واپسی

270

بیت ابراہیم کی پہاڑی کا موڑ کاٹتے ہی سورج کی شعاعیں سیدھی آنکھوں پر گریں۔ دھوپ میں حدت اچانک بڑھ گئی تھی۔ کچھ دیر میں آفتاب سوا نیزے پر آجائے گا۔ یہاں سے ندی تک… ندی سے آگے عمان تک… عمان سے بھی آگے… ان کے لیے اب کہیں سایہ نہیں۔ دھنکی ہوئی روئی کے گالوں کی طرح بادلوں کے چند ٹکڑے آسمان میں جہاں تہاں قائم ہیں جیسے آسمان کو برص کا مرض لگ گیا ہو۔ سورج سے کچھ نیچے، بادلوں سے کچھ اوپر ایک چیل فضا میں معلق تھی، یا شاید گدھ تھا۔ معلوم نہیں فضا کے اس بے کراں سکوت میں وہ کیا چیز ڈھونڈ رہا تھا! کیا وہ اپنے اوپر تنی ہوئی آسمان کی بوسیدہ اور تپیدہ چادر کے پگھلنے کا منتظر ہے؟ یا وہ اپنے نیچے ریت کے صحرا میں چلتے ہوئے قافلے کو حیرت سے تک رہا ہے؟ صحرا جو اُفق تابہ اُفق پھیلا ہوا ہے! قافلہ جس کے سامنے کوئی منزل نہیں۔

یہودی فوجیوں کی نگران جیپ جو حمض کی جھاڑیوں سے بچنے کے لیے کچھ دور ہوگئی تھی، پھر نزدیک آگئی۔ مکھیوں کا وہ غول اچانک غائب ہوگیا جو بیئرالجنہ سے یہاں تک ان کے زخموں سے رستے ہوئے لہو کا پیچھا کرتا آیا تھا۔ احمق مکھیاں ٹپکتا ہوا، رستا ہوا لہو دیکھ سکتی ہیں۔ جمے ہوئے لہو کے نیچے جو ناسور بن جاتے ہیں وہ ان کی آنکھ سے اوجھل رہتے ہیں یا یہ مکھیاں وادیِ ایمن کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتیں، جہاں ان کے لیے کافی غذا موجود ہے اور اُس گدھ کے لیے بھی جو نہ جانے کیوں اپنی برادری سے علیحدہ ہوگیا ہے جو غزہ سے بیت المقدس تک اور قنطارہ سے ایلات تک… ضیافت اُڑانے میں مشغول ہے اور تن تنہا فضا میں معلق ہے، اور اس قافلے کو حیرت سے تک رہا ہے جو اس وادی ایمن سے زندہ جارہا ہے۔ زندگی کا لٹا ہوا کارواں… کئی سو بوڑھے اور اپاہج مرد، عورتیں اور کئی ایسے تنومند جوان جن کے ہاتھ پہونچوں سے کٹے ہوئے ہیں۔ ان کی پیٹھ پر ننگے، زخمی، بھوکے، پیاسے، نڈھال اور آگ میں جھلسے ہوئے بچوں کا بوجھ ہے اور ان کے سامنے کوئی مستقبل نہیں۔ ان کے قدم بڑھ رہے ہیں معلوم سے نامعلوم کی طرف… امن و سلامتی کے گہوارے سے خوف اور بے یقینی کی لامحدود وسعتوں کی طرف… اور ان کے ہاتھوں میں کوئی حرکت نہیں۔ جھکے ہوئے شانوں سے ان کے بازو یوں جھول رہے ہیں جیسے ان کے جسم کا حصہ نہیں۔ چمڑے کی چوڑی پٹیاں، جن میں باندھ کر انہوں نے بچوں کو اپنی پشت پر لادا ہوا ہے، ان کی پیشانی میں جذب ہوتی جارہی ہیں اور انہیں احساس نہیں! خون، پسینہ اور دُھول کی دبیز تہہ میں بنوسلام کے بوڑھے مردوں کی داڑھیاں ان کے رخساروں کے دونوں جانب لٹک رہی ہیں اور انہیں احساس نہیں۔ بنوسلام کی بوڑھی عورتوں کے چار خانے والے کمبل کہیں راستے میں گر گئے ہیں، یا انہوں نے بوجھ کم کرنے کے لیے خود ہی گرادیے ہیں اور تکان کی سوجن نے ان کے چہرے کی سلوٹیں ختم کردی ہیں اور ان کے قدم یوں آگے بڑھ رہے ہیں جیسے انہیں اپنے جسم کے کسی حصے پر اختیار نہیں۔ جو بچے بے ہوش نہیں وہ بھی اپنی ماں یا دادا کی پشت پر لدے ہوئے اس طرح خاموش ہیں جیسے صحرا کے اسی سکوت نے انہیں جنم دیا ہے، اور احساسات سے انہیں کوئی واسطہ نہیں۔ کارواں جارہا ہے، احساسات پیچھے رہ گئے ہیں، متاعِ کارواں پیچھے رہ گئی ہے۔ تم اپنے ساتھ کیا لے جارہے ہو اسماعیل؟

