’’آپ کا بچہ بھی پڑھائی میں کمزور ہورہا ہے؟ تعلیم کی مد میں ہزاروں روپے خرچ کرنے کے باوجود خاطر خواہ نتائج نہیں مل رہے؟ بہترین اسکول اور اچھی ٹیوشن لینے کے باوجود بھی کارکردگی صفر ہے؟‘‘
’’آپ کا بچہ پڑھائی سے دور بھاگنے لگا ہے؟ دن بہ دن کتابوں سے جی چراتا ہے؟ پڑھائی کے نام سے ہی گھوڑے کی طرح بدکتا ہے؟ توجہ مرکوز نہیں رکھتا؟‘‘
اس قسم کی بہت سی مثالیں روز ملیں گی۔ کہیں اساتذہ شکایتوں کا پلندہ تھامے ہوں گے، تو کہیں ٹیوشن والی باجی تنگ اور عاجز نظر آئیں گی۔ کوششیں بارآور ہونے کے بجائے گرتا گراف منہ چڑا رہا ہوگا۔ آخر ایسا کیوں، اور وجہ کیا ہے؟
کہتے ہیں کسی مسئلے کو ختم کرنا ہو تو اس کو جڑ سے پکڑو، یعنی کوئی بھی مسئلہ تب تک سر اٹھاتا رہے گا جب تک اُس کی اصل وجہ کا تدارک نہ ہوجائے، جیسے اگر کوئی مریض باربار بے ہوش ہورہا ہو اور طبیب وجوہ کو جاننے کے بجائے تکلیف کی علامت یعنی بے ہوشی کی ادویہ دینا شروع کردے تو تکلیف یقینی طور پر رفع دفع نہیں ہوگی بلکہ بڑھنے کا اندیشہ ہی ہوگا۔
بچے کا پڑھائی میں کمزور ہونا، دل نہ لگنا، کتابوں سے خار کھانا والدین کے لیے سرخ بتی اور الارم ہے کہ اب مزید ہوش مندی اور سمجھ داری کا مظاہرہ کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ اپنے اصول اور خواہشات تھوپنے کے بجائے ٹھنڈے دل و دماغ سے بچے کی نفسیات سمجھنے کی گھڑی ہے۔ بچے بھی دوسرے انسانوں جیسے عام انسان ہیں۔ وقت کے ساتھ وہ بھی بدل رہے ہیں۔ ترجیحات، عادات اور ضروریات تبدیل ہورہی ہیں۔ اکثر تیرہ، چودہ سال کے بچوں کے ساتھ بھی ویسا ہی برتاؤ رکھا جاتا ہے جیسا پانچ سال کی عمر میں کیا جاتا تھا، حالانکہ اس بات کو قبول کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کا ذہن اور مزاج قدرے پختگی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ پڑھائی کے معاملے میں بھی ان پر فیصلے مسلط کرنے کے بجائے ان کی رائے لینے کا وقت ہے اور یہی رویہ سودمند ثابت ہوسکتا ہے۔
آج کل بہترین اسکول کے باوجود ٹیوشن کا فیشن رائج ہے، اسکول کی بھاری بھرکم پڑھائی کے بعد ٹیوشن کا رخ کرنا اکثر بچوں کو تھکاماندہ بنا رہا ہے۔ ان کی ذہنی استعداد کمزور تر ہورہی ہے۔ بے جا بوجھ سے بچے تعلیم سے بے زار نظر آتے ہیں۔ صبح تا رات اسکول، ٹیوشن اور پھر والدین… بچے تین خانوں میں بٹ کر رہ گئے ہیں۔ اسکول کچھ چاہتا ہے، ٹیوشن کچھ اور کرواتا ہے اور پھر واپسی پر والدین ہوم ورک کا پہاڑ لیے منتظر ہوتے ہیں۔ ایسے میں بچوں کا ارتکاز کیسے رہ پائے گا؟ اسکول کی سنتے ہیں تو ٹیوشن کا خوف منڈلانے لگتا ہے، ہوم ورک نظرانداز کرتے ہیں تو اسکول اساتذہ کی سزا چشمِ تصور میں دکھائی دیتی ہے۔ روبوٹک زندگی نے ان کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں مفقود کردی ہیں، جس سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں کم ہورہی ہیں۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ جب بچہ دن کا بیشتر حصہ کتابوں کے درمیان گزارے گا تو اُس کی مرکوز کرنے کی صلاحیت مدھم پڑتی جائے گی۔ اچھا خاصا بچہ بھی محض طوطے کی طرح رٹنے کو ترجیح دے گا، سوال اٹھانے اور کرنے کی اہلیت کم ہوتی جائے گی حالانکہ سوال کرنا آدھا علم ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے رٹا لگانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوجائے۔
بلاشبہ تعلیمی کارکردگی میں بہتری سست عمل ہے۔ اس کے لیے حکمتِ عملی اور صبر و تحمل اوّلین کنجی ہے۔ اساتذہ اور والدین کی بے جا مداخلت اور توقعات اکثر اوقات نوجوانی کے دور میں داخل ہونے والے بچوں پر غیر ضروری بوجھ بن جاتی ہیں۔ بچوں سے وقتاً فوقتاً تبادلہ خیال تیر بہ ہدف نسخہ ثابت ہوسکتا ہے۔ وہ کیا سوچتے ہیں؟ ذہنی استعداد کیا تھی اور کیا ہے؟ کیوں نہیں کر پا رہے؟ یہ تمام ایسے اہم سوالات ہیں جن کا جواب ہی حل کی طرف گامزن کرسکتا ہے۔ کبھی کبھار دوست بن کر گفتگو کیجیے تاکہ ان کی الجھنوں کو سلجھایا جاسکے۔ انہیں غلطی کا مارجن دیں کہ وہ اپنی بات کھل کر، کرسکیں۔
