اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے وقت نکالیں

492

اپنی اس تحریر کو لکھتے ہوئے میں تین چار داہیاں پیچھے چلی گئی اپنے یادگار اور خوبصورت ماضی میں، جی ہاں میرا بچپن جو واقعی ہم سب بہن بھائیوں کے لیے حسین یادیں سمیٹے ہوے ہے وہ لمحے وہ گھڑیاں جو بابا اور اماں کی صحبت میں گزرا جو ہماری تربیت میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ماشاءاللہ۔

امان زیادہ پڑھی لکھی نہ تھی لیکن آج کی پڑھی لکھی ماوں سے بھی زیادہ دانا تھی بابا کی کاروباری مصروفیت کی وجہ سے وہ ہم نو بہن بھائیوں کو وقت دیتی ہماری سرگرمیوں پر اس طرح مثبت طریقے سےنظر رکھتی کہ ہمیں احساس بھی نہ ہوتا مثبت انداز میں کچھ جملے اس طرح کہتیں کہ وہ جملے ہر قدم پر ہماری رہنمائی بلکہ چوکیداری کرتے مثلاً اکثر کہتی میری بیٹیوں کو تو گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر تک کے راستے کے علاوہ تیسرے راستہ کا نہیں معلوم؛ یقین کریں۔ یہ جملہ ہم چاروں بہنوں نے پلو سے باندھا ہوا تھا اسکول سے کالج میں پہنچ گئے لڑکیاں کالج سے ماوں کو بتایے بغیر گھومتے پھرنے چلی جاتی، لیکن اماں کے اس جملے نے ہمیشہ ہمیں صرف گھر کی راہ دکھائی پڑھائی سےلیکر گھر داری تک تمام امور کےلیے ہماری تربیت کا خیال رکھا اسی طرح بھائیوں کو کہتی کہ نیک لوگوں کی اولاد ہو جو کبھی غلط راہ پر نہیں گئے ۔ماشاءاللہ بھائیوں نےبھی اس جملے کا پاس رکھا،بابا جو خود پڑھے لکھے اور باذوق انسان تھے اماں کی اس خوبی کی وجہ سےاماں کی نہ صرف قدر کرتےتھےبلکہ مطمئن بھی تھے۔ اور پھر انہوں نے اپنی ذہانت اور سمجھداری سے کاروبار کو زیادہ سے زیادہ وقت دیا لیکن ہماری تربیت سے کبھی غافل نہیں رہے بلکہ اپنے بڑےخاندان کی کفالت میں بھی کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتی۔ رات کو ہمیں اکثر انبیاء کرام کے واقعات اور اصلاح آموز واقعات سناتے جو ہم بہن بھائی بڑے انہماک اور دلچسپی سے سنتے ، جون جولائی کی چھٹیاں کتنی ہی کاروباری مصروفیت کے باوجود مختلف تفریح مقامات پر ہمارے ساتھ گزارتے۔ ہر موقع پر نصیحت آموز واقعات کو اس طرح سنایا کر تے جس سے ہم سب کی اصلاح ہوتی ہماری جائز خواہشات کا احترام کرتے لیکن کبھی کبھار ایک آدھ جائز خواہش کو بھی مثبت طریقے سے اس طرح نظر انداز کر تےکہ ہمیں برا بھی محسوس نہیں ہوتا بلکہ اس چیز کی دل میں قدر بھی ہوتی اس بات نے ہمیں بے جا خواہشات سےدوررکھا آج میں فخر سے کہتی ہوں کہ امان بابا کے زیر سایا ملنے والی اس تربیت اور اس وقت نے ہماری ہر قدم پر رہنمائی کی اور ٹھوکر لگنے سے بچایا۔

اسی ماں باپ کی طرف سے ملی تربیت کااثر ہے کہ ہم بہن بھائیوں نے بھی انہی خطوط کے مطابق اپنے بچوں کو وقت دیا میں نے ملازمت کے باوجود اپنے بچوں کی تربیت کو ترجیح دی انہیں اسی طرح وقت دیا۔ بلکہ ان کی دینی تعلیم کا بھی خیال رکھا اور ملازمت کے امور بھی ایمانداری سے انجام دیے ، آج میرا اپنے بچوں کو دیا وقت میرے بڑھاپے کو بھرپور سہارادے رہا ہے۔ جی ہاں آج میرے بچے ہم دونوں میاں بیوی کو وقت دے رہے ہیں میرے بچوں کو دیا ہوا میرا وقت آج مجھے اس طرح سکون وراحت بخش رہا ہے جس سے میرے بچے بھی اپنی آخرت سنوار رہے ہیں۔

