ ہرگز برداشت نہ کریں گے۔
-16 اولاد کے ساتھ ہمیشہ، شفقت، محبت، نرمی کا برتائو کیجیے اور ان کی ضروریات پوری کرکے ان کو خوش رکھیے اور اطاعت و فرمانبرداری کے جذبات ابھاریئے۔
ایک بار حضرت امیر معاویہؓ نے احنف بن قیسؓ سے پوچھا، کہیے اولاد کے سلسلے میں کیا سلوک ہونا چاہیے۔ احنف بن قیسؓ نے کہا:
’’امیر المومنین! اولاد ہمارے قلوب کا ثمرہ ہیں، کمر کی ٹیک ہیں، ہماری حیثیت ان کے لئے زمین کی طرح ہے جو نہایت نرم او ربے ضرر ہے اور ہمارا وجود ان کے لئے سایہ فگن آسمان کی طرح ہے اور ہم انہی کے ذریعہ بڑے بڑے کام انجام دینے کی ہمت کرتے ہیں۔ پس اگر وہ آپ سے کچھ مطالبہ کریں تو ان کو خوب دیجیے اور اور اگر کبھی گرفتہ دل ہوں تو ان کے دلوں کو غم دور کیجیے۔ نتیجہ میں وہ آپ سے محبت کریں گے، آپ کی پدرانہ کوششوں کو پسند کریں گے اور کبھی ان پر ناقابل برداشت بوجھ نہ بنیے کہ وہ آپ سے اکتا جائیں اور آپ کی موت کے خواہاں ہوں، آپ کے قریب آنے سے نفرت کریں‘‘۔
حضرت امیر معاویہؓ، یہ حکیمانہ باتیں سن کر بہت متاثر ہوئے اور فرمایا:
’’احنف! اللہ کی قسم جس وقت آپ میرے پاس آکر بیٹھے، میں یزید کے خلاف غصے میں بھرا بیٹھا تھا‘‘۔
پھر جب حضرت احنف تشریف لے گئے تو حضرت امیر معاویہؓ کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا اور یزید سے راضی ہوگئے اور اسی وقت یزید کو دو سو درہم اور دو سو جوڑے بھجوائے۔ یزید کے پاس جب یہ تحفے پہنچے تو یزید نے یہ تحفے دو برابر برابر حصوں میں تقسیم کرکے سو درہم اور سو جوڑے حضرت احنف بن قیسؓ کی خدمت میں بھجوادیئے۔
-17چھوٹے بچوں پر شفقت کا ہاتھ پھیریئے۔ بچوں کو گود میں لیجیے، پیار کیجیے اور ان کے ساتھ خوش طبعی کا سلوک کیجیے۔ ہر وقت تند خو اور سخت گیر حاکم نہ بنے رہیے، اس طرز عمل سے بچوں کے دل میں والدین کے لئے والہانہ جذبہ محبت بھی پیدا نہیں ہوتا، ان کے اندرخود اعتمادی بھی نہیں پیدا ہوتی اور ان کی فطری نشوونما بھی خوش گوار اثر نہیں پڑتا۔
(جاری ہے)