بے جا موازنہ بھی نوجوانوں کو تعلیم سے بیزار کررہا ہے۔ ہر انسان منفرد شخصیت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور مختلف صلاحیتیں اس میں موجزن ہوتی ہیں، اسے قبول کرنا بھی فی زمانہ ہنر ہے۔ ’’یہ منہ اور مسور کی دال… ہمارے نصیب ایسے کہاں کہ چار لوگوں میں فخر سے بتا سکیں‘‘۔ اس قسم کے کلمات اور گلے شکوے بچے کی نفسیات پر کاری ضرب لگاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے تئیں کوشش کررہا ہو مگر آپ کی بے جا توقعات اس کی ہمت توڑ دیں، اور ممکن ہے بددل ہوکر وہ محنت کرنا بھی چھوڑ دے کہ سب بے فائدہ ہے۔
نوجوانوں کی دیگر سرگرمیاں محدود کرنا اس سوچ کے ساتھ کہ وہ تعلیم پر توجہ دیں گے، کسی حد تک کم فہمی کی نشانی ہے۔ ہر انسان تبدیلی چاہتا ہے، یہی سرشت ہے۔ کسی حد تک یہ سوچ غلط ہے کہ کھیل کود اور دوستیاں یاریاں ان کی کتابوں سے دوری اور عدم دلچسپی کا باعث بنتی ہیں۔ ان کے وقت کو مناسب طریقے سے تقسیم کرنا اہم ہے جس میں دوسری ضروریات کا ایندھن بھی انہیں مناسب مقدار میں ملتے رہنا چاہیے۔ ایسی سرگرمیاں ترتیب دی جا سکتی ہیں جن سے ان کی ذہنی استعداد بھی بڑھے اور وہ پڑھائی کی جانب بھی مائل ہوسکیں۔ ایک دفعہ ایک خاتون نے اپنے چودہ سالہ بچے کی عدم دلچسپی اور اسکول سے بے زاری دیکھ کر منفرد انداز اپنایا۔ باوجودیکہ وہ خود بھی زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھیں، انہوں نے اپنے خیال کو عملی جامہ پہنانے کا سوچا اور سالانہ امتحانات سے قبل محلے بھر کے ہم عمر بچوں میں مقابلے کا اعلان کیا۔ مقابلہ کیا تھا گویا ان کو پڑھائی کی جانب راغب کرنے کا کیمیائی نسخہ ثابت تھا۔ مقابلے کی نوعیت کچھ یوں تھی کہ ججوں کی کمیٹی بنائی گئی جس میں ہر بچہ اپنے سالانہ نتائج جمع کرواکر مقابلے میں باقاعدہ حصہ لے سکتا تھا۔ مقابلہ سالانہ نتائج پر پرکھا جانا تھا جس میں کارکردگی، اسکول ٹیچر کی درج شدہ رائے، تمام امتحانات میں بہتری اور دیگر عوامل کی بنیاد پر محلے کے بہترین طلبہ منتخب کیے جانے تھے۔ اس اعلان سے بچوں میں دل چسپی کا عنصر بیدار ہوا، ذوق و شوق نظر آیا، نتیجتاً بچوں کا دھیان کتابوں کی جانب مبذول ہوگیا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ زمانہ بہت بدل چکا ہے۔ تعلیم کے معیارات یکسر تبدیل ہوگئے ہیں۔ تعلیم کے علاوہ اسکلز کی دنیا بھی آباد ہورہی ہے اور مانگ بھی ہے۔ جب کہ ہمارا نظام آج بھی جدید انداز کے تڑکے لگا کر رٹا سسٹم کو مستحکم کررہا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں اگر کوئی نوجوان بارہا کوشش اور محنت کے باوجود تعلیمی میدان میں خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں کررہا تو اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ کچھ نہیں بگڑا، نہ ہی دنیا اس نقطے پر ختم ہوتی ہے۔ اسے کچھ وقت دیں، ان جھمیلوں سے وقتی طور پر دور رکھیں، اسے بوجھل نہ ہونے دیں۔ اندازہ لگائیں اور توجہ دیں کہ آخر اس کا رجحان کس جانب ہے۔ اگر کسی خاص مضمون کی طرف مائل ہے یا تکنیکی طور پر تیز ہے تو وہاں اس کے لیے مواقع فراہم کرنے کی سعی کریں۔ تجربہ ہے کہ اگر ان کی دل چسپی کے لیے راہیں آسان کی جائیں اور توانائیاں اسی سمت میں خرچ کروائی جائیں تو یہی نوجوان حیرت انگیز نتائج دیتے ہیں۔ لکیر کا فقیر بننے سے بہتر ہے کہ وہ کیا جائے جس سے بچے آسمان پر جگمگا سکیں۔
اس سے قبل کہ ان کی شخصیت اور مستقبل گہنا جائے، والدین اور اساتذہ بروقت ذمہ داری، بردباری اور مستقل مزاجی سے اس کا تدارک کرسکتے ہیں۔