اونٹ کا انتقام:بلوچستان میں پیش آنے والا ایک حیران کن سچا واقعہ

645

کچھ عرصہ پہلے مجھے کچھ سامان لے کر ایف ڈبلیو او کیمپ واقع جل مگسی جانا ہوا جو بلوچستان میں واقع ہے۔ ٹرک ڈرائیور بلوچی تھا۔ دوران سفر ایک جگہ بہت سے اونٹ چرتے نظر آئے۔ میں نے مذاقاً بلوچی ڈرائیور سے کہا ’’بھائی! ان اونٹوں کے مالک کیا چرواہے ہی ہیں؟‘‘

بلوچی ڈرائیور مسکرایا اور بولا ’’صاحب! یہ وڈیروں کے ملازم ہیں۔ روزانہ ان کے اونٹ بیابانوں میں چراتے ہیں‘‘۔

اس کے بعد اونٹ کے متعلق باتیں شروع ہوگئیں۔ ڈرائیور نے بتایا کہ اونٹ فطرتاً شرمیلا جانور ہے مگر اول درجے کا کینہ پرور … کسی کا دشمن ہوجائے تو اسے ساری عمر نہیں بھولتا۔ اس بلوچی نے پھر اپنے سگے چچا، شکر خان کا ایک دلدوز واقعہ سنایا جو قارئین کی نذر ہے۔

دو دن بارش ہونے کے بعد موسم خوشگوار ہوچکا تھا مگر رفتہ رفتہ گرمی کی شدت بڑھ رہی تھی۔ شکر خان بلوچ حسب معمول کھجور کے جھنڈ میں پہنچا اور ٹھنڈی جگہ بیٹھ گیا۔ رائفل کندھے سے اتار کر ایک طرف رکھ دی پھر اپنی پوٹلی کھولی اور کھانا نکال کر تناول کیا۔ آج وہ تنہا تھا۔ اس کا چچا زاد بھائی، تسکین خان کسی کام سے شہر گیا ہوا تھا۔ دونوں گہرے دوست تھے اور اکٹھے ہی آبادی سے دور اس ویرانے میں بھیڑ بکریاں اور اونٹ چرایا کرتے۔

شکر خان کی عقابی نگاہیں وقتاً فوقتاً دائیں باتیں تیزی سے حرکت کررہی تھیں۔ چراگاہ میں جابجا کانٹے دار جھاڑیاں اور صحرائی پودے بکھرے ہوئے تھے۔ کہیں کہیں کھجور کے جھنڈ بھی نظر آجاتے۔ ایک طرف چھوٹی بڑی سیاہ چٹانوں کا سلسلہ دور تک چلاگیا تھا۔ انہی چٹانوں کے شروع میں ایک سیاہ چٹان اپنی بلندی کے باعث اس کا پسندیدہ مقام تھی۔ شکر خان اس پر چڑھ کر چاروں طرف دور دور تک نگاہ دوڑا لیتا۔ یوں تمام جانور اس کی نظروں کے سامنے رہتے۔

وہ ہمیشہ انہیں دائیں جانب جانے سے روکتا تھا کیونکہ سیاہ چٹانوں کے عین درمیان گیڈروں اور بھیڑیوں کے بھٹ تھے۔ وہ کئی مرتبہ مویشیوں پر حملہ آور بھی ہوچکے تھے۔ شکر خان کھانا کھا کر سیاہ چٹان پر چڑھا اور اپنے گلے کی نگہبانی کرنے لگا۔ اسے نظریں مسلسل حرکت میں رکھنا پڑتی تھیں تاکہ کوئی درندہ آنکلے تو وہ اسے بروقت گولی مار سکے۔