نگران جیپ سے ایک فائر ہوا، اسماعیل نے چونک کر دیکھا۔ ایک بوڑھی عورت تکان کے سبب یا ٹھوکر کھا کر گر پڑی تھی، فائر اس کے شوہر پر ہوا تھا جو اسے اُٹھانے کے لیے رُک گیا ہوگا۔ جیپ سے آنے والی گولی نے اسے بھی بیوی کے پہلو میں لٹا دیا۔ یہ بنوسلام کا ہردلعزیز لطیفہ گونعم بن احسان تھا۔ یہ اب اس وادی ایمن کو چھوڑ کر نہیں جائے گا۔ اس کی بیوی بھی نہیں جائے گی جو ابھی تک زندہ ہے اور ناطاقتی کے باعث اپنے شوہر کی لاش کو سیدھا نہیں کرسکتی۔ قافلے والوں نے صرف ایک بار پتھر نگاہوں سے ان دونوں کی طرف گھورا ہے، اور آگے جارہے ہیں۔ تم بھی چلتے رہو اسماعیل! تمہارے ہاتھ پہونچوں سے آگے خالی ہیں اور تمہاری پشت پر قریش کا بوجھ ہے، جو اپنی جھلسی ہوئی ٹانگیں بار بار تمہاری بے حس کمر پر مار رہی ہے۔ آگے بڑھتے رہو، کیونکہ تمہارے بازوئوں کا آخری قطرۂ خون بھی بیئرالجنہ کی نم زمین میں جذب ہوچکا ہے، اور تمہاری ہتھیلیوں سے اور تمہاری انگلیوں سے بنوسلام کے کتے کھیل رہے ہیں، یا گدھ ان کا گوشت اُتار رہے ہیں۔ بیئرالجنہ کا میٹھا پانی پیچھے رہ گیا ہے اور تم آگے بڑھتے رہو! کھجوروں کے چھتنارے میں نرم بھیگی ریت کی سوندھی سوندھی خوشبو اور رہٹ کی دل کش آواز… سب کچھ پیچھے رہ گیا ہے۔ سنگتروں کے باغ میں آنکھ مچولی کے کھیل اور جمعتہ الوداع کی نماز پڑھنے کے لیے بیت المقدس کا طویل اور دل کش سفر، عیدین کے میلہ میں نیزہ بازی کے مقابلے، رات کے الائو کے پاس نوجوانوں کی قصیدہ گوئی اور ان کے کارناموں کی آپ بیتیاں جو بنوسلام کے بوڑھوں نے ترکی خلیفہ کی فوج میں انجام دیے تھے۔ آگے بڑھتے رہو اسماعیل! مسجد صخریٰ کا طلائی گنبد اور مسجد عمر کی محراب پیچھے رہ گئی اور تمہارے جدِّامجد کا مزار بھی پیچھے رہ گیا اور بنوسلام کا بوڑھا لطیفہ گو نعم بن احسان بھی پیچھے رہا جارہا ہے۔ اسے پلٹ کر نہ دیکھو۔ عید کے میلہ میں بنوسلام کے بوڑھے زمین سے زقند لگا کر گھوڑوں کی ننگی پشت پر جا بیٹھتے تھے اور ان کے جوان بیٹے فخر سے اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے تھے۔ نعم بن احسان کی بوڑھی بیوی نہ جانے کتنی دیر اپنی موت کا انتظار کرے گی، یا شاید نہیں کرے گی، کیونکہ آسمان کی پنہائی میں معلق گدھ نے شاید اسے دیکھ لیا ہے اور آہستہ آہستہ نیچے اُتر رہا ہے۔ بوڑھی عورتیں کھجوروں کے چھتنارے میں بیٹھ کر سارا سارا دن چرخہ چلایا کرتی تھیں۔ چرخے کے ساز پر ان کی جوانی کی یادوں سے لبریز گیت پکی ہوئی کھجوروں کی خوشبو سے بوجھل ہوا میں ارتعاش پیدا کرتے ہوئے چٹائی کی چھت والے مٹی کے گھروندوں اور بیئرالجنہ کی منڈیر تک پہنچتے تو نوبیاہتا دلہنیں مہندی لگے ہاتھ منہ پر رکھ کر آپ ہی آپ لجاتیں اور قبیلے کی لڑکیاں کنویں کے بڑے ڈول سے گاگر میں پانی انڈیلتے ہوئے کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتیں اور مسکراتیں۔ وہ مسکراہٹیں کہاں ہیں؟ وہ مہندی لگے ہاتھ کہاں ہیں؟ جوانی کی یادوں سے لبریز گیت اب بوڑھے ہونٹوں سے کبھی نہیں ابھریں گے، جنہیں بھوک، پیاس اور بے حسی نے پتھر کردیا ہے… بچپن کی معصوم مسکراہٹیں چٹائی کی چھتوں کے ساتھ جل گئیں، اور اوائلِ شباب کی ارمان زدہ کراہیں ان وادیوں میں بھٹک رہی ہیں جہاں گرم اور چنگھاڑتی ہوا اچانک ریت کے تودوں کو ہرے بھرے نخلستانوں پر لا ڈالتی ہے! جوانی کا وہ اوّلین احساس، محبت کی وہ پہلی کسک … اُم القریش … اُم القریش، جب یوں معلوم ہوتا تھا جیسے یہ ساری کائنات کسی کے پائے ناز پر قربان کرنے کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔ ابتدائے گرما کے دنوں میں جب ریت کے تودے آہستہ آہستہ نخلستان کی طرف بڑھتے تو تم کھجوروں کے گرد مدافعتی باڑھ باندھنے کے بہانے گھنٹوں دھوپ میں کھڑے رہتے کہ شاید تانبے کی کوئی گاگر اٹھائے بیئرالجنہ سے پانی بھرنے آئے گا، اور ابوالمحجُوب کی پہاڑی کے پاس اونٹ چَراتے ہوئے پورا پورا دن کیکر کے تنہا درخت سے ٹیک لگاکر گزار دیتے اور کسی کے تصور سے باتیں کرتے رہتے۔ جنگلی بیروں کی نئی جھاڑیوں کی تلاش میں تمہارے اونٹ حدِّ نظر سے دور نکل جاتے اور شام کے وقت انہیں تلاش کرنے میں اتنی دیر لگتی کہ ہجر و وصال کے جذبات سے پُر کئی نظمیں تیار ہوجاتیں، اور جاڑے کی راتوں میں جب بنوسلام کے تمام مرد بڑے الائو کے گرد جمع ہوتے تو تم بھی قبیلے کے اور جوانوں کے ساتھ اپنے بزرگوں کے دہرائے ہوئے لطیفوں پر اتنے بلند قہقہے لگاتے کہ جیسے تم سے زیادہ زندہ دل اس دنیا میں اور کوئی نہیں ہے۔ اُس وقت تمہارے ہر ساتھی کی یہی خواہش ہوتی کہ اس کے قہقہے کی صدا اس کی منگیتر تک پہنچ جائے جو کچھ فاصلے پر ایک دوسرے الائو کے قریب اپنی سہیلیوں کے جھرمٹ میں بیٹھی ہے اور جس نے جان بوجھ کر مردوں کی طرف سے پیٹھ کر رکھی ہے۔ وہ رشک و حسد، وہ مردانہ مقابلے، جب تم نے ابنِ معنی کی للکار کا سرِمیدان جواب دیا تھا… اُم القریش … اُم القریش… آسمان سے آگ برستی رہی اور زمین کا سینہ شق ہوگیا اور تمہاری آنکھ سے آنسو نہ نکلے۔ تمہیں رونا چاہیے تھا اسماعیل! تمہیں رونا چاہیے تھا۔ یہودی دو ہزار سال تک دیوارِ گریہ پر روتے رہے، اب آنسوئوں کی دیوار بہہ کر تمہارے سامنے آگئی ہے۔ لیکن نہیں رو سکو گے۔ تمہاری آنکھیں پتھر ہوچکی ہیں اور آنسوئوں کے سوتے خشک ہیں۔

