اسلام جس اعلیٰ تہذیب و تمدن کا داعی ہے وہ اسی وقت وجود میں آسکتا ہے، جب ہم ایک پاکیزہ معاشرہ تعمیر کرنے میں کامیاب ہوں اور پاکیزہ معاشرے کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ آپ خاندانی نظام کو زیادہ سے زیادہ مضبوط اور کامیاب بنالیں خاندانی زندگی کا آغاز شوہر اور بیوی کے پاکیزہ ازدواجی تعلق سے ہوتا ہے، اور اس تعلق کی خوش گواری اور استواری اسی وقت ممکن ہے جب شوہر اور بیوی دونوں ہی ازدواجی زندگی کے آدب و فرائض سے بخوبی واقف بھی ہوں اور اب آداب و فرائض کو بجالانے کے لیے پوری دل سوزی، خلوص اور یکسوئی کے ساتھ سرگرم کار بھی رہیں، ذیل میں ہم پہلے ان آداب و فرائض کو بیان کرتے ہیں جن کا تعلق شوہر سے ہے اور پھر ان آداب و فرائض کو جن کا تعلق بیوی سے ہے:
-1 بیوی کے ساتھ اچھے سلوک کی زندگی گزاریئے۔ اس کے حقوق کشادہ دلی کے ساتھ ادا کیجیے اور ہر معاملے میں احسان اور ایثار کی روش اختیار کیجیے اللہ کا ارشاد ہے:
’’اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی گزارو‘‘۔
اور نبیؐ نے حجتہ الوداع کے موقع پر ایک بہت بڑے اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے ہدایت فرمائی۔
’’لوگو سنو! عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آئو، کیونکہ وہ تمہارے پاس قیدیوں کی طرح ہیں، تمہیں ان کے ساتھ سختی کا برتائو کرنے کا کوئی حق نہیں۔ سوائے اس صورت کے جب ان کی طرف سے کوئی کھلی ہوئی نافرمانی سامنے آئے۔ اگر وہ ایسا کر بیٹھیں تو پھر خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو، اور انہیں مارو تو ایسا نہ مارنا کہ کوئی شدید چوٹ آئے۔ اور پھر جب وہ تمہارے کہنے پر چلنے گیں تو ان کو خوامخواہ ستانے کے بہانے نہ ڈھنڈو۔ دیکھو سنو! تمہارے کچھ حقوق تمہاری بیویوں پر ہیں اور تمہاری بیویوں کے کچھ حقوق تمہارے اوپر ہیں۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں کو ان لوگوں سے نہ روندوائیں جن کو تم ناپسند کرتے اور تمہارے گھروں میں ایسے لوگوں کو ہرگز نہ گھسنے دیں جن کا آنا تمہیں ناگوار ہو اور سنو ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہیں اچھا کھلائو اور اچھا پہنائو‘‘۔ (ریاض الصالحین)
یعنی ان کے کھلانے پلانے کا ایسا انتظام کیجیے جو زوجین کی بے مثال قربت، قلبی تعلق اور جذبہ رفاقت کے شایان شان ہو۔
-2 جہاں تک ہوسکے بیوی سے خوش گمان رہیے اور اس کے ساتھ نباہ کرنے میں تحمل، بردباری اور عالیٰ ظرفی کی روش اختیار کیجیے، اگر اس میں شکل و صورت، عادات و اطوار یا سلیقہ اور ہنر کے اعتبار سے کوئی کمزوری ہو تو صبر کے ساتھ اس کو برداشت کیجیے اور اس کی خوبیوں پر نگاہ رکھتے ہوئے فیاضی، درگزر، ایثار اور مصلحت سے کام لیجیے، اللہ کا ارشاد ہے:
’’اور مصالحت خیر ہی خیر ہے‘‘۔
اور مومنین کو ہدایت کی گئی ہے:
’’پھر اگر وہ تمہیں (کسی وجہ سے) ناپسند ہوں، تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اس میں (تمہارے لیے) بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو‘‘۔(النسا: 19/4)
