تیزی سے بدلتے منظر پیچھے کی طرف بھاگے جارہے تھے۔ رکشے میں تنہا بیٹھنے کی عادت نہ ہو تو بہت عجیب لگتا ہے، گھبراہٹ ہوتی ہے، اور کچھ اپنا آپ ہی اجنبی سا لگتا ہے۔ اِس وقت میری بھی کچھ ایسی ہی حالت تھی۔ مگر کیا کریں، مجبوری ہی بن جائے تو پھر سفر کرنا ہی پڑتا ہے۔ پچھلے دو دن سے سیدھے بازو میں ہلکا ہلکا درد تھا۔ کام کرتے تکلیف محسوس ہورہی تھی لیکن قابلِ برداشت تھی، اسی لیے میں نے زیادہ توجہ نہیں دی۔ مگر آج درد کچھ زیادہ ہی ہونے لگا تھا۔ میں دوسرے ہاتھ کو استعمال میں لارہی تھی، مگر میرا یہ بازو اور ہاتھ تو ایسے ہوگئے جیسے سارا کام تو صرف سیدھا ہاتھ ہی جانتا ہو۔ عجیب الجھن اور پریشانی بن گئی۔ پہلی بار احساس ہوا کہ جسم بھی جگہ جگہ سے دُکھ کر توجہ مانگتا رہتا ہے لیکن ہم گھریلو عورتیں کہاں اس کی پکار پر دھیان دھرتی ہیں! اب نہ برتن دھونے میں الٹا ہاتھ صحیح طرح چل رہا تھا اور نہ ہی روٹی بیلنے میں۔ اس لیے سوچا کہیں ایسا نہ ہو کہ بالکل ہی کام سے جاؤں، ڈاکٹر کو دکھا دینا چاہیے۔ میں نے بڑے بیٹے سلمان سے کہا کہ ڈاکٹر کے پاس لے چلو، تو وہ کہنے لگا :
’’امی! عدنان کے ساتھ چلی جائیں، میری آج ضروری میٹنگ ہے، مجھے جلدی آفس پہنچنا ہے، ویسے بھی آپ اُس سے کچھ نہیں کہتیں، ساری ذمہ داری مجھ پر ہی ڈال دی ہے۔ غیر سرکاری نوکری میں لوگ ہمت کی آخری بوند تک نچوڑ لیتے ہیں، اور پھر میں نے بھی پڑھائی کے ساتھ ساتھ گھریلو ذمہ داریاں نبھائی ہیں، مگر وہ کالج کے بعد کوئی خاص کام نہیں کرتا۔‘‘
میں اس کی بات سن کر چپ کی چپ رہ گئی۔ آج کل اس میں کچھ چڑچڑا پن سا محسوس ہورہا ہے، دفتر سے بھی تھکا تھکا آتا ہے، شاید جہاں وہ کام کرتا ہے وہاں اس سے زیادہ محنت کروائی جارہی ہے۔ وہ چلا گیا تو کچھ ہچکچاتے ہوئے عدنان سے کہا۔ وہ سلمان کے مقابلے میں ذرا اکھڑ اور کھلنڈرا سا ہے، موڈ ہوگا تو سن لے گا ورنہ ٹکا سا جواب دے دے گا۔ اس کا یہ انداز مجھے سراسر اپنی بے عزتی کے مترادف لگتا ہے، اسی لیے میں اس سے گھر کے کام کم کم ہی کہتی ہوں۔ ابھی بھی وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ اس نے بڑے بھائی کی بات سن لی تھی اور اب اسے غصہ آرہا تھا۔
’’امی! بھائی کون ہوتے ہیں میری ذات کو نشانہ بنانے والے! اگر انھیں آپ کو نہیں لے کر جانا تو نہ لے جائیں مگر ایسے باتیں بنانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ گھر کا سودا سلف تو اب زیادہ تر میں ہی لاتا ہوں۔ ہونہہ! ان کی نوکری لگ گئی تو اب اس کا ہم پر رعب جماتے ہیں۔‘‘
میں اس کی باتیں سن کر پریشان ہوگئی۔ بازو کا درد تو نجانے کہاں گیا، بیٹوں کی باتیں سن کر دل کا درد ہی جاگ اٹھا سینے میں۔
دھوپ ڈھلے میں نے چپ چاپ چادر اوڑھی، پرس اٹھایا اور گھر سے باہر نکل آئی۔ اب رکشے میں بیٹھی مسلسل سوچ رہی تھی کہ شوہر کے بغیر گھر کا نظام سنبھالنا کتنا مشکل ہے۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے مرد کو قوام بنایا ہے۔ مجھ جیسی گھریلو عورتوں کے لیے تو جوان اولاد کو کنٹرول کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ سلمان کے ابو کی زندگی میں مجھے کبھی بیٹوں کو سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، مگر ان کے جانے کے بعد جوان بچوں سے کام کروانا نہایت مشکل لگنے لگا ہے۔ سچ کہوں تو سلمان غلط نہیں تھا۔ اُس کی طبیعت میں عاجزی ہے، وہ بات بھی مان لیتا ہے۔ والد کی وفات کے بعد اُس نے خود کو بڑا سمجھتے ہوئے ساری ذمہ داریاں بحسن و خوبی سنبھال لیں، لیکن شاید اب وہ تھک رہا ہے یا پھر عدنان کا لاپروا رویہ اُسے اندر سے بغاوت پر اکساتا ہے۔ عدنان اُس سے پانچ سال چھوٹا ہے، اور چھوٹا ہونے کی وجہ سے گھر بھر کا لاڈلا بھی۔ گھر کے کاموں میں اس کی زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ میں بھی شاید سلمان کی عاجزی سے مطمئن ہوں، اس لیے عدنان پر کسی کام کے لیے زیادہ زور نہیں دیتی، یا پھر اُس کی اکھڑ طبیعت سے خوف زدہ سی رہتی ہوں۔ ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ بڑے بھائی سے الجھ پڑا تو مجھ ناتواں میں کہاں سکت ہے ان دونوں کو سنبھالنے کی۔ سلمان کے ابو زندہ ہوتے تو مجھے کبھی یہ صعوبتیں اٹھانی نہ پڑتیں، لیکن اب جوان بچوں کے ہاتھ میں اقتدار ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میں تو ان کی رعیت میں آگئی ہوں۔ یہی سوچتے سوچتے سفر تمام ہوا اور کلینک آگیا۔ میں رکشے والے کو کرایہ دے کر اندر آگئی۔ صد شکر کہ نمبر بھی جلدی کا مل گیا۔
میں نے ڈاکٹر کو چیک اَپ کرواتے ہوئے کہا ’’ڈاکٹر صاحب! آج مجھے اپنا دوسرا بازو بالکل اجنبی لگ رہا ہے۔‘‘
وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگے ’’ورزش کیا کریں۔ اس سے انسانی اعضا قابو میں رہتے ہیں اور دماغ ہر جسمانی حصے سے ایک جتنی مشقت لیتا ہے۔‘‘
میں نے ان سے کہا ’’اب اس عمر میں کہاں یہ اچھل کود ہوگی مجھ سے!‘‘
انہوں نے تاسف بھری نگاہ مجھ پر ڈالی اور کہا ’’دیکھیے! ہمارے اعضا بھی ہماری توجہ اور انصاف مانگتے ہیں۔ جب نادانستہ طور پر ہم جسم کے کسی ایک حصے پر بوجھ ڈالتے جائیں گے تو بہت جلد وہ درد کی صورت کراہ اٹھے گا اور مزید کام کرنے سے انکار کردے گا۔ ایسی صورت میں جب آپ دوسرے اعضا سے کام لینا چاہیں گی تو وہ اس طرح سے کام نہیں کرسکیں گے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم تبھی ہوش میں آتے ہیں جب درد سوا ہوجاتا ہے۔‘‘
میں نے قائل ہوتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا اور ان کا شکریہ ادا کرکے کیبن سے باہر نکل آئی۔ میڈیکل اسٹور سے دوائی لے کر پلٹی تو دل خوشی سے نہال ہوگیا۔ عدنان بائیک لیے میرے انتظار میں کھڑا تھا۔ یک گونہ اطمینان میری روح میں سرایت کرنے لگا۔ یعنی حالات ابھی اس نہج پر نہیں پہنچے تھے جہاں بہتری کی گنجائش نہ ہو۔ گھر پہنچے تو سلمان آفس سے واپس آچکا تھا۔ دونوں بھائی ٹی وی پر کرکٹ میچ دیکھنے لگے، ساتھ ساتھ بولنگ اور بیٹنگ پر تبصرہ بھی کرتے جاتے۔ دونوں کے بیچ صبح والی تلخی موجود نہیں تھی۔
میں نے بھی آتے ہی کچن کا رخ کیا اور آہستہ آہستہ اپنے نامکمل کام پورے کرنے لگی، لیکن اب مجھے حیرت ہورہی تھی کہ دوسرا ہاتھ پہلے کے مقابلے میں زیادہ اچھی طرح چل رہا تھا۔ میں نے اپنے سیدھے بازو کو بوسہ دیا اور دونوں بازوؤں پر محبت بھری نگاہ ڈالتے ہوئے خود سے کہا ’’خدا کا شکر ہے کہ تم دونوں میرے وجود کے ساتھ جڑے ہوئے ہو۔ اب میں تم دونوں میں سے کسی پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالوں گی۔‘‘