قیصروکسریٰ آخری قسط(132)

291

’’اس فوج کا سپہ سالار کون ہے؟‘‘۔

’’ان کا نام اسامہ ہے اور وہ رسول اللہ کے غلام زید بن حارث کے بیٹے ہیں‘‘۔

’’تم یہ کہتے ہو کہ ایک غلام کا بیٹا، رومی سلطنت کے خلاف عربوں کی قیادت کررہا ہے‘‘۔

’’نہیں بلکہ رسول اللہ کے ایک جاں نثار کو اسلام کے غازیوں کی امارت سونپی گئی ہے اور اس کو حضورؐ نے ہی اس خدمت کے لیے منتخب کیا تھا‘‘۔

’’کیا وہ بہت زیادہ تجربہ کار ہے؟‘‘۔

’’اُس کی عمر بیس سال سے بھی کم ہے‘‘۔

’’اگر عربوں نے اسے اپنا سپہ سالار تسلیم کرلیا ہے تو یہ یقیناً ایک معجزہ ہے‘‘۔

’’نہیں معجزہ یہ ہے کہ عرب مسلمان بن گئے ہیں‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’میں اسلام کے متعلق بہت کچھ جاننا چاہتا ہوں، لیکن پہلے مجھے اس سوال کا جواب دو کہ اوس اور خزرج واقعی ایک دوسرے کے دوست بن چکے ہیں؟‘‘۔

’’ہاں! آج ہمیں یقین نہیں آتا کہ ہم کبھی ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ تمہارے روپوش ہونے سے چند دن بعد ہمارا آخری معرکہ ہوا تھا اور ہماری رگوں میں جتنا فالتو خون تھا وہ یثرب کی خاک میں جذب ہوگیا تھا۔ اس کے بعد تمہارے جیسے چند آدمی ہدایت کی تلاش میں مکہ پہنچ گئے اور ہمیں اپنے مستقبل کے افق پر نئی روشنی دکھائی دینے لگی۔ پھر جب پیغمبرؐ اسلام کے لیے مکہ کی زمین تنگ ہوگئی تھی تو اللہ نے اہل یثرب کو ان کی میزبانی کا شرف عطا کیا اور یہاں خدا کی رحمتوں کی بارش ہونے لگی۔ اب ہم یثرب کو مدینہ النبی کہتے ہیں۔ اب اس مقدس خاک میں صرف نیکیاں جنم لیتی ہیں۔ عاصم! جب تم یہاں سے نکلے تھے تو یہ کون کہہ سکتا تھا کہ اوس اور خزرج کسی دن ایک ہوجائیں گے۔ آپ کے جانے کے تین دن بعد عباد نے رات کے وقت میری اور سالم کی ملاقات کرائی تھی اور ہم سے یہ عہد لیا تھا کہ یثرب کے حالات خواہ کچھ ہوجائیں ہم ایک دوسرے پر تلوار نہیں اٹھائیں گے۔ لیکن ہمیں اگلے دن ہی اس بات کا احساس ہوگیا کہ اوس اور خزرج کی جنگ ناگزیر ہے اور ہم یہاں رہتے ہوئے اپنے عہد پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ چناں چہ ایک رات ہم یہاں سے مدائن کی طرف بھاگ نکلے۔ وہاں تین سال گزارنے کے بعد ہم نے تاجروں کے ایک قافلے کے ساتھ یروشلم اور دمشق کی سیاحت کی۔ ہمارا خیال تھا کہ شاید تم کہیں مل جائو۔ اس کے بعد ہم واپس آئے تو یہاں روئے زمین کی ساری نعمتیں ہمارا انتظار کررہی تھیں‘‘۔

عاصم نے کرب انگیز لہجے میں کہا۔ ’’اور میں اتنا بدنصیب تھا کہ انہیں دیکھ بھی نہ سکا‘‘۔