گلے کا ایک نوجوان اونٹ، بھورا منچلا تھا۔ وہ اکثر سیاہ چٹانوں کی طرف نکل جاتا اور اس کی طرف دیکھا دیکھی بھیڑ بکریاں بھی ادھر کا رخ کرتیں۔ ادھر شکر خان کو ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا کہ کہیں کوئی درندہ بھیڑ بکری کو اچک لے۔ اونٹ تو خیر بڑا جانور تھا، اسے خاص خطرہ نہ تھا مگر اس کی پیروی کرنے والی بھیڑ بکریاں بھیڑیے کے لیے تر نوالہ ثابت ہوتیں۔

شکر خان اسی لیے بار بار جانوروں کو میدانی علاقے کی طرف ہانک دیتا یا پھر حلق سے مخصوص آواز نکال کر جانوروں کو ادھر جانے سے روکتا۔ وہ کبھی کبھار آسمان کی وسعتوں میں بھی جھانک لیتا۔ صحرائی عقاب بھی اس کا دشمن تھا۔ وہ موقع پاکر بھیڑ بکریوں کے نئے بچے اٹھالے جاتا۔ دوپہر آئی تو اس کا دل تھوڑی دیر آرام کرنے کو چاہنے لگا۔ شکر خان نے کھجور کے جھنڈ میں چادر بچھائی اور پائوں پسار کر لیٹ گیا۔ وہ ٹھنڈی صحرائی ہوا میں خراٹے لینے لگا۔

وہ خاصی دیر محو خواب رہا پھر اچانک ہربڑا کر اٹھ بیٹھا۔ کوئوں کا ایک غول کائیں کائیں کرتا اس کے جھنڈ کا طواف کررہا تھا۔ اس نے کوئوں کا بغور جائزہ لیا تو انکشاف ہوا کہ ایک کوا کانٹے دار جھاڑیوں میں الٹا لٹکا ہوا ہے۔ اس کا پر نہ جانے کیسے کانٹوں میں پھنس گیا تھا۔ وہ بار بار پھڑ پھڑا کر آزاد ہونے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔ شکر خان نے جھاڑی میں پہنچ کر اس غریب کو تکلیف سے نجات دلائی تو کوا فوراً اڑ گیا۔ فضا میں کائیں کائیں کا غلغلہ پھر بلند ہوا اور تمام کوے اپنے ساتھی کے ساتھ پرواز کرگئے۔

اب شکر خان اطمینان سے اپنی جگہ آبیٹھا۔ جب اس نے حسب معمول ریوڑ پر اچٹتی نگاہ ڈالی تو اسے بھورا اونٹ کہیں نظر نہ آیا۔ دیگر جانور اطمینان سے چراگاہ میں گھاس چررہے تھے۔ شکر خان غصے سے لال پیلا ہوگیا اور اول فول بکتا سیدھا سیاہ چٹان پر جاچڑھا ادھر ادھر نظریں دوڑانے کے باوجود اونٹ اسے کہیں نظر نہ آیا۔

اب اس نے سیاہ چٹانوں کی طرف دوڑ لگادی۔ تھوڑی ہی دور چٹانوں کی اوٹ میں اسے بھورا اونٹ نظر آگیا جو مزے مزے سے پیلو کی پتیاں اور کونپلیں چبارہا تھا۔

وہ منہ سے غصیلی آوازیں نکالتا اس کے قریب پہنچا۔ غصے کے مارے اس نے تسکین خان کی یہ ہدایت بھی نظرانداز کردی کہ بھورے کو کبھی لاٹھی سے نہ پیٹنا۔ شکر خان نے طیش میں آکر بھورے کو ایک ڈنڈا رسید کیا۔ اونٹ سرپٹ واپس چراگاہ کی طرف بھاگا اور ریوڑ کے درمیان جاکھڑا ہوا۔ وہ خوب جانتا تھا کہ مالک کیوں ناراض ہے۔