اسی مفہوم کو نبیؐ کے ایک حدیث میں یوں واضح فرمایا ہے:
’’کوئی مومن اپنی مومنہ بیوی سے نفرت نہ کرے، اگر بیوی کی کوئی عادت اس کو ناپسند ہے تو ہوسکتا ہے کہ دوسری خصلت اس کو پسند آجائے‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر خاتون میں کسی نہ کسی پہلو سے کوئی کمزوری ضروری ہوگی اور اگر شوہر کسی عیب کو دیکھتے ہی اس کی طرف سے نگاہیں پھیر لے اور دل برا کرلے تو پھر کسی خاندان میں گھریلو خوش گواری مل ہی نہ سکے گی۔ حکمت کی روش یہی ہے کہ آدمی درگزر سے کام لے اور اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے عورت کے ساتھ خوش دلی کے ساتھ نباہ کرنے کی کوشش کرے۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ اس عورت کے واسطے سے اس مرد کو کچھ بھلائیوں سے نوازے جن تک مرد کی کوتاہ نظر نہ پہنچ رہی ہو۔ مثلاً عورت میں دین و ایمان اور سیرت و اخلاق کی کچھ ایسی خوبیاں ہوں، جن کے باعث وہ پورے خاندان کے لیے رحمت ثابت ہو، یا اس کی ذات سے کوئی ایسی روح سعید وجود میں آئے جو ایک عالم کو فائدہ پہنچائے اور رہتی زندگی تک کے لیے باپ کے حق میں صدقہ جاریہ بنے یا عورت مرد کی اصلاح حال کا ذریعہ بنے اور اس کو جنت سے قریب کرنے میں مددگار ثابت ہو، یا پھر اس کی قسمت سے دنیا میں اللہ اس مرد کو کشادہ روزی اور خوش حالی سے نوازے۔ بہرحال عورت کے کسی ظاہری عیب کو دیکھ کر بے صبری کے ساتھ ازدواجی تعلق کو برباد نہ کیجیے بلکہ حکیمانہ طرز عمل سے دھیرے دھیرے گھر کی فضا کو زیادہ سے زیادہ خوش گوار بنانے کی کوشش کیجیے۔
-3 عفو و کرم کی روش اختیار کیجیے اور بیوی کی کوتاہیوں، نادانیوں اور سرکشیوں سے چشم پوشی کیجیے۔ عورت عقل و خرد کے اعتبار سے کمزور اور نہایت ہی جذباتی ہوتی ہے، اس لیے صبرو سکون، رحمت و شفقت اور دل سوزی کے ساتھ اس کو سدھارنے کی کوشش کیجیے اور صبر و ضبط سے کام لیتے ہوئے نباہ کیجیے۔
اللہ کا ارشاد ہے:
’’مومنو! تمہاری بعض بیویاں اور بعض اولاد تمہارے دشمن ہیں۔ سو ان سے بچے رہو، اور اگر تم عفو و کرم، درگزر اور چشم پوشی سے کام لو تو یقین رکھو کہ خدا بہت ہی زیادہ رحم کرنے والا ہے‘‘۔(التغابن: 14/64)
نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلیوں میں سب سے زیادہ اوپر کا حصہ ٹیڑھا ہے، اس کو سیدھا کروگے تو ٹوٹ جائے گی اور اس کو چھوڑے رہو تو ٹیڑھی ہی رہے گی۔ پس عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو‘‘۔ (بخاری، مسلم)
-4 بیوی کے ساتھ خوش اخلاقی کا برتائو کیجیے اور پیارو محبت سے پیش آیئے، نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’کامل ایمان والے مومن وہ ہیں جو اپنے اخلاق میں س سے اچھے ہوں اور تم میں سب سے اچھے لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں سب سے اچھے ہوں‘‘ (ترمذی)
