پربت کی رانی کی انتہائی کامیاب مہم کے بعد یہ بات بہت ضروری ہو گئی تھی کہ جمال اور کمال کے ساتھ نہایت خفیہ طریقے سے ملاقات کی جائے اور ان کی جمع شدہ اشیا جن میں پربت پر جانے والوں کو فراہم کردہ غذاؤں کے ٹکڑے اور وہاں کی فضا سے کشید کی ہوئی ہواؤں کے نمونے شامل تھے، لے کر انھیں لیبارٹری میں جائزے کے لیے بھیج کر دیکھا جائے کہ ان غذاؤں کو کھانے اور فضاؤں میں سانس لینے سے انسان کی سوچوں اور خیالوں میں کس قسم کی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور کیوں ہوتی ہیں اسی لئے جمال اور کمال کو اگلے ہی دن خفیہ کے محکمے والوں نے نہایت رازداری کے ساتھ اپنے دفتر میں طلب کر لیا۔ ہواؤں اور غذاؤں کے نمونوں کے علاوہ ان سے اور بھی ضروری معلومات حاصل کی گئیں۔ تمام آفیسرز حیران تھے کہ اتنی کم عمری کے باوجود ان کے ذہن میں یہ بات کیسی ابھری کہ یہاں کی فضائیں بھی زہر آلود ہیں اور غذاؤں کا بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ پھر یہ کہ یہ بات اتنی درست تھی کہ وہاں جانے والی جس خاتون نے جمال اور کمال کی ہدایات پر عمل نہیں کیا تھا وہ 24 گھنٹوں کے اندر ہی اندر ان غذاؤں اور ہواؤں کی زہر آلودگی سے نہایت شدت کے ساتھ متاثر بھی ہو گئیں تھیں جو اس بات کا کھلا ثبوت تھا کہ وہاں کی فضاؤں اور ہواؤں میں کوئی ایسی بات ضرور ہے جو پربت کی رانی کی گفتگو یا پیغام پر من و عن عمل کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ انھیں اس بات پر بھی حیرت تھی کہ جمال اور کمال کو وہاں کی ہواؤں کو قید کرنے کی ترکیب کیسے سوجھی اور یہ کہ فضاؤں میں خاص تبدیلی کو محسوس کرتے ہی چونے کو اپنے سمیت سب کے لیے استعمال کا خیال کیسے آیا۔ خفیہ والوں نے وہ سارے نمونے جو جمال اور کمال نے کمالِ ہوشیاری سے جمع کئے تھے، حاصل کئے۔ دیگر قیمتی معلومات حاصل کرنے کے بعد ان کو بہت حفاظت کے ساتھ ان کے گھر پہنچا دیا۔
محکمہ خفیہ کے بعد ان کی اپنی ہی خاص لیبارٹری سے جو معلوماتی رپورٹیں پہنچیں وہ بہت ہی دہلا دینے والی اور اہم تھیں۔ بتایا گیا تھا کہ غذاؤں اور ہواؤں میں ایک ایسا عنصر شامل کیا گیا تھا جس سے انسان کا دماغ ایک روبوٹ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے دل میں غذاؤں کے کھانے سے ایک ”چپ” سی بننا شروع ہو جاتی ہے اور فضاؤں میں سانس لینے سے دماغ میں ایک اور ”چپ” جنم لینے لگتی ہے۔ اگر کوئی بھی انسان ان فضاؤں میں 48 گھنٹے بھی گزار لے اور چھے سات وقت کا کھانا کھالے تو پھر وہ ”چپ” ایک حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے جس کو موبائل فون کی کسی بھی ”سم” سے منسلک کرکے دنیا کے کسی بھی حصے میں کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ جو جو پیغامات بھی ”سم” کے ذریعے اس تک پہنچائے جاتے رہیں گے وہ متاثر فرد اس پر کسی روبوٹ کی طرح عمل کرنے پر مجبور ہوگا یہاں تک کہ اگر ہدایات پر عمل کرنے کی وجہ سے اس کی جان بھی چلی جائے تو وہ پھر بھی اس کام کو کر گزرنے کی کوشش ضرور کریگا۔
یہ بات پورے محکمے کے لیے ایک بم دھماکے سے کم نہیں تھی۔ تشویشناک پہلو اس تجزیے میں یہ بھی تھا کہ موبائل فون کے کسی ریکارڈ میں بھی کسی پیغام کا ریکارڈ جمع نہیں ہوتا تھا پھر بھی دل و دماغ نہ صرف اس کو سن یا پڑھ لیتے بلکہ وہ ہدایات انسانی یادداشت میں بالکل اسی طرح نقش ہو جاتی تھیں جیسے کوئی انسان کسی کو دیکھ کر یا کسی کو سن کر اپنے ذہن میں محفوظ کر لیا کرتا ہے۔ دل دہلا دینے والے اس تجزیے میں یہ بات کسی حد تک تشفی کا باعث تھی کہ جس انسان پر بھی وہ غذائیں اور ہوائیں اثر انداز ہوتی تھیں، اس کا دورانیہ 15 دنوں سے زیادہ کا نہیں ہوا کرتا تھا۔ پندرہ دنوں کے بعد وہ ایک نارمل انسان کی شکل اختیار کرنا شروع کر دیتا تھا۔ یہ بات بھی رپورٹ میں درج تھی کہ ٹھیک ہونے کے بعد اس کے دل اور دماغ میں بن جانے والی چپیں تحلیل ہو جایا کرتی تھیں اور یوں چپس کی موجودگی میں جو کچھ بھی ہوا اور کیا ہوتا تھا سب کا سب صاف ہو جاتا تھا یعنی وہ یادداشت کا حصہ ہی نہیں رہتا تھا۔
یہ ساری معلومات جمال اور کمال تک بھی پہنچائی گئیں لیکن یہ سب کچھ انھیں پہلے کی طرح خفیہ طریقے سے لیجانے کے بعد فراہم کی گئیں۔ پہلے کی طرح اب بھی ان کے سامنے تین ہی اہل کار تھے جو سیاہ نقابیں پہنے ہوئے تھے۔ جمال اور کمال ان باریکیوں کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ جمال اور کمال نے پچھلی مرتبہ کی طرح اس مرتبہ بھی یہ جان لیا تھا کہ ان کے درمیان ایک چوتھی شخصیت بھی موجود ہے لیکن وہ یا تو خفیہ کیمروں کی مدد سے یا ڈکٹا فونوں کے ذریعے دیکھ اور سن رہی ہے یا پردے کے پیچھے سے ساری کارروائی کا جائزہ لے رہی ہے۔ اس مرتبہ بھی ان کی حس یہ احساس دلا رہی تھی کہ کوئی چوتھی شخصیت قریب ہی موجود ہے جو حالات سے براہِ راست آگاہی حاصل کر رہی ہے۔ جب جمال اور کمال کے سامنے تمام تفاصیل لائی گئیں تو وہ نہایت غور سے سنتے اور پڑھتے رہے لیکن کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ (جاری ہے)