شکر خان ڈنڈا لے کر جب قریب پہنچا تو وہ اس کی طرف رحم طلب نظروں سے دیکھنے لگا جیسے کہہ رہا ہو کہ مالک معاف کردو مگر شکر خان کا پارہ چڑھا ہوا تھا۔ اس نے آئو دیکھا نہ تائو، اونٹ کی نکیل پکڑی اور اس پر ڈنڈے برسانے لگا۔ بھورا درد کے مارے بلبلا اٹھا۔ شکر خان گالیاں بھی بک رہا تھا۔ جب وہ تھک ہار کر ایک طرف بیٹھا تو بے اختیار اس کی نظر بھورے اونٹ پر پڑی جو اسے کچا چبانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اسے اس کی موٹی لال لال آنکھوں سے شعلے نکلتے محسوس ہوئے۔

اب شکر خان کا ماتھا ٹھنکا۔ اس نے سوچا آج تو تسکین خان بھی یہاں نہیں اور بھورے کے تیور ٹھیک نظر نہیں آتے، مجھے اونٹ کے ساتھ نرم برتائو کرنا چاہیے تھا۔ یہ خیال آتے ہی وہ اٹھا اور انٹ کے پاس پہنچ کر اس کا جسم سہلانے لگا۔ وہ دھیرے دھیرے اس کی گردن پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ شکر خان پھر آہستہ آہستہ اسے پچکارتے ہوئے بولا ’’دیکھو پیارے! تمہارے اس طرف جانے سے سارا ریوڑ بھی وہاں چلا جاتا ہے، وہاں وہ درندروں کا نوالہ بن سکتے ہیں، مگر تم ہو کہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے‘‘۔ بھورے کے سامنے یہ منت سماجت اس لیے کی گئی کہ وہ اپنا غصہ تھوک دے۔

تھوڑی دیر بعد شکر خان بھاگم بھاگ جھنڈ کی طرف گیا اور پیلو، جنگلی بیری کی چند پتیاں اور خشک گھاس کے سامنے ڈال دی مگر بھورا ٹس سے مس نہ ہوا۔ بدستور منہ پھلائے کھڑا رہا۔ شکر خان پھر پلٹا اور ٹوٹے گھڑے کے پیندے میں پانی ڈال کر اس کے آگے رکھا۔ پھر پانی پینے کی مخصوص آواز نکالی مگر اونٹ نے اس کی خدمت کی طرف بھی کوئی توجہ نہ دی۔ البتہ بھیڑیں بڑھ کر پانی پینے لگیں۔

شکر خان حالات کی سنگینی بھانپ گیا۔ اب وہ سراسیمہ ہونے لگا۔ ہاتھ میں دبی لاٹھی پر اس کی گرفت مضبوط ہوگئی۔ جسم پسینے سے شرابور ہونے لگا۔

وہ پلٹا اور کھجوروں کے جھنڈ میں پہنچ کر اطمینان کا سانس لیا۔ رائفل قریب ہی پڑی تھی۔ آج تو بھورے اونٹ نے اسے بڑا تھکا دیا تھا۔ وہ چادر پر پائوں پسارے لیٹ گیا۔ ہوا نے جلد ہی اس کا پسینہ خشک کردیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اونٹ کینہ پرور جانور ہے تسکین خان کی ہدایت کے باوجود میں نے اسے لاٹھی سے بہت پیٹ ڈالا۔ اب وہ غصیلی نظروں سے مجھے گھورتا ہے ممکن ہے غفلت میں پاکر کسی بھی وقت مجھے نقصان پہنچادے۔ یہ سوچ کر اس نے اپنی رائفل اور لاٹھی قریب ہی سرکالیں۔