’’یہ لوگ کیوں روتے ہیں؟‘‘ بچپن میں تم نے اپنے باپ سے پوچھا تھا۔

’’کیونکہ خدا کی پھٹکاری ہوئی ملعون اور مغضوب قوم ہیں، انہوں نے اللہ کے پیغام کو جھٹلایا اور اللہ نے ان کا شیرازہ منتشر کردیا۔ اب یہ لوگ، ہر اُس امت کے لیے نمونۂ عبرت ہیں جو اپنے بہتر لوگوں کو جھٹلاتی ہے اور اپنے کمتر لوگوں کو اپنا سردار بناتی ہے، اور اے میرے بیٹے! میری بوڑھی آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ جو حشر اس قوم کا ہوا، وہی ہمارا ہونے والا ہے۔ بنی اسرائیل کی جتنی نشانیاں اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بیان کی ہیں وہ ہم اپنے اندر پیدا کررہے ہیں۔ ہم نے اپنے ہاتھوں اپنی مرکزیت کا خاتمہ کردیا ہے اور نئے نئے نعروں کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ ہم نے دنیاکو اپنا بنا لیا ہے اور عقبیٰ کو فراموش کرچکے ہیں۔ اور میرے بیٹے! کبھی کبھی قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جہاں جہاں اللہ تعالیٰ نے ’یا بنی اسرائیل‘ کہا ہے وہاں اس کا مخاطب میں ہوں اورمیری قوم ہے۔‘‘

اپنے باپ کی بات اُس وقت تمہاری سمجھ میں نہیں آسکتی تھی اور وہ اپنے جذبات میں اس طرح بہہ رہے تھے کہ تم درمیان میں بول نہیں سکتے تھے۔ پھر بھی تم نے ہمت کرکے پوچھا تھا:

’’لیکن یہ لوگ روتے کیوں ہیں؟‘‘

’’یہ اپنی سلطنت کو روتے ہیں۔‘‘تمہارے باپ نے کہا تھا۔ ’’کئی ہزار سال قبل یہ لوگ یہاں آئے اور اللہ نے کچھ عرصہ انہیں یہاں حکومت کرنے کا موقع دیا۔ پھر انہوں نے سونے کی پرستش کی اور خدا کے کلام کو جھٹلایا۔ اپنے بروں کی سرداری پر راضی ہوئے اور اچھوں کو صلیب پر چڑھا دیا۔ آخر اللہ نے ان کا شیرازہ منتشرکردیا، ان سے اقتدار چھین لیا اور اب ان کے لیے اللہ کی وسیع سرزمین میں کہیں کوئی ٹھکانہ نہیں، کوئی سلطنت ان کے لیے مقدر نہیں، سوائے اس کے کہ دوسروں کی مدد سے یہ کوئی ریاست بنالیں اور دوسروں کی مدد سے وہ قائم رہے، یا خود اللہ تعالیٰ اپنے نافرمانوں کو سزا دینے کے لیے اِن شیطانوں کو اُن پر مسلط کردیں۔‘‘

دھوپ میں حدت بڑھ گئی۔ نگران جیپ پھر کچھ فاصلے پر چلی گئی تھی۔ ڈرائیور کی نشست کے پاس بیٹھا ہوا گدھ کی چونچ جیسی ناک والا افسر شاید اپنی نشست پر بیٹھے بیٹھے سو گیا تھا۔ جیپ کے جھٹکوں کے ساتھ اس کی گردن ہلکورے لے رہی تھی۔ لیکن پچھلی نشست پر بیٹھے ہوئے تینوں سپاہی چاق چوبند تھے۔ ان کی برین گنوں کا رخ قافلے کی طرف تھا۔ پہلا امریکی تھا۔ جیپ قریب سے گزری تو اسماعیل نے اُس کے لمبے قد کے سبب اُسے پہچان لیا تھا۔ دوسرے کو بھی کسی حد تک پہچان لیا تھا۔ اس کا رنگ سرخ تھا اور وہ روسی معلوم ہوتا تھا۔ تیسرا غالباً انگریز تھا یا جرمن یا فرانسیسی رہا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی وسیع سرزمین سے سمٹ کر یہ سارے ابلیس فلسطین کی تنگ وادی میں جمع ہوگئے تھے۔

’’مسلمانوں کے مال اور جان کو اب اللہ تعالیٰ ہی ان شیطانوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے‘‘۔ بوڑھے لطیفہ گو نعم بن احسان نے اسرائیلی حملے کی خبر سن کر زندگی میں پہلی بار ایک سنجیدہ بات کہی تھی۔ ’’سب قیامت کی نشانیاں ہیں۔‘‘

وہ لوگ اس وقت عشا کی نماز پڑھ کر حسب ِمعمول خویلد کے احاطے میںجمع ہوئے تھے اور پیش قدمی کرتی ہوئی یہودی فوج کے بارے میں اس طرح بے فکری سے گفتگو کر رہے تھے جیسے کھجوروں کی اگلی فصل سے متعلق پیشن گوئی کر رہے ہوں۔

’’میں تمہیں بتاتا ہوں‘‘، خویلد نے کہا ’’آج یا کل یہودی اس علاقے پر قبضہ ضرور کریں گے۔‘‘

’’ایسا نہیں ہو سکتا‘‘، ابنِ معنیٰ نے کہا ’’میں آج دن بھر دمشق اور قاہرہ کے پروگرام سنتا رہا ہوں۔‘‘

پورے قبیلے میں اُس کے پاس ٹرانزسٹر ریڈیو تھا اور وہ گفتگو میں اکثر اس کا ذکر لے آتا تھا۔ ’’مصری فوجیں کیل کانٹے سے لیس کھڑی ہیں، جنگ شروع ہوتے ہی اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی اور ادھر شام کی فوجیں…‘‘