’’نہیں، عاصم! اگر تمہیں حق کی تلاش ہے تو تم بدنصیب نہیں ہو۔ آقا نے انسانیت کو نجات کا جو راستہ دکھایا ہے وہ کہکشاں سے زیادہ تابناک ہے۔ اب عصر کی نماز کا وقت جارہا ہے، میں ابھی فارغ ہو کر تمہیں یہ بتائوں گا کہ عرب میں کتنا عظیم انقلاب آچکا ہے‘‘۔

تھوڑی دیر بعد عاصم اور فسطینہ دم بخود ہو کر نعمان کی تقریر سن رہے تھے۔ وہ رسول اللہ کے جاں نثاروں پر اہل مکہ کے مظالم بیان کررہا تھا۔ وہ بدر، احد اور خندق کے معرکوں کے نقشے کھینچ رہا تھا۔ رسول اللہؐ کے معجزات بیان کررہا تھا۔ اور اُن بشارتوں اور پیش گوئیوں کا ذکر کررہا تھا جو پوری ہوچکی تھیں۔ وہ اُس قافلے کی سرگزشت سنا رہا تھا جسے اہل مکہ کے جبر و تشدد نے مدینے کی طرف ہجرت پر مجبور کردیا تھا۔ وہ مہاجرین مکہ کے صبر واستقلال اور انصارِ مدینہ کے ایثار و خلوص کی داستانیں بیان کررہا تھا۔ وہ شمع رسالت کے اُن پروانوں کی ارواح کو تشکر کے آنسو پیش کررہا تھا، جنہوں نے اپنے خون سے شجر اسلام کی آبیاری کی تھی، اور وہ انسانیت کے اُس عظیم ترین محسن کو درود اور سلام بھیج رہا تھا جس نے عرب کے ظلمت کدے میں ہدایت کے چراغ روشن کیے تھے۔ عاصم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور جب نعمان نے اپنی تقریر ختم کی تو وہ یہ محسوس کررہا تھا کہ اُس کے دل سے ماضی کا سارا گردوغبار دُھل چکا ہے۔

اُس نے پوچھا۔ ’’نعمان کیا یہ درست ہے کہ جب کسریٰ کی افواج شام پر یلغار کررہی تھیں تو انہوں نے رومیوں کی فتح کی بشارت دی تھی؟‘‘۔

’’ہاں! یہ بشارت قرآن پاک میں موجود ہے۔ مجھے وہ آیات یاد ہیں، سنو!‘‘ نعمان نے یہ کہہ کر سورئہ روم سنادی۔

عاصم نے کہا۔ ’’تمہیں معلوم ہے کہ اگر اُس زمانے میں خدا کا کوئی بندہ قسطنطنیہ پہنچ کر بھی اس قسم کی پیش گوئی کرتا تو لوگ اُس کا مذاق اُڑاتے؟‘‘۔

نعمان نے جواب دیا۔ اُس زمانے میں اہل مکہ بھی اِس بشارت پر یقین کرنے والوں کا مذاق اُڑاتے تھے۔ عاصم میں ایک عام آدمی ہوں۔ اور میں یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ میں رسول اللہؐ کی زندگی کے کسی پہلو پر بھی پوری روشنی ڈال سکتا ہوں۔ لیکن مدینے میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کی زندگی کا ایک ایک لمحہ سرور عالمؐ کی محبت اور اطاعت کے لیے وقف تھا۔ یہ وہ آئینے ہیں جن میں تم اُن کے حسن و جمال کا عکس دیکھ سکو گے۔

’’لیکن جب تم اُن کے ساتھ باتیں کرو گے تو وہ بھی یہی کہیں گے کہ اُن کی نگاہیں، نور کے ایک سمندر کی چند لہروں سے آگے نہیں جاسکیں‘‘۔

’’اور ان لوگوں کو اِس بات کا یقین ہے کہ وہ روم کی عظیم سلطنت کے ساتھ ٹکر لے سکتے ہیں؟‘‘۔