اسی ادھیڑ بن اور تھکن کے باعث اس کی پھر آنکھ لگ گئی۔ جلد ہی وہ خراٹے لینے لگا۔ خراٹوں کی آواز سن کر اونٹ اس کی طرف متوجہ ہوا۔ وہ تو اسی موقع کی تاک میں تھا۔ دبے پائوں چلتا جھنڈ کے قریب آپہنچا اس نے لمبی گردن بڑھا کر بے خبر سوئے شکر خان کا بایاں کاندھا دبوچا اور اسے اوپر اٹھالیا۔ شکر خان کی ٹانگیں درخت کے تنے سے جاٹکرائیں۔ آنکھیں کھلنے پر اس نے خود کو موذی شکنجے میں دیکھا تو بہت سٹپٹایا مگر اونٹ نے اس کی ایک نہ چلنے دی۔ اب شکر خان کی چیخیں صحرا میں گونجنے لگیں اونٹ نے اسے جھنڈ سے باہر کھینچنا چاہا مگر گھنے درختوں اور جھاڑیوں کی وجہ سے ناکام رہا۔ پھر شکر خان کی خوفناک چیخوں سے گھبرا کر اونٹ نے اسے نیچے پٹخ دیا۔ اس واردات کے بعد وہ سرپٹ بھاگتا واپس ریوڑ کے درمیان جاکھڑا ہوا اور اپنے حریف کوٹکر ٹکر دیکھنے لگا۔ شکر خان بری طرح کراہ رہا تھا۔ رفتہ رفتہ اس کی آنکھوں تلے اندھیرا چھانے لگا۔ اس کے بائیں کندھے سے خون کا فوارہ ابل پڑا۔ ٹانگیں بھی اس قدر زخمی ہوئیں کہ اپنے پائوں پر کھڑا ہونا دشوار تھا۔

اس نے قریب پڑی چادر ایک ہاتھ کی مدد سے زخمی کندے پر لپیٹی پھر دانتوں میں سرا دبا کر کندھے کا زخم کس کر باندھ دیا۔ یوں وقتی طور پر خون بہنا بند ہوگیا۔ گائوں سے دور واقع چراگاہ میں شکر خان کے سوا کوئی انسان نہ تھا جو اس کی مدد کو آتا مگر وہ مضبوط اعصاب کا مالک اور حوصلہ مند انسان تھا۔ شکر خان نہ جانے کتنی دیر وہیں بے سدھ پڑا رہا۔ آخر جب پیالے میں بچا کچھا پانی پیا تو کچھ سوچنے کے قابل ہوا۔ جب اوسان بحال ہوئے تو ہاتھ بڑھا کر رائفل اٹھائی اور گولیوں والا پٹہ بھی قریب کرلیا۔ پھر گردن گھما کر دیکھا تو اونٹ ریوڑ کے درمیان کھڑا نظر آیا۔ بھیڑیں اور بکریاں سارے بکھیڑے سے بے خبر چرنے چگنے میں مشغول تھیں۔ بھورے نے رکھوالے کو جو گھورتے دیکھا تو قدرے خوفزدہ ہو کر ریوڑ کے درمیان بیٹھ گیا۔ شاید اسے بھی اس کی طرف سے انتقام کا خوف لاحق تھا۔ شکر خان کے میگزین میں صرف تین گولیاں موجود تھی اور اس کا دایاں ہاتھ ہی کارآمد تھا۔ شدید زخمی ہونے کے باعث وہ مزید گولیاں بھرنے سے قاصر تھا۔ حتیٰ کہ ٹانگوں کا درد اتنا شدید تھا کہ اسے ہلنے نہ دیتا مگر غصہ اور انتقام لینے کا جذبہ ہر چیز پر غالب آگیا۔

اس نے رائفل سنبھالی اور پیٹ کے بل رینگتا ریوڑ کے قریب جاپہنچا۔ سورج آہستہ آہستہ مغرب کی طرف سرک رہا تھا۔ دھوپ کی شدت میں قدرے کمی آچکی تھی۔ شکار اس کے سامنے تھا۔ بھورا اسے سے اس قدر قریب دیکھ کر کھڑا ہوگیا اور اسے تیز، چیتی نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ شکر خان نے ایک ہاتھ سے رائفل کندھے سے لگائی، اونٹ کی اگلی ٹانگ کا نشانہ لیا اور ٹخنے کے جوڑ پر فائر کردیا۔ زور دار دھماکے کے باعث جانوروں میں بھگدڑ مچ گئی، صحرائی پرندے خوف و دہشت سے فضا میں چکر لگانے لگے اور فضا میں دھول اڑنے لگی۔