اپنی خوش اخلاقی اور نرم مزاجی کو جانچنے کا اصل میدان گھریلو زندگی ہے گھر والوں ہی سے ہر وقت کا واسطہ رہتا ہے اور گھر کی بے تکلف زندگی میں ہی مزاج اور اخلاق کا ہر رخ سامنے آتا ہے اور یہ حقیت ہے کہ وہی مومن اپنے ایمان میں کامل ہے جو گھر والوں کے ساتھ خوش اخلاق، خندہ پیشانی اور مہربانی کا برتائو رکھے۔ گھر والوں کی دلجوئی کرے اور پیار و محبت سے پیش آئے۔
حضرت عائشہؓ فرماتے ہیں کہ میں نبیؐ کے یہاں گڑیوں سے کھلا کرتی تھی اور میری سہیلیاں بھی میرے ساتھ کھیلتیں، جب نبیؐ تشریف لاتے تو سب ادھر ادھر چھپ جاتیں۔ آپؐ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایک ایک کو میرے پاس بھیجتے تاکہ میرے ساتھ کھیلیں‘‘۔ (بخاری، مسلم)
ایک بار حج کے موقع پر حضرت صفیہؓ کا اونٹ بیٹھ گیا اور وہ سب سے پیچھے رہ گئی۔ نبیؐ نے دیکھا کہ وہ زار و قطار رو رہی ہیں۔ آپؐ رک گئے اور اپنے دست مبارک سے چادر کا پلو لے کر ان کے آنسو پونچھے۔ آپؐ آنسو پونچھتے جاتے تھے اور وہ بے اختیار روتی جاتی تھیں۔
-5 پوری فراخ دلی کے ساتھ رفیقہ حیات کی ضرورت فراہم کیجیے اور خرچ میں کبھی تنگی نہ کیجیے۔ اپنی محنت کی کمائی گھر والوں پر صرف کرکے سکون و مسرت کیجیے۔ کھانا کپڑا بیوی کا حق ہے اور اس حق کو خوش دلی اور کشادگی کے ساتھ ادا کرنے کے لیے دوڑ دھوپ کرنا شوہر کا انتہائی خوش گوار فریضہ ہے، اس فریضے کو کھلے دل سے انجام دینے سے نہ صرف دنیا میں خوش گوار ازدواجی زندگی کی نعمت ملتی ہے، بلکہ مومن آخرت میں بھی اجر و ثواب کا مستحق بنتا ہے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’ایک دینار تو وہ ہے جو تم نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا، ایک دینار وہ ہے جو تم نے غلام کو آزاد کرانے میں صرف کیا۔ ایک دینار وہ ہے جو تم نے کسی فقیر کو دیا اور ایک دینار وہ ہے جو تم نے اپنے گھر والوں پر صرف کیا۔ ان میں سب سے زیادہ اجر و ثواب اس دینار کے خرچ کرنے کا ہے جو تم نے اپنے گھر والوں پر صرف کیا ہے‘‘۔ (مسلم)
-6 بیوی کو دینی احکام اور تہذیب سکھایئے۔دین کی تعلیم دیجیے۔ اسلامی اخلاق سے آراستہ کیجیے اور اس کی تربیت اور سدھار کے لیے ہر ممکن کوشش کیجیے تاکہ وہ ایک اچھی بیوی، اچھی ماں اور اللہ کی نیک بندی بن سکے اور اپنے منصبی فرائض کو بحسن و خوبی ادا کرسکے۔ اللہ کا ارشاد ہے:
’’ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچائو‘‘۔
نبیؐ جس طرح باہر تبلیغ و تعلیم میں مصروف رہتے تھے۔ اسی طرح گھر میں بھی اس فریضے کو ادا کرتے رہتے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن نے نبیؐ کی بیویوں کو خطاب کیا ہے۔
’’اور تمہارے گھروں میں جو اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو‘‘۔
قرآن میں نبیؐ کے واسطے سے مومنوں کو ہدایت کی گئی ہے۔
’’اور اپنے گھر والوں کو نماز کی تاکید کیجیے اور خود بھی اس کے پورے پابند رہیے‘‘۔
نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’جب کوئی مرد رات کو اپنی بیوی کو جگاتا ہے اور وہ دونوں مل کر دو رکعت نماز پڑھتے ہیں تو شوہر کا نام ذکر کرنے والوں میں اور بیوی کا نام ذکر کرنے والیوں میں لکھ لیا جاتا ہے‘‘۔(ابودائود)