’’میری بات اچھی طرح یاد کرلو‘‘، خویلد نے اس کی بات کاٹ کر کہا ’’اسرائیل اتنی آسانی سے ختم نہ ہوگا۔ دجال کا ظہور ہونے والا ہے۔ وہ دور جس سے رسول کریم ؐ اللہ کی پناہ مانگتے تھے۔ جب اللہ کے نیک بندے دجال سے جہاد کرکے شہید ہوجائیں گے اور دوزخی بندے دجال کی حکومت پر قانع ہوں گے۔ چالیس سال تک… سنتے ہو چالیس سال تک… یا چالیس مہینے تک وہ انسانی آبادیوں پر ظلم کرے گا، اور لوگ زمین سے کہیں گے کہ شق ہوجا اور ہمیں پناہ دے… اور دجال مصری فوج کے ہاتھ سے نہیں حضرت عیسیٰ ابن مریمؑ کے ہاتھ سے مارا جائے گا۔ اور جانتے ہو کس جگہ مارا جائے گا! لدّا نامی ایک پختہ میدان ہوگا… ایسا چکنا کہ گھوڑے اس پر دوڑ نہیں سکیں گے۔ وہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسے اپنے نیزے سے ہلاک کریں گے۔‘‘

’’یہودیوں نے اپنا ہوائی اڈہ لدّا میں بنایا ہے‘‘۔ ارقم نے کہا۔

’’یہودیوں کے جنرل کا نام موشے دایان ہے‘‘، نعم بن احسان نے کہا ’’اور سنا ہے کہ وہ ایک آنکھ سے کانا بھی…‘‘

اور پھر سب نے بھرپور قہقہہ لگایا جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتر چکے اور انہوں نے دجال کو ہلاک کردیا، اور اب کہیں کوئی خطرہ نہیں، صلیب توڑ دی گئی اور خنزیر سب کے لیے حرام کردیا گیا۔ اور پھر جب تم کافی رات گئے چوپال سے گھر واپس گئے تو تم نے ساری گفتگو ام قریش کو سنائی۔

’’ہو سکتا ہے ہم اُس وقت شاید نہ ہوں لیکن ہماری چونچال قریش شاید ہوگی اور حضرت عیسیٰ ؑ کا دیدار کرے گی۔‘‘

پھر تم نے اور ام قریش نے، قریش کو پیار کیا جو سوتے میں کسمسا رہی تھی۔ اور پھر سو گئے۔ اور اسی صبح فجر کی نماز سے پہلے آسمان پر کوئی چیز اڑتی ہوئی آئی اور دھماکوں سے تمہاری آنکھ کھلی تو بیئر الجنہ کی جھونپڑیاں اور کھجوروں کے درخت آگ سے جل رہے تھے۔

سب سے پہلے چار سال کی قریش تخت سے کود کر کھڑی ہوگئی۔ اور جب تم اور ام قریش اپناکمبل، چادر اور صندوق مکان سے باہر پھینک رہے تھے، قریش نیند میں بھاگتی ہوئی باہر نکل گئی، اور جب تم اور ام قریش اپنی بندوقیں اور کارتوسوں کی پیٹیاں اٹھائے باہر آئے تو قریش غائب تھی اور قبیلے کی تمام جھونپڑیاں اور خیمے جل رہے تھے اور اونٹ میدان کی طرف بھاگ رہے تھے… اور قیامت کی اس سرخ آگ کی طرح جو یمن سے شروع ہوگی اور تمام روئے ارض کے لوگوں کو ہانکتی ہوئی میدانِ حشر کی طرف لے جائے گی یہ بھی ایک قیامت خیز آگ تھی جو بنو سلام کے مردوں، عورتوں اور بچوں کو ہانک کر بیئرالجنہ کی کھجوروں کی طرف لے جارہی تھی۔ لیکن نفسانفسی کا عالم نہیں تھا۔ لوگ اپنا ضروری سامان اور اسلحہ اور بچے لانا نہیں بھولے تھے۔ اور ام قریش دیوانوں کی طرح جلتی ہوئی چٹائیوں اور چٹختی ہوئی لکڑیوں کے درمیان اپنی چار سالہ بیٹی کو ڈھونڈ رہی تھی اور تم ام قریش کے پیچھے دوڑ رہے تھے اور اسے بھاگنے سے منع کررہے تھے… کیونکہ اوپر آسمان میں ایک دوسرا جہاز نمودار ہوگیا تھا اور فضا میں غوطہ لگاکر لوگوں کی بھاگ دوڑ کا مشاہدہ کررہا تھا۔ پھر تمہیں ابن معنیٰ دکھائی دیا۔ ابن معنیٰ جس نے ام قریش کو حاصل کرنے کے لیے تمہیں راستے سے ہٹانا چاہا تھا، جس نے تمہیں ابوالمحیط کی گھاٹی میں مباہلہ کے لیے للکارا تھا، اور پھر مقابلے میں شکست کھاکر ایک شریف عرب کی طرح تمہارے حق میں دست بردار ہوگیا۔ ابن معنیٰ تمہیں دکھائی دیا، اور اس کی گود میں قریش موجود تھی جو بے ہوش تھی۔ ام قریش نے اسے ابن معنیٰ کی گود سے نہیںلیا، وہ اسے گھورکر رہ گئی۔ اب تم جب بھی ام قریش کو اپنی تصور کی آنکھ سے دیکھو گے، وہ تمہیں پتھر کے بت کی طرح نظر آئے گی، اس کی پتھرائی ہوئی آنکھیں خلا میں گھور رہی ہوں گی جہاں امریکا، جرمنی اور برطانیہ سے آئے ہوئے عفریب پرواز کرتے ہیں اور نہتی اور پُرامن آبادیوں پر نیپام بم پھینکتے ہیں۔ آگے چلتے رہو اسماعیل! قریش کی ٹانگیں جل گئیں اور ام قریش پتھر کا بت بن گئی۔ تم نے اس کا بازو پکڑکر بیئرالجنہ کی طرف کھینچا، جیسے کنویں کا ٹھنڈا پانی اس آگ کو بجھادے گا جو ام قریش کی روح کو جھلسا گئی ہے۔

پھر جب کچھ لوگ کھجوروں کے چھتنارے میں جمع ہوگئے تو خویلد نے ان کے سامنے تقریر کی، اس نے کہا دجال کا ظہور ہوچکا ہے ’’اور اس سے پہلے کہ اس کا لشکر نخلستان کا محاصرہ کرے اور بھاگنے کی تمام راہیں مسدود ہوجائیں… انہیں ندی کی طرف بھاگ اٹھنا چاہیے‘‘۔ لیکن ابن معنیٰ نے اس کی مخالفت کی، اس نے کہا’’شمال اور مغرب سے ہمارے دوست ملکوں کے جہاز بس اب آیا ہی چاہتے ہیں۔ جنگ اب شروع ہوگئی ہے اور تم دیکھنا کہ جب روسی اسلحے سے لیس مصری فوجیں تل ابیب میں داخل ہوں گی تو اسرائیلی جہازوں کو یہاں تک اڑ کر آنے کی مہلت نہیں مل سکے گی۔‘‘