’’ہاں! انہیں یقین ہے کہ کسی دن قیصر اور کسریٰ کے تاج اُن کے پائوں کے نیچے ہوں گے۔ لیکن اگر یہ یقین نہ ہو تو بھی انہیں جہاد کا راستہ دکھانے کے لیے رسولؐ اللہ کا حکم کافی ہے۔ مسلمانوں کے لیے زندگی کی سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ وہ خدا کی راہ میں شہید ہوجائے‘‘۔

’’تمہارا مطلب ہے کہ مسلمان فتح کی امید کے بغیر بھی لڑ سکتے ہیں‘‘۔

’’ہاں! اسلام کے غازیوں کو شہادت کا شوق، فتح اور شکست سے بے نیاز کردیتا ہے‘‘۔

نعمان نے کہا۔ ’’لیجیے سالم آگیا‘‘۔

عاصم نے مڑ کر دیکھا اور اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ سالم نے السلام علیکم کہا۔ اور پریشان سا ہو کر عاصم کی طرف دیکھنے لگا۔

سعاد نے کہا۔ ’’اخی! آپ انہیں نہیں پہچانتے؟‘‘۔

سالم کے تذبذب پر عاصم نے کہا۔ ’’سالم میں عاصم ہوں‘‘۔

سالم چند ثانیے سکتے کے عالم میں کھڑا رہا اور پھر بے اختیار عاصم سے لپٹ گیا۔

کچھ دیر سالم سے گفتگو کے بعد عاصم نے نعمان کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’اب شام ہونے والی ہے اور میں یہ چاہتا ہوں کہ ہم تھوڑی دیر شہر میں گھوم آئیں‘‘۔

نعمان نے کہا۔ چلیے لیکن آج آپ کو مدینے کی گلیاں خوشیوں سے خالی نظر آئیں گی۔ مسلمان ابھی رسولؐ اللہ کا غم نہیں بھولے۔

عاصم نے ابھی تک ایک اہم فریضہ ادا نہیں کیا اور وہ یہ ہے کہ میں تمہیں اسلام کی دعوت دوں، مدینہ میں جن لوگوں کو آپ سے محبت ہے، اُن کے لیے اس سے بڑی خوشی اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ تم اسلام قبول کرلو، ابھی جب میں رسولؐ اللہ کی زندگی کے واقعات بیان کررہا تھا تو تمہارے آنسو اِس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ اسلام کی روشنی تمہارے دل سے دور نہیں رہ سکتی۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ تم ایک مسلمان کی حیثیت سے مدینے کی گلیوں کا طواف کرو‘‘۔

عاصم نے جواب دیا۔ ’’نعمان میں تمہاری دعوت قبول کرتا ہوں۔ اگر خلیفہ مجھے مسلمان بنا سکتے ہیں تو مجھے ابھی اُن کے پاس لے چلو‘‘۔

نعمان نے جواب دیا۔ ’’اسلام قبول کرنے کے لیے آپ کو خلیفہ کے پاس جانے یا کوئی رسومات ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ صرف زبان سے چند کلمات کافی ہیں‘‘۔

فسطینہ نے سریانی میں اپنے شوہر سے کچھ کہا۔ اور وہ نعمان سے مخاطب ہو کر بولا ’’فسطینہ کو شکایت ہے کہ آپ نے اُسے قبول اسلام کی دعوت نہیں دی؟‘‘۔

نعمان نے جواب دیا۔ ’’میں خوش قسمت ہوں کہ یہ سعادت میرے مقدر میں تھی، میں آپ دونوں کو کلمہ توحید پڑھانے کے لیے تیار ہوں‘‘۔