خلیفہ ثانی حضرت عمر کو شب کو اللہ کے حضور کھرے عبادت کرتے رہتے پھر جب سحرکا وقت آتا تو اپنی رفیقہ حیات کو جگاتے اور کہتے اٹھو اٹھو نماز پڑھو، اور پھر یہ آیت بھی پڑھتے:
وَاۡمُرۡ اَهۡلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَاصۡطَبِرۡ عَلَيۡهَا
-7 اگر کئی بیویاں ہوں تو سب کے ساتھ برابری کا سلوک کیجیے۔ نبیؐ بیویوں کے ساتھ برتائو میں برابری کا بڑا اہتمام فرماتے۔ سفر پر جاتے تو قرعہ نکالتے اور قرعہ میں جس بیوی کا نام آتا اسی کو ساتھ لے جاتے۔
حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا:
’’اگر کسی شخص کی دو بیویاں ہوں اور اس نے ان کے ساتھ انصاف اور برابری کا سلوک نہ کیا تو قیامت کے روز وہ شخص اس حال میں آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ گرگیا ہوگا‘‘۔(ترمذی)
انصاف اور برابری سے مراد، معاملات اور برتائو میں مساوات برتنا ہے۔ رہی یہ بات کہ کسی ایک بیوی کی طرف دل کا جھکائو اور محبت کے جذبات زیادہ ہوں تو یہ انسان کے بس میں نہیں ہے اور اس پر اللہ کے یہاں کوئی گرفت نہ ہوگی۔
-8 خواتین نہایت خوش دلی کے ساتھ اپنے شوہر کی اطاعت کیجیے اور اس اطاعت میں مسرت اور سکون محسوس کیجیے، اس لیے کہ یہ اللہ کا حکم ہے اور جو بندی اللہ کے حکم کی تعمیل کرتی ہے وہ اپنے اللہ کو خوش کرتی ہے۔ قرآن میں ہے:
’’نیک بیویاں (شوہر کی) اطاعت کرنے والی ہوتی ہیں‘‘۔
نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’کوئی عورت شوہر کی اجازت کے بغیر نفل روزہ نہ رکھے‘‘ (ابودائود)
شوہر کی اطاعت اور فرماں برداری کی اہمیت واضح کرتے ہوئے نبیؐ نے عورت کو تنبیہ کی ہے:
’’دو قسم کے آدمی وہ ہیں جن کی نمازیں ان کے سروں سے اونچی نہیں اٹھتیں… اس غلام کی نماز جو اپنے آقا سے فرار ہوجائے جب تک لوٹ نہ آئے اور اس عورت کی نماز جو شوہر کی نافرمانی کرے جب تک کہ شوہر کی نافرمانی سے باز نہ آجائے‘‘ (الترغیب والترہیب)
-9 اپنی آبرو اور عصمت کی حفاظت کا اہتمام کیجیے اور ان تمام باتوں اور کاموں سے بھی دور رہیے جن سے دامن عصمت پر دھبہ لگنے کا اندیشہ بھی ہو، اللہ کی ہدایت کا تقاضا بھی یہی ہے اور ازدواجی زندگی کو خوش گوار بنائے رکھنے کے لیے بھی یہ انتہائی ضروری ہے۔ اس لیے کہ اگر شوہر کے دل میں اس طرح کا کوئی شبہ پیدا ہوجائے تو عورت کی کوئی خدمت و اطاعت اور کوئی بھلائی شوہر کو اپنی طرف مائل نہیں کرسکتی اور اس معاملہ میں معمولی سی کوتاہی سے بھی شوہر کے دل میں شیطان شبہ ڈالنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ لہٰذا انسانی کمزوری کو نگاہ میں رکھتے ہوئے انتہائی احتیاط کیجیے۔
نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’عورت جب پانچوں وقت کی نماز پڑھے، اپنی آبرو کی حفاظت کرے، اپنے شو
ہر کی فرمانبردار رہے تو وہ جنت میں جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے‘‘۔ (الترغیب والترہیب)
-10 شوہر کی اجازت اور مرضی کے بغیر باہر نہ جایئے اور نہ ایسے گھروں میں جایئے جہاں شوہر آپ کا جانا پسند نہ کرے اور نہ ایسے لوگوں کو اپنے گھر میں آنے کی اجازت دیجیے جن کا آنا شوہر کو ناگوار ہو۔