اور ارقم بن مغیرہ نے بھی بھاگنے کی مخالفت کی۔ اس کی بوڑھی ماں شہید ہوگئی تھی، لیکن اس نے کہا’’ تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ کیا تم اس سرزمین سے اپنی جان کا تحفہ بچالے جانا چاہتے ہو جو تمہیں ارضِ حجاز کے بعد ساری دنیا سے زیادہ پیاری ہے! کیا تم اس راستے پر الٹے پائوں بھاگ جانا چاہتے ہو جس کے ہرگام پر تمہارے آباو اجداد کی قبریں ہیں! کیا تم ریت کے ان ذروں پر اپنے بھاگتے ہوئے قدموں کا سایہ ڈالنا چاہتے ہو، جنہیں تمہارے دادا حضرت ابراہیمؑ کے مبارک قدموں نے روندا، اور جنہیں ابوعبیدہؓ، خالدؓ اور ضرارؓ کے لشکر کے گھوڑوں کی ٹاپوں نے پامال کیا! اس لیے، صرف اس لیے کہ ساری دنیا کے یہودی سمٹ کر تمہاری پُرامن بستیوں میں جمع ہوگئے ہیں اور ان پر اپنا حق جتارہے ہیں! خدا کی قسم ہم نے اس زمین کو اُس وقت نہیں چھوڑا جب سارے یورپ کے عیسائی صلیبی جنگوں میں یہاں اپنا حق جتانے کے لیے جمع ہوگئے تھے، اور ہم اسے آج بھی نہیں چھوڑیں گے جب سارے یورپ اور امریکا کے ہتھیار اور ہوائی جہاز ہمارے مقدس مقامات کی بے حرمتی کرنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں۔‘‘

جواب میں خویلد نے پھر ایک بار تقریر کی لیکن اب اُس کی آواز بھرا رہی تھی ’’ہم اس لیے بھاگ رہے ہیں کہ ہمارے پاس ہتھیار نہیں‘‘۔ اس نے کہا ’’ان سے لڑ نہیں سکتے… وہ دجال کا لشکر ہے‘‘۔

اور تب اے اسماعیل! تمہیں بھی جوش آگیا۔ تم نے کہا ’’مگر ہم جان دے سکتے ہیں۔ ہماری جانیں قبتتہ الصخریٰ سے زیادہ قیمتی نہیں، جہاں تمام انبیا علیہم السلام نے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی اور جو ہمارا قبلہ اول ہے۔ ہماری بیویاں، ہماری اولاد اور ہمارا مال یہ سب اس دنیا سے رہ جانے والی چیزیں ہیں۔ انہیںبچا کر ہم دنیا کے کسی گوشے میں چلے جائیں، خدا کے سامنے ہمیں خالی ہاتھ جانا ہے، پھر وہ ہم سے پوچھے گا کہ کیوں نہیں تم نے مقدس زمین کی حفاظت کی جو میں نے تمہارے حوالے کی تھی؟ وہ ہم سے پوچھے گا کہ تم نے کیوں یقین کرلیا تھا کہ یہ دجال کا لشکرہے جبکہ دنیا میں اسلام ابھی باقی تھا اور قیامت کی دوسری نشانیاں ظاہر نہیں ہوئی تھیں؟‘‘ اور اگر واقعی تم نے اسے دجال کا لشکر سمجھا تھا تو کیوں نہیں اپنی آخری سانس تک ان کے خلاف جہاد کیا جبکہ تمہارے ہاتھ چلتے تھے اور بندوق اٹھانے کی سکت تمہارے اندر باقی تھی؟ اور جب کہ تم جانتے تھے کہ دجال ظاہر ہونے کے بعد دو ہی طرح کے لوگ باقی رہ جائیں گے، وہ لوگ جو آخری سانس تک اُس کے خلاف جہاد کریں گے اور وہ لوگ جو اُس کے مقابلے میں بھاگیں گے اور اس کے ظلم سہیں گے‘‘۔

چلتے رہو اسماعیل! اور اپنی بیئراالجنہ والی تقریر مت دہرائو۔ ام القریش… ام القریش… تمہاری تقریر نے اس کی پتھریلی آنکھوں میں چمک پیدا کردی تھی۔ یہ چمک تم کبھی نہیں بھول سکوگے۔ خویلد نے اپنی غلطی تسلیم کرلی تھی۔ اس نے کہاکہ حملہ آور اسرائیلی دجال کے لشکر ہوں یا نہ ہوں… بیت المقدس کے لیے جان دے دینا ہر مسلمان کا فرض ہے‘‘۔

اور پھر قبیلے نے اطمینان کے ساتھ فجر کی نماز ادا کی اور ندی کی طرف جانے کے بجائے بیت المقدس جانے کا عزم کیا۔ وہ اپنی عورتوں کو ندی کی طرف بھیجنا چاہتے تھے، لیکن عورتیں جانے پر راضی نہ ہوتی تھیں، اور اسی اثنا میں ابن معنیٰ نے ٹرانزسٹر کھول دیا۔ عمان سے ایک پُرعزم آواز سنائی دی ’’اللہ کے سپاہیو! ساری دنیائے اسلام کی آنکھیں تم پر لگی ہیں۔ قبلہ اول کی حفاظت کے لیے آخری قطرۂ خون بہادو۔ ہمیں کسی دنیوی مدد کی ضرورت نہیں۔ کوئی مادی مقصد ہمارے سامنے نہیں۔ ہماری جزا صرف خدا کے پاس ہے۔ ہم اس پرچم کو نیچا نہ ہونے دیں گے جسے غازی صلاح الدین نے اسلامی اور صلیبی جنگوں میں سارے یورپ کے پے درپے حملوں کے سامنے بلند رکھا تھا۔ ہم اپنے ہتھیاروں سے لڑیں گے۔ کسی رات کا اندھیرا اور کسی دن کا اجالا ہمیں بیت المقدس کے سامنے اپنی ایڑیوں پر خون گراتے نہیں دیکھے گا‘‘۔

اور تب قبیلے کا جوش اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ سب نے یکبارگی اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ عورتوں کی آواز بھی اس نعرے میں شامل تھی۔ جوانوں نے اپنی بندوقیں اور تلواریں ہوا میں اچھالیں، بوڑھوں نے اپنے کارتوسوں کی پیٹیوں پر ہاتھ پھیرا… اور اب یہ بات گویا طے ہوگئی کہ جوان عورتیں بھی مردوں کے ساتھ رہیں گی اور صرف بوڑھی عورتیں اور بچے چند ضعیف مردوں کے ساتھ ندی کے پار چلے جائیں گے۔