گولی کھاکر اونٹ بدکا اور دوسری سمت مڑ گیا۔ اب شکر خان کے سامنے اس کی پچھلی ٹانگیں آگئیں۔ اس نے پھرتی سے بقیہ دونوں گولیاں بھی اونٹ کی پچھلی ٹانگوں کے جوڑوں میں پیوسٹ کردیں۔ بھورا زمین پر بیٹھ کر زور زور سے ڈکرانے لگا۔ غصے کی آگ میں جلتے شکر خان نے اونٹ کو للکار کر کہا ’’جس طرح میں حرکت نہیں کرسکتا، اس طرح تو بھی نہ چل سکے گا۔ میں تجھے جان سے نہیں ماروں گا، تجھے زندہ رہنا ہوگا۔ گائوں کے لوگ آکر تجھے ذبح کریں گے اور مزے سے تیرا گوشت کھائیں گے۔

اونٹ درد سے ڈکرا رہا تھا۔ کبھی نتھنے پھلا کر زور زور سے ہانپنے لگتا۔ اس کی ٹانگوں سے خون بہ رہا تھا۔ چونکہ یہ صحرا آبادی سے خاصا دور تھا لہٰذا گولیوں کی آوازیں شاید ہی وہاں تک پہنچی ہوں۔ بارود کی بو فضا میں پھیل گئی تھی۔

اب پھر شکر خان کی ہمت جواب دے گئی۔ وہ میدان میں بے حس و حرکت ڈھیر ہوگیا۔ اوپر آسمان کی وسعتوں میں گدھ منڈلارہے تھے۔ اسے محسوس ہوا کہ دونوں میں سے کسی ایک کی موت قریب ہے۔ چند لمحوں بعد شکر خان نے گردن گھما کر اونٹ کی طرف دیکھا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی وہ موذی اسی کی سمت گھسٹتا چلا آرہا تھا۔ اب تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ رائفل بھی خالی ہوچکی تھی۔ پھر بھی وہ یک بارگی رائفل کی طرف جھپٹا، لیکن ہاتھ میں پکڑنے کے باوجود اس میں گولیاں بھرنے سے قاصر رہا۔ شکر خان کا بایاں بازو مفلوچ ہوچکا تھا۔

اس نئی صورت حال میں وہاں رکنا ازحد خطرناک تھا۔ دفعتاً اسے سیاہ چٹان کا خیال آیا جس پر چڑھ کر وہ جانوروں پر نظر رکھتا تھا۔ شکر خان ریت پر رینگنے لگا۔ وہ جلد از جلد چٹان تک پہنچنا چاہتا تھا تاکہ اونٹ کی دسترس سے محفوظ رہے۔ ادھر زخموں سے چور اونٹ بھی اس کی طرف برابر بڑھتا رہا۔ ٹانگوں سے معذور دونوں دشمن انتقام کی آگ میں جل رہے تھے۔ شکر خان سیاہ چٹان کے ڈھلوانی حصے تک پہنچا اور پھر رینگتا ہوا چڑھنے لگا مگر رائفل میں گولی کا ہونا بہت ضروری تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اونٹ لمبی گردن کا فائدہ اٹھا کر اسے چٹان سے نیچے کھینچ سکتا ہے۔ ابھی اس کی ایک اگلی ٹانگ سلامت تھی اور اونٹ اسی کے بل بوتے پر تعاقب میں گھسٹ رہا تھا۔