حضرت معاذ بن جبلؓ کہتے ہیں کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کے گھر میں کسی ایسے شخص کو آنے کی اجازت دے جس کا آنا شوہر کو ناگوار ہو، اور وہ گھر سے ایسی صورت میں نکلے جب کہ اس کا نکلنا شوہر کو ناگوار اور عورت شوہر کے معاملے میں کسی دوسرے کا کہا نہ مانے‘‘ (الترغیب والترہیب)
یعنی شوہر کے معاملے میں شوہر کی مرضی اور اشارہ چشم و ابروہی پر عمل کیجیے اور اس کے خلاف ہرگز دوسروں کے مشورے کو نہ اپنایئے۔
-11 ہمیشہ اپنے قول و عمل اور انداز و اطوار سے شوہر کو خوش رکھنے کی کوشش کیجیے۔ کامیاب ازدواجی زندگی کا راز بھی یہی ہے اور اللہ کی رضا اور جنت کے حصول کا راستہ بھی یہی ہے۔
نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’جس عورت نے بھی اس حالت میں انتقال کیا کہ اس کا شوہر اس سے راضی اور خوش تھا تو وہ جنت میں داخل ہوگی‘‘ (ترمذی)
نبیؐ نے یہ بھی فرمایا:
’’جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو جنسی ضرورت کے لیے بلائے اور وہ نہ آئے اور اس بنا پر شوہر رات بھر اس سے خفا رہے تو ایسی عورت پر صبح تک فرشتے لعنت کرتے رہتے ہیں‘‘ (بخاری، مسلم)
-12اپنے شوہر سے محبت کیجیے اور اس کی رفاقت کی قدر کیجیے۔ نبیؐ نے ایک موقع پر فرمایا:
’’نکاح سے بہتر کوئی چیز دو محبت کرنے والوں کے لیے نہیں پائی گئی‘‘۔
حضرت صفیہؓ کو نبیؐ سے انتہائی محبت تھی۔ چنانچہ جب آپؐ بیمار ہوئے تو انتہائی حسرت کے ساتھ بولیں:’’کاش آپؐ کے بجائے میں بیمار ہوتی‘‘۔ نبیؐ کی دوسری بیویوں نے اس اظہار محبت پر تعجب سے ان کی طرف دیکھا تو نبیؐ نے فرمایا: ’’دکھاوا نہیں ہے بلکہ سچ کہہ رہی ہیں‘‘۔
-13شوہر کا احسان مانیے اس کی شکر گزار رہیے۔ آپ کا سب سے بڑا محسن آپ کا شوہر ہی تو ہے جو ہر طرح آپ کو خوش کرنے میں لگا رہتا ہے، آپ کی ہر ضرورت کو پورا کرتا ہے اور آپ کو ہر طرح کا آرام پہنچا کر آرام محسوس کرتا ہے۔
حضرت اسماؓ کہتی ہیںکہ ایک بار نبیؐ میرے پاس سے گزرے میں اپنی پڑوسن سہیلیوں کے ساتھ تھی۔ آپؐ نے ہمیں سلام کیا اور ارشاد فرمایا: ’’تم پر جن کا احسان ہے ان کی ناشکری سے بچو۔ تم میں سے کوئی ایک اپنے ماں باپ کے یہاں کافی دنوں تک بن بیاہی بیٹھی رہتی ہے پھر اللہ اس کو شوہر عطا فرماتا ہے پھر اللہ اس کو اولاد سے نوازتا ہے (ان تمام احسانات کے باوجود) اگر کبھی کسی بات پر شوہر سے خفا ہوتی ہے تو کہہ اٹھتی ہے۔ میںنے تو کبھی تمہاری طرف سے کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں‘‘ (الادب المفرد)
ناشکر گزار اور احسان فراموش بیوی کو تنبیہ کرتے ہوئے نبیؐ نے ارشاد فرمایا: ’’خدا قیامت کے روز اس عورت کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا، جو شوہر کی ناشکر گزار ہوگی حالانکہ عورت کسی وقت بھی شوہر سے بے نیاز نہیں ہوسکتی‘‘۔(نسائی)