چلتے رہو اسماعیل! اور اُس وقت کو اپنے ذہن کے گوشوں سے نوچ کر پھینک دو جب تم نے ابنِ معنیٰ سے عمان کا اسٹیشن بدل کر کوئی اور اسٹیشن لگانے کی درخواست کی، جب کہ تم اس وقت دنیا کے ہر اسٹیشن سے عمان ریڈیو کی ولولہ انگیز آواز سننا چاہتے تھے… لیکن نئے اسٹیشن سے چنگھاڑنے والی وہ کریہہ آواز ہمیشہ تمہارے حواس کا پیچھا کرتی رہے گی، جس نے تمہارے قبیلے کے نوجوانوں سے خدا کی راہ میں شہید ہونے کی مسرت چھین لی، اور جس نے کچھ دیرکے لیے تمہیں چھری کے نیچے پڑے ہوئے میمنہ کی طرح خوف زدہ کردیا۔ یہ فلسطین کی جنگِ آزادی کے ایک لیڈر کی آواز تھی جو جنگِ آزادی سے بہت دور کسی حفاظت گاہ میں بیٹھا تھا اور چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا ’’یہ جنگ یہودیوں اور عربوں کے درمیان ایک قومی جنگ ہے۔ یہ جنگ آلِ موسیٰ اور قبطیوں کے درمیان ایک نسلی جنگ ہے۔ یہ جنگ یہودی سامراج اور عرب کے درمیان ایک طبقہ وارانہ جنگ ہے۔ جو لوگ اسے مذہبی جہاد کا نام دیتے ہیں وہ سامراج کے پٹھو ہیں۔ اے عروبہ! اس جنگ سے اپنا اُلّو سیدھا کرنے والے عیاروں سے ہوشیار رہو، جو تمہارے مذہبی جذبات بھڑکا کر لڑانا چاہتے ہیں۔ ہاں لڑو تو کسی خدا کے لیے نہیں‘‘۔

یہ آواز پگھلے ہوئے سیسے کی طرح کانوں میں اتری اور قبیلے کے اعصاب کو مفلوج کرتی چلی گئی۔ ابن معنی نے اپنا ہاتھ فضا میں لہرایا اورٹرانزسٹر دور پھینک دیا۔

’’ہم اکیلے ہیں‘‘ اس نے کہا، ’’کسی دوسرے ملک سے جہاز ہماری مدد کرنے نہیں آئیں گے‘‘۔

ارقم نے کہا ’’یہ لوگ اس وقت بھی ہمیں بدیسی نعرے دے رہے ہیں جب ہمارے ہاتھ خالی ہیں اور ہمارا کوئی مرکز نہیں‘‘۔

’’اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے‘‘، خویلد نے کہا، ’’آئو ہم اپنی جانیں اس کے ہاتھ بیچ دیں‘‘۔

’’اے اللہ! ہم اپنے آپ کو تیرے سپرد کرتے ہیں‘‘، سب نے زیر لب کہا۔

’’بوڑھی عورتیں، بچے اور ضعیف مرد علیحدہ کردیئے گئے اور سب نے انہیں خدا حافظ کہا۔ ایک بوڑھی عورت نے قریش کو اٹھالیا تھا۔ وہ لوگ چلے گئے لیکن ندی تک نہ جاسکے!

ابوالمحیط سے گولوں کی بارش شروع ہوگئی تھی۔ دور مار توپوں کے گولے تیز رفتار طیاروں کی طرح ان کے سروں پر سے گزرتے اور کئی میل پیچھے جاکر پھٹ جاتے۔ اب آگے بڑھنے یا پیچھے ہٹنے کا کوئی سوال نہ تھا۔ انہوں نے اپنے حواس پر قابو رکھا۔ بچوں کوکھجور کے ٹیڑھے تنوں سے ٹیک لگا کر بٹھا دیا۔ بوڑھی عورتیں بچوں کے پاس بیٹھ گئیں۔ باقی لوگ نخلستان کے گرد کھنچی ہوئی مٹی کی دیوار اور مہندی کی باڑھ کے پیچھے پوزیشن لے کر بیٹھ گئے۔ پھر دشمن ابوالمحیط کے دامن میں نمودار ہوا۔ صرف تین ٹینک تھے۔ ان کے پیچھے بکتربند گاڑیاں تھیں، ان کا رخ سیدھا نخلستان کی طرف تھا۔

ام القریش… ام القریش… وہ کس طرح مہندی کی جھاڑی سے بندوق کی نال باہر نکالے مطمئن بیٹھی تھی، تم نے اسے دیکھ کر یقین کرلیا کہ دنیا کی کوئی طاقت تمہارے عزم کو شکست نہیں دے سکے گی۔ تم جانتے تھے کہ دشمن کے دبائو نے اگر تمہارے پائوں اکھاڑ دیئے تو خولہ کی بیٹی تمہاری راہ میں آجائے گی اور تم اس کی نگاہوں کی تاب نہ لاسکوگے۔ چلتے رہو اسماعیل! زندگی اس وقت تمہاری نظروں میں ہیچ تھی اور شہادت کا عزم تمہیں بے چین کیے دے رہا تھا۔ لیکن تم خاموش بیٹھے تھے، اور قبیلے کے تمام لوگ اس وقت خاموش بیٹھے تھے۔

ننھے ننھے معصوم بچے بھی درختوں کی اوٹ میں اس طرح مہر بہ لب تھے جیسے انہیں حالات کا پورا اندازہ ہے۔ دشمن کے ٹینک اطمینان سے آگے بڑھ رہے تھے۔ ان کے جوانوں نے انہیں بتادیا ہوگا کہ اس علاقے میں کسی مقابلے کا اندیشہ نہیں ہے۔ پھر وہ وقت آگیا۔ ٹینک تم سے کچھ فاصلے پر رک گئے۔ اگلے ٹینک سے ایک سپاہی نے سر نکالا اور تمہاری زبان میں چلّا کر کہا ’’اپنے ہتھیار پھینک دو اور ہاتھ اٹھا کر سامنے آجائو‘‘۔کسی نے ہتھیار نہیں پھینکے، کوئی حرکت نہیں ہوئی۔ سپاہی نے پھر کہا ’’باہر آجائو، تم ٹینکوں کا مقابلہ نہیں کر سکوگے!‘‘