غروب آفتاب کے کچھ دیر بعد عاصم، نعمان اور سالم کے ساتھ گھر سے باہر نکلا تو اُسے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اُس کے دل سے ایک بوجھ اُتر چکا ہے، اور اُس کی روح ماضی کی زنجیروں سے آزاد ہوچکی ہے۔ نعمان اور سالم نے درود پڑھنا شروع یا اور وہ اُن کے ساتھ شریک ہوگیا۔ پھر اُس کی آواز بلند ہوتی گئی اور پھر سسکیوں میں دب کر رہ گئی، اور اُس نے کہا۔ ’’نعمان! مجھے اُن کی قبر پر لے چلو‘‘۔

’’ہم وہیں جارہے ہیں عاصم!‘‘ اُس نے جواب دیا۔

راستے میں ایک نوجوان ملا اور اُس نے نعمان سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’آپ نے خلیفتہ المسلمین کا اعلان سن لیا‘‘۔

’’نہیں‘‘۔

’’انہوں نے حکم دیا ہے کہ شام تک تمام مجاہدین جرف (مدینہ سے ایک کوس دُور وہ مقام جہاں شام کی طرف کوچ کرنے والی فوج نے پڑائو ڈالا تھا) میں جمع ہوجائیں۔ اور پرسوں صبح وہاں سے کوچ کردیں‘‘۔

نعمان اور سالم کچھ دیر اِس نوجوان کے ساتھ باتیں کرنے کے بعد وہاں سے چل پڑے۔ جب وہ مسجد نبوی کے صحن میں داخل ہوئے تو وہاں لوگوں کا ہجوم تھا اور وہ باری باری اُس حجرے کے اندر داخل ہورہے تھے جہاں رسولؐ اللہ دفن تھے۔ کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد عاصم اور اُس کے ساتھیوں کی باری آئی اور وہ اندر داخل ہوئے، یہ حجرہ چراغوں سے روشن تھا اور لوگ ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگ رہے تھے۔ نعمان اور سالم کی تقلید میں عاصم نے بھی ہاتھ اُٹھائے، لیکن کچھ دیر دُعا کے لیے کوئی موزوں الفاظ اُس کے ہونٹوں پر نہ آسکے۔ بالآخر اُس نے کہا۔ ’’میرے آقا! تیری قبر پر خدا کی رحمتوں کی بارش ہو، میرے آقا میں بہت دیر میں آیا۔ کاش! میں تجھے ایک بار دیکھ سکتا۔ لیکن اپنی تمام کوتاہیوں کے باوجود، میں تیرے اللہ کی رحمت کا طلب گار ہوں‘‘۔ پھر اُس کی آواز بیٹھ گئی۔ اور اُس کی آنکھوں سے آنسو اُمڈ آئے۔ اور یہ آنسو ایک فرد کی بجائے اُن لاتعداد انسانوں کے جذبہ تشکر کی ترجمانی کررہے تھے جنہیں رحمتہ اللعالمین نے زندگی کی حقیقی مسرتوں سے آشنا کیا تھا۔

تیسرے دن عاصم مدینہ سے ایک کوس دور جرف کے مقام پر اُس لشکر کی روانگی کا روح پرور نظارہ دیکھ رہا تھا، جسے توحید کا پرچم عرب کی سرحدوں سے آگے لے جانے کی سعادت عطا ہوئی تھی۔ عبداللہ، اپنے باپ نعمان اور اپنے ماموں سالم کو الوداع کہنے کے لیے اُس کے ساتھ آیا تھا اور وہ عاصم کے گھوڑے کی باگ تھامے ایک طرف کھڑا تھا۔