-14 شوہر کی خدمت کرکے خوشی محسوس کیجیے اور جہاں تک ہوسکے خود تکلیف اٹھا کر شوہر کو آرام پہنچایئے اور ہر طرح اس کی خدمت کرکے اس کا دل اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کیجیے۔ حضرت عائشہؓ اپنے ہاتھ سے نبیؐ کے کپڑے دھوتیں، سر میں تیل لگاتیں، کنگھا کرتیں، خوشبو لگاتیں اور یہی حال دوسری صحابیہؓ خواتین کا بھی تھا۔
ایک بات نبیؐ نے فرمایا:
’’کسی انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرے۔ اگر اس کی اجازت ہوتی تو بیوی کو حکم دیا جاتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، شوہر کا اپنی بیوی پر عظیم حق ہے، اتنا عظیم حق کہ اگر شوہر کا سارا جسم زخمی ہو اور بیوی شوہر کے زخمی جسم کو چاٹے تب بھی شوہر کا حق ادا نہیں ہوسکتا‘‘ (مسند احمد)
-15 شوہر کے گھر اور مال و اسباب کی حفاظت کیجیے، شادی کے بعد شوہر کے گھر ہی کو اپنا گھر سمجھیے اور شوہر کے مال کو شوہر کے گھر کی رونق بڑھانے، شوہر کی عزت بنانے اور اس کے بچوں کا مستقبل سنوارنے میں حکمت اور کفایت و سلیقے سے خرچ کیجیے، شوہر کی ترقی اور خوشحالی کو اپنی ترقی اور خوشحالی سمجھیے۔ قریش کی عورتوں کی تعریف کرتے ہوئے نبیؐ نے فرمایا:
’’قریش کی عورتیں کیا ہی خوب عورتیں ہیں۔ بچوں پر نہایت مہربان ہیں، اور شوہر کے گھر بار کی انتہائی حفاظت کرنے والی ہیں‘‘ (بخاری)
اور نبیؐ نے نیک بیوی کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’مومن کے لئے اللہ کے خوف بعد سب سے زیادہ مفید اور باعث خیر نعمت نیک بیوی ہے کہ جب وہ اس سے کسی کام کو کہے تو وہ خوش دلی سے انجام دے اور جب وہ اس پر نگاہ ڈالے تو وہ اس کو خوش کردے، اور جب وہ اس کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو وہ اس کی قسم پوری کردے اور جب وہ کہیں چلا جائے تو وہ اس کے پیچھے اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرے اور شوہر کے مال و اسباب کی نگرانی میں شوہر کی خیرخواہ اور وفادار رہے‘‘۔ (ابن ماجہ)
-16 صفائی، سلیقہ اور آرائش و زیبائش کا بھی پورا اہتمام کیجیے۔ گھر کو بھی صاف ستھرا رکھیے اور ہر چیز کو سلیقے سے سجایئے اور سلیقے سے استعمال کیجیے، صاف ستھرا گھر، قرینے سے سجے ہوئے صاف ستھرے کمرے، گھریلو کاموں میں سلیقہ اور سگھڑپن، بنائو سنگھار کی ہوئی بیوی کی پاکیزہ مسکراہٹ سے نہ صرف گھریلو زندگی، پیار و محبت اور خیر و برکت سے مالا مال ہوتی ہے، بلکہ ایک بیوی کے لیے اپنی عاقبت بنانے اور اللہ کو خوش کرنے کا بھی یہی ذریعہ ہے۔
ایک بار بیگم عثمان بن مظعونؓ سے حضرت عائشہؓ کی ملاقات ہوئی تو آپؓ نے دیکھا کہ بیگم عثمان نہایت سادہ کپڑوں میں ہیں اور کوئی بنائو سنگھار بھی نہیں کیا ہے تو حضرت عائشہؓ کو بہت تعجب ہوا اور ان سے پوچھا:
’’بی بی! کیا عثمان کہیں باہر سفر پر گئے ہوئے ہیں؟‘‘
اس تعجب سے اندازہ کیجیے کہ سہاگنوں کا اپنے شوہروں کے لیے بنائو سنگھار کیسا پسندیدہ فعل ہے۔
ایک بار ایک صحابیہ نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں وہ اپنے ہاتھوں میں سونے کے کنگن پہنے ہوئے تھیں، آپؐ نے ان کو پہننے سے منع فرمایا تو کہنے لگیں:
یا رسولؐ اللہ! اگر عورت شوہر کے لی