درد کی راہیں

243

(یہ کہانی سچے واقعے سے ماخوذ ہے)

یہ اماوس کی رات تھی، کالی سیاہ رات… شاید رملہ کو چھپاکر رکھنے کے لیے اوپر والے نے یہ اندھیری چادر تان دی تھی۔ وہ پنجوں کے بل چل رہی تھی، ایک ذرا سی آہٹ اس کا سب کچھ تباہ کردینے کے لیے کافی تھی۔ وہ بہت پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی تھی مگر رفتار کم بھی نہیں کرسکتی تھی، اسے جلد دین محمد کی حویلی تک پہنچ جانا تھا۔ آنسو اس کی آنکھوں سے مستقل بہہ رہے تھے۔

’’جا رملہ! جلدی کر بیٹی، نکل جا۔‘‘ ماں کی آواز لرز رہی تھی، خوف سے وہ کانپ رہی تھی، گھر کا دروازہ بری طرح پیٹا جا رہا تھا، مکتی باہنی کے غنڈے دروازہ توڑے ڈال رہے تھے۔ دروازہ چرچرا رہا تھا۔

امی نے اُسے گلی کے دروازے سے باہر نکال دیا۔ وہ دیوانوں کی طرح بھاگ رہی تھی۔ گولیوں اور چیخوں کی آوازیں اُس کا پیچھا کررہی تھیں… دین محمد صاحب کی حویلی سب لڑکیوں کے لیے جائے پناہ بنی ہوئی تھی۔ اندر بیس، پچیس خواتین تھیں۔ دین محمد صاحب بہت اثر رسوخ والے آدمی تھے، ان کی حویلی کے گرد