سنگلاخ چٹان پر ابھی آدھا راستہ ہی طے ہوا تھا کہ بھورا تیزی سے رینگتا ہوا قریب آگیا۔ شکر خان نے بیلٹ سے نکال کر ایک گولی منہ میں پکڑی، ایک ہاتھ سے پتھر پر ٹیک لگائی اور رائفل لوڈ کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس نے رائفل کا بٹ سیاہ پتھر پر ٹکا کر ایک ہاتھ سے چیمبر پر لگی پلیٹ پیچھے کھینچی اور دانتوں میں پکڑی گولی کامیابی سے اندر ڈال دی۔ یہ کام بڑی عجلت سے کیا گیا مگر اس کوشش میں زخمی کندے سے خون ابل کر سیاہ سنگلاخ چٹان کو داغدار کرنے لگا۔ اس پر شدید نقاہت طاری ہورہی تھی ادھر زرد موت تعاقب میں متواتر رینگتی چلی آرہی تھی۔

رائفل میں گولی پہنچی تو گویا اسے نئی زندگی مل گئی۔ وہ اونٹ پر فیصلہ کن وار کرنے کے لیے پلٹا ہی تھا کہ بھورے کے مضبوط جبڑے کی گرفت میں آگیا۔ بھورے نے لمبی گردن کا فائدہ اٹھا کر اسے ٹانگ سے پکڑا۔ نیچے کھینچا اور بری طرح بھنبھوڑنے لگا۔ اونٹ اپنا اگلا پائوں اس کی چھاتی پر رکھ کر اسے بری طرح مسل بھی رہا تھا۔ شکر خان کی فلک شگاف چیخیں فضا میں بلند ہونے لگیں۔ رائفل کا پٹہ ابھی تک اس کے بازو سے لپٹا ہوا تھا۔ رائفل بھی اس کے ہاتھ میں جھول رہی تھی۔ جیسے ہی اونٹ نے اسے بھنبھوڑنے کی خاطر دوبارہ گردن نیچے کرنا چاہی تو باہمت بلوچی نے شدید درد کے باوجود خود پر قابو پاتے ہوئے آخری وار کیا۔ شکر خان نے بچی کھچی قوت کے ساتھ ایک ثانیے میں اکلوتے ہاتھ کی مدد سے رائفل اس کی پیلی کھوپڑی پر رکھی اور ٹریگر دبادیا۔

اونٹ کو دوبارہ سر اٹھانے کا موقع نہ مل سکا۔ ایک زور دار دھماکے کے بعد اس کی کھوپڑی پاش پاش ہوگئی۔ شکر خان پہلے ہی بھورے کے تلے دبا کراہ رہا تھا اب اونٹ کا پورا بھاری بھرکم مردہ جسم اس پر آن گرا۔ مردہ اونٹ کا گرم گرم خون شکر خان کا جسم تر کرتے ہوئے ریت میں جذب ہونے لگا۔ دونوں حریف خون میں لت پت پڑے دشمنی اور انتقام کی خوفناک داستان سنارہے تھے۔ اتفاق سے کسی قبیلے کے چند افراد وہاں سے گزر رہا تھے۔ دھماکے کی آواز سن کر وہ اس کی طرف لپک آئے۔ انہوں نے زخمی شکر خان کو اونٹ کے نیچے سے نکالا، خون بند کرنے کے لیے فوراً کپڑے کی دھجیاں جسم پر باندھیں اور اسے اٹھا کر گائوں پہنچایا۔ وہاں باہمت شکر خان کو ہوش آگیا۔ اس نے بستر پر لیٹے لیٹے گائوں والوں کو سارا ماجرا کہہ سنایا لیکن زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے دوسرے ہی روز اس کا انتقال ہوگیا۔ چونکہ بلوچستان کے دور دراز علاقے اسپتال سے محروم ہیں لہٰذا جلد طبی امداد نہ ملنے کی باعث وہ بہادر بلوچی نوجوان جان کی بازی ہار گیا۔

حصہ