ہمارا اپنے بچوں کو دیا ہوا وقت ان کی دنیا اور آخرت دونوں کو سنوار سکتا ہے میں یہاں معذرت کے ساتھ یہ کہوں گی کہ آج کے سب نہیں لیکن اکثر وبیشتر والدین اس سلسلے میں کوتاہی برت رہے ہیں بچوں کی تعلیم پر خوب پیسہ اور دھیان تو دے رہے ہیں لیکن ان کی تربیت کے لیے وقت نہیں نکال پارہے ہیں ان کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو نہیں کر رہے ہیں ۔

ان کی سرگرمیوں پر نظر نہیں رکھتے کہ ان کی صحبت کس قسم کی ہے ہر بےجا خواہش کو پورا کرنا آج والدین باعث فخر سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے آگے چل کر وہ بچے نفسانی خواہشات کے غلام بن جاتے ہیں۔

آج اس پرفتن دور میں والدین کی ذمہ داری دو بڑھ گئی ہے جس سے غافل رہنا نئی نسل کی بربادی ہے زندگی کے کام ہوتے رہتے ہیں لیکن اولاد کی تعلیم وتربیت انتہائی ضروری ہے آج کی زیادہ تر مائیں ورکنگ وومن ہیں۔ آپ کی ملازمت بےشک آپ سے وقت اور ایمانداری مانگتی ہے لیکن اپنی مصروفیت میں سے کچھ قیمتی لمحے اپنی اولاد کو ضرور دیں یہ ان کا حق بھی ہے اور آپ کا فرض بھی۔ جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہےکہ آج کا دور پر فتن دورہے اس دور کی آج ایک بڑی سہولت موبائل فون ہے لیکن یہ ایک بڑا فتنہ بھی ہے جو بچوں کو تفریح کے ساتھ ہر قسم کی برائی کی طرف بھی لے جارہاہے اس سلسلےمیں کوتاہی بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ میری بیٹی جو خود بھی کالج میں فزکس کی پروفیسر ہے ،کہتی ہے کہ آج کے دور میں ہمارے چاروں طرف بہت سے فتنے ہیں جس کی وجہ سے بچوں کی تربیت مشکل ہوگئی ہے ،بیشک اس کی بات غلط نہیں ہے بلکہ ان ہی فتنوں کی وجہ سے والدین کی ذمہ داری پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے انہیں زیادہ سے زیادہ وقت اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت پر دینا آج کی اہم ضرورت ہے، برے دوستوں کی صحبت سے دور رکھنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ یہ دوست گھر کی تربیت کو بھی ضائع کر سکتے ہیں جیسا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ، آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لہٰذا تم میں سے ہر شخص کو دیکھنا چاہئےکہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے، صرف برے انسان کی صحبت سے ہی بچانا کافی نہیں بلکہ موبائل فون جو ہر بچے کے ہاتھ میں ایک کھلونے کی طرح آگیا ہے اس کی صحبت سے بچانا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعے آج ایک بچہ، بچہ نہیں رہا ہے ہر شر بچوں تک آسانی سے پہنچ رہا ہے اس شر سے بچانے کے لیے والدین کو اپنا قیمتی وقت اولاد کے ساتھ گزارنا بےحد ضروری ہوگیا ہے والدین کی دی ہوئی خصوصی تعلیم وتربیت ہی اولاد کی دنیا و آخرت سنوار سکتی ہے اس میں کوتاہی کی صورت میں قیامت کے دن ضرور اس بارے میں بھی پوچھا جائےگا بیشک نیک اولاد صدقہ جاریہ ثابت ہو گی ہمیں اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچانا ہوگا یہی بڑی ذمہ داری ہے جو والدین کو والدین کے اصل مقام اور درجے پر پہنچاتی ہے… ماشاءاللہ

حصہ