اِس لشکر میں قبائل عرب کے وہ رئوسا موجود تھے جو اسلام قبول کرنے سے قبل ادنیٰ اور اعلیٰ کا امتیاز قائم رکھنا اپنی زندگی کا اولین مقصد سمجھتے تھے اور جو صرف اپنے قبیلوں کی برتری کا ثبوت دینے کے لیے ہمیشہ خون کی ندیاں بہانے کے لیے تیار رہتے تھے۔ اس لشکر میں وہ جلیل القدر صحابی موجود تھے جنہیں اپنی بزرگی اور پاکیزگی کے علاوہ خاندانی رشتوں کی بدولت رسولؐ اللہ کی قربت حاصل تھا۔ اور یہاں اُن اولوالعزم بہادر اور تجربہ کار سپاہیوں کی بھی کمی نہ تھی جو ہر آزمائش اور ہر امتحان میں پورے اُتر چکے تھے۔ لیکن اِس لشکر کی قیادت ایک ایسے نوجوان کو سونپی گئی تھی جس کی سب سے بڑی متاع رسولؐ اللہ کی محبت تھی اور جس کے باپ کو محمدؐ کی غلامی میں انسانیت کی عظمتیں نصیب ہوئی تھیں۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ گھورے پر سوار تھے اور حضرت ابوبکر نیچے کھڑے انہیں ہدایات دے رہے تھے۔ کسی کو اعتراض کی مجال نہ تھی، کسی کو یہ کہنے کا یارانہ تھا کہ انتہائی معزز صحابیوں، آزمودہ کار سالاروں اور انتہائی بااثر قبائلی سرداروں کی موجودگی میں اتنی اہم مہم کی قیادت اسامہ کو کیوں سونپی گئی ہے۔ اسلام آقا اور غلام کا امتیاز مٹا چکا تھا۔ اللہ کے دین کی روشنی زمانہ جاہلیت کی تمام عصبیتوں کو شکست دے چکی تھی۔ اس سے قبل جن بزرگوں نے گردو پیش کے حالات سے پریشان ہو کر اسامہؓ کی بجائے کسی زیادہ معمر اور تجربہ کار آدمی کو یہ مہم سونپنے کی تجویز پیش کی تھی انہیں مطمئن کرنے کے لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ کا یہ جواب کافی تھا کہ اسامہؓ کو رسولؐ اللہ نے منتخب کیا تھا اور بڑے سے بڑا خطرہ بھی مجھے اس فیصلہ میں تبدیلی پر آمادہ نہیں کرسکتا۔

پھر جب اسلام کا یہ لشکر روانہ ہوا تو اسامہ بن زید گھوڑے پر سوار تھے اور ابوبکرصدیقؓ ان کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے پیدل چل رہے تھے۔

حضرت اسامہؓ خلیفہ اول کے مقام سے بے خبر نہ تھے۔ انہوں نے ملجتی ہو کر کہا ’’اے خلیفہ رسولؐ اللہ، مجھے شرمسار نہ کیجیے، آپ گھوڑے پر سوار ہوجائیے، ورنہ میں بھی اُتر پڑتا ہوں‘‘۔

اور انہوں نے فرمایا۔ ’’نہیں اسامہؓ، مجھے تھوڑی دور اللہ کی راہ میں اپنے پائوں غبار آلود کرنے سے منع نہ کرو‘‘۔

جب لشکر تھوڑے دور چلا گیا تو عاصم نے عبداللہ کے ہاتھ سے اپنے گھوڑے کی باگ پکڑتے ہوئے کہا۔ عبداللہ میں تمہارے باپ اور ماموں کے ساتھ جارہا ہوں‘‘۔

عبداللہ نے کہا۔ ’’لیکن آپ تو صرف انہیں الوداع کہنے آئے تھے‘‘۔

عاصم نے گھوڑے پر سوار ہو کر جواب دیا۔ ’’سعاد سے کہہ دینا کہ یونس کی امی میری واپسی تک تمہارے گھر رہے گی‘‘۔