تم نے ٹینکوں کا زبردست مقابلہ کیا۔ پہلی گولی نہیں معلوم کس نے چلائی تھی، لیکن اللہ اکبر کا نعرہ سب نے لگایا تھا اور شاید سب ایک ساتھ مورچوں سے نکل کر دشمن پر جھپٹے تھے۔ کاش! تمہیں معلوم ہوتا کہ ٹینکوں کا پٹ کس طرح کھولا جاتا ہے…! اپنے سے اگلے ساتھیوں کی لاشیں پھلانگتے اور یا للاسلام کا نعرہ لگاتے وہ کبھی ایک ٹینک اور کبھی دوسرے ٹینک سے ٹکراتے رہے۔ ان کی ایک ٹولی نے کسی نہ کسی طرح ایک بکتربند گاڑی کو بھی نرغے میں لے لیا۔ لیکن سارا کھیل جلد ختم ہوگیا…! تم نے اس وقت کیا کِیا اسماعیل؟ یہ منظر تمہارے ذہن کے پردے پر وضاحت کے ساتھ کبھی نہیں ابھرے گا کہ تم اس دوران کیا کرتے رہے؟ جب ٹینکوں سے ابلتے ہوئے گولوں کی گھن گرج اور توڑے دار بندوقوں کی آوازیں کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھیں۔ تمہاری زندگی کے وہ اہم ترین لمحے جو تمہارے پُرعزم ماضی اور پراگندہ حال کے درمیان ایک کڑی کی حیثیت رکھتے تھے۔ انہیں ٹینک کے اس گولے نے تمہاری یاد کی زنجیر سے توڑ کر پھینک دیا ہے جو سنسناتا ہوا آیا اور تمہارے ساتھ ٹینک کی طرف جھپٹتی ام قریش کوخاک اور خون کا ڈھیر بناتا ہوا غائب ہوگیا۔ مہندی کی اس جھاڑی میں جہاں کچھ دیر پہلے وہ تمہارے پاس بیٹھی تھی تم نے اس کی آنتوں کے ہار لٹکتے دیکھے اور تم نے کوئی چیخ نہیں ماری۔ آگے بڑھتے رہو اسماعیل! وہ تمہاری زندگی تھی اور اس کے بعد دنیا میں کوئی زندگی نہیں۔ کیا تم اس ٹینک پر چڑھ گئے تھے یا تم اس گروہ میں شامل تھے جس نے ایک بکتربند گاڑی کو آگ لگا دی تھی۔ تمہارے ہاتھ کس وقت باندھے گئے؟ تمہارے ہاتھ کس وقت کاٹے گئے؟ انہوں نے تمہیں گولی کیوں نہیں مار دی جیسا کہ قبیلے کے بیشتر جوانوں کو گولی مار دی تھی؟ وہ کون تھا جس نے قریش کو تمہاری پیٹھ پر سوار کرکے چمڑے کی پیٹی تمہارے ماتھے پر باندھ دی تھی۔ جب وہ اس نخلستان کو آگ لگا رہے تھے، جس میں شہد کی مکھیاں چھتہ لگاتی تھیں اور موسمِ بہار کی رنگین چڑیاں چہچہاتی تھیں تو تم نے کوئی آواز کیوں نہیں بلند کی! جب وہ قبیلے کے خوبصورت بچوں کو ہوا میں اچھال کر، ان پر گولیاں چلا رہے تھے تو تم چیخے کیوں نہیں! جب وہ جوان لڑکیوں کے سر سے چادریں اتار رہے تھے تو تم نے اپنی آنکھیں کیوں نہیں پھوڑ لیں! جب انہوں نے خویلد کی ماں کو جو تمہاری دادی کی سہیلی تھی، برہنہ کردیا تو تم زمین میں کیوں نہیں گڑ گئے…!

اور اب تم کہاں جا رہے ہو! کیا تم عمان کے چوراہے پر بیٹھ کر اپنے اور اپنی اپاہج بیٹی کے لیے بھیک مانگو گے! کیا تم عمان کے غریب باشندوں کے ایک وقت کے کھانے میں اپنا حصہ لگائو گے! اور اس طرح یہودیوں کا وہ مقصد پورا کرو گے جس کی خاطر انہوں نے تمہیں زندہ رکھا ہے اور جانوروں کی طرح تمہیں ایلن بی کی طرف ہانک رہے ہیں!

نگران جیپ نے سائرن بجایا، اگلی نشست پر اونگھتا ہوا افسر ہوشیار ہوگیا تھا۔ اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ قافلہ بغیر رُکے دو حصوں میں تقسیم ہوگیا اور اس نے جیپ کے گزرنے کے لیے جگہ بنا دی، جیسے پورا قافلہ ایک مشین ہے جو انسانی اشاروں پر حرکت کرسکتی ہے۔ جیپ اس درمیانی جگہ سے گزر کر اب قافلے کے بائیں ہاتھ پر آگئی تھی جہاں جھاڑیاں نسبتاً کم اور دور دور تھیں۔ قافلہ پھر ایک قطار میں ہوکر چلنے لگا۔ یہودی افسر نے جیب سے مائوتھ آرگن نکالا اور بجانے لگا۔ سورج کی بے رحم دھوپ جب ہر ے بھرے نخلستانوں کو جلا کر خاکستر کردیتی ہے تو زندگی کے ہر احساس سے عاری بادِ صرصر اسی طرح فضا میں شادیانے بجاتی ہے۔ آگے چلتے رہو اسماعیل! بیئرالجنہ کی جلی ہوئی کھجوروں سے گزرنے والی ہوا مہندی کے پودوں کی شاخیں ہلا رہی ہے اور ان پر لٹکے ہوئے آنتوں کے ہار خشک ہوچکے ہیں۔ چلتے رہو… شاید تم عمان جائو گے… یا شاید تم عمان سے آگے چلے جائو۔ مدینۃ المنورہ جانا اور روضۂ نبوی کی سنہری جالیاں پکڑ کر فریاد کرنا، کہنا کہ اے سارے جہانوں کے لیے باعثِ رحمت، اٹھیے اور دیکھیے کہ قیامت آپؐ کی امت پر گزر گئی! کہنا کہ میں وہ قافلۂ حسینی ہوں جس کے ہاتھ پہونچوں سے کٹے ہوئے تھے… لیکن اس کی پشت پر کسی بچے کا بوجھ نہ تھا۔ اسماعیل نے کوئی جواب نہیں دیا۔

’’اور اس سے آگے ضرار بن ازور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مزار ہے۔‘‘ ابن معنیٰ نے کہا۔ اسماعیل نے اب بھی کوئی جواب نہ دیا۔

’’خدا کی قسم! میں اس سرزمین کو چھوڑ کر نہ جائوں گا جس کے چپے چپے پر میرے اجداد کی قبریں ہیں‘‘۔ ابن معنیٰ نے کہا ’’آگے چلتے رہو اسماعیل! ابن معنیٰ تمہارے ساتھ چل رہا ہے۔ کئی سو بوڑھے اور ضعیف مرد اور کئی سو عورتیں اور کئی جوان اپاہج مرد تمہارے ساتھ چل رہے ہیں۔ صخرہ کا گنبد پیچھے رہ گیا، مسجد عمرؓ پیچھے رہ گئی، بیت ابراہیمؑ پیچھے رہ گیا، حضرت ابوعبیدہؓ اور حضرت جرارؓ کی قبریں بھی پیچھے رہ جائیں گی۔

جیپ سے فائر ہوا… یہ ابن معنیٰ ہے۔ اس کے جسم میں ابھی کچھ خون باقی تھا جو اب اس کی دائیں ٹانگ سے ابل رہا ہے۔ اپنی کہنیوں کے بل وہ حضرت ابوعبیدہ بن جراح ؓ کے مزار کی طرف رینگ رہا ہے۔ وہ تمہارے پہلو سے کس وقت مزار کی طرف دوڑا تھا، تم نے نہیں دیکھا۔ اب بھی اس کی طرف نہ دیکھو۔ جدھر وہ جارہا ہے وہ بڑی مقدس جگہ ہے۔ ادھر دیکھا تو تم آگے نہ جا سکو گے۔ ابن معنیٰ خوش قسمت ہے۔ اب اس کی روح اس کے سالار کے سامنے شرمندہ نہ ہوگی، جس نے پہلی بار بیت المقدس کے دروازے پر اذان دی تھی۔ ابن معنیٰ خوش قسمت ہے، جلدی ہی وہ دوسرے شہسوار کے پاس بھی پہنچ جائے گا۔ جو گھوڑے، جس کے خیمے وقت کے یزید نے لوٹ لیے اور آپؐ کے کلمہ گو اس کی مدد کو نہ پہنچے۔ کہناکہ ظلم کے کانٹے میرے تلووں اور میری روح میں اتر گئے اور آپؐ کی امت نے اپنے جسم کے کسی حصے میں درد محسوس نہیں کیا۔ کہنا کہ ہم پر آسمان سے آگ برستی رہی اور زمین کا کلیجہ شق ہوگیا اور آپؐ کی امت اپنے گھروں میں دروازے بند کیے بیٹھی رہی۔ کہنا کہ وہ ہاتھ کٹ گئے جنہوں نے آپؐ کا پرچم اٹھایا، اور وہ سرکٹ گئے جو خدا کے سوا کسی کے سامنے جھکنانہ جانتے تھے… کہنا… مگر تم نہیں کہہ سکو گے۔ تمہاری زبان پر کانٹے پڑ چکے ہیں اور تمہاری آنکھوں کے سوتے خشک ہیں، اور تم اس مقدس مقام کو پیٹھ دکھا کر جارہے ہو جس کی طرف منہ کرکے اس کالی کملی والے نے نماز پڑھی تھی۔

آگے بڑھتے ہو اسماعیل! وہ سامنے ابوعبیدہ بن جراحؓ کا مزار ہے اور مثنیٰ بن حارثہ کا مزار ہے، جس شہسواروں نے اس سرزمین کے چپہ چپہ پر اللہ کا پیغام سنایا اور جو قیامت تک کے لیے اس زمین پر ثبت ہوگئے۔ انہیں اپنی بے زبانی کا نقشہ نہ دکھائو جن کے گھوڑوں کے سموں کے نیچے زمین کی طنابیں سمٹ جاتی تھیں، ان سے اپنے بریدہ ہاتھ چھپالو۔

’’یہ حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ کا مزار ہے‘‘۔ ابن معنی نے آہستہ سے کہا۔ اسماعیل کو پہلی بار معلوم ہوا کہ وہ اس کے پہلو میں آگیا ہے، اس کے دونوں ہاتھ بھی۔ ’’ننگی پیٹھ پر بیٹھ کر خدا کی راہ میں جہاد کرتا تھا اور جس نے کبھی اپنی حفاظت کے لیے زرہ نہ پہنی۔ یا شاید تم خوش قسمت ہو، کیونکہ تمہاری پشت پر ایک نئی نسل کا بوجھ ہے اور تمہارے قدم ابھی تک پُل کی طرف اٹھ رہے ہیں اور یاس کے سیاہ اندھیروں میں امید کی ایک ہلکی سی کرن باقی ہے۔ تم اپنا فرض پورا کرچکے اور تم نے کوئی کوتاہی نہیں کی۔ ام القریش خدا کے سامنے سرخرو ہوگئی۔ ابن معنی کسی سے شرمسار نہیں۔ اب اپنی امیدوں کا مرکز اس نئی نسل کو بنالو، جس کی ٹانگیں جھلسی ہوئی ہیں اور جسے اس حادثے کی کوئی خبر نہیں۔ ہزاروں سال پہلے تمہارے دادا اسماعیل ذبیح اللہ نے اس مقدس سرزمین سے ہجرت کی تھی، پھر تم یہاں واپس آگئے۔ تم پھر یہاں آئوگے، جس گوشۂ زمین کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کے لیے مخصوص کیا اس کا ذرہ ذرہ اللہ کی امانت ہے۔ خزاں کی یلغار سبزہ زاروں کو کچھ دیر کے لیے اجاڑ دیتی ہے لیکن آمدِ بہار کے ساتھ نئی کونپلیں برگ و بار بنتی ہیں اور سبزہ پھر مسکراتا ہے۔ تمہارے ہاتھ کٹ گئے، نئی نسل کے بازو مضبوط بنائو۔ انہیں بتائو کہ قبتۃ الصخریٰ اداس اور مسجد عمر سے اذان کی آواز بلند نہیں ہوتی۔ انہیں ہتھیار دو اور انہیں ٹینکوں کے منہ کھولنا سکھائو… آگے بڑھتے رہو اسماعیل… تم یہاں پھر آئوگے… تم یہاں پھر آئوگے…!

حصہ