آن کی آن میں وہ اُس قافلے کے ساتھ شامل ہوچکا تھا، جس کی راہ کے غبار کو کہکشاں کی دلکشی اور تابندی عطا ہونے والی تھی۔ راہِ حق کے یہ مسافر اُن مجاہدوں کے پیش رو تھے، جن کے گھوڑوں کی ٹاپ قیصر اور کسریٰ کے ایوانوں تک سنائی دینے والی تھی۔ حال اُن کے حوصلوں اور ولولوں سے لبریز تھا۔ اور مستقبل کی فتوحات یرموک اجنادین اور قادسیہ کے میدانوں میں اُن کا انتظار کررہی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور چند معزز صحابی جنہیں انہوں نے مدینہ کی حفاظت کے لیے روک لیا تھا، کچھ دور اسامہ بن زیدؓ کا ساتھ دینے کے بعد ان بچوں اور بوڑھوں کے درمیان کھڑے تھے جو اپنے عزیزوں کو رخصت کرنے آئے تھے۔ یہ لوگ اُن خطرات سے بے خبر نہ تھے جو رسول اکرمؐ کے وصال کے بعد مدینہ کو اسلام سے انحراف کا راستہ اختیار کرنے والے قبائل کی طرف سے پیش آنے والے تھے۔ لیکن اُن کے چہروں پر خوف و ہراس کا شائبہ تک نہ تھا۔ وہ اس بات پر مطمئن اور مسرور تھے کہ اُن کے آقا کے آخری حکم کی تعمیل ہورہی ہے۔ اُن کے ہونٹوں پر غازیانِ اسلام کی فتح اور نصرت کی دعائیں تھیں اور صدیق اکبرؓ سے زیادہ یہ کون جانتا تھا کہ یہ دعائیں قبول ہونے والی ہیں۔ وہ پورے اطمینان اور یقین کے ساتھ اُس قافلے کی آخری جھلک دیکھ رہے تھے۔ جس کی راہ کے غبار میں قیصر و کسریٰ کی عظمتیں گم ہونے والی تھیں۔ ملتِ اسلام کے کمسن بیٹوں کو جو ابھی تک تلواریں اُٹھانے کے قابل نہیں ہوئے تھے۔ اُن کی نگاہیں بشارت دے رہی تھیں کہ یہ غازیانِ اسلام اُس عظیم لشکر کا دستہ ہر اوّل ہیں جسے قدرت نے عجم میں جہالت اور ظلم کے جھنڈے سرنگوں کرنے کے لیے منتخب کیا ہے۔ جب وہ شام کی مہم سے واپس آئیں گے تو تم مسرت کے نعروں کے ساتھ اُن کا خیر مقدم کرو گے اور پھر جب تمہاری باری آئے گی تو تم اللہ کے دین کا پرچم اُن سرحدوں سے آگے لے جائو گے جہاں سائرس اور سکندر کے قدم رُک گئے تھے۔ لیکن وہ ظاہربین جو نتائج کو صرف اسباب کی روشنی میں دیکھ سکتے تھے جنہوں نے کسریٰ پرویز کی فتوحات کے دور میں رومیوں کے دوبارہ غالب آنے کے متعلق قرآن حکیم کی آیات کا مذاق اڑایا تھا، جنہوں نے پیغمبر اسلام کی وفات کی خبر سنتے ہی حال اور مستقبل کی روشنی سے منہ پھیر کر ماضی کی بھیانک تاریکیوں سے رشتہ جوڑ لیا تھا، آج بھی یہ سمجھنے کے لیے تیار نہ تھے کہ انہوں نے آس پاس کے ٹیلوں کی اوٹ سے جس لشکر کی روانگی کا منظر دیکھا ہے، وہ روم کی عظیم قوت کے ساتھ ٹکر لے سکتا ہے۔ انہیں اگر کوئی اطمینان تھا تو وہ یہ تھا کہ مسلمانوں نے شام پر چڑھائی کے شوق میں مدینہ کو اُن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

لیکن چند دن بعد مدینہ کو تاخت و تاراج کرنے کی مہم میں ناکامی اور شام کی مہم سے اسامہؓ کی کامیاب مراجعت کے باعث اُن کے حوصلے ٹوٹ چکے تھے۔ اور وہ اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ فرزندان آدم کی تاریخ میں معجزات کا دور ابھی ختم نہیں ہوا۔   (ختم شد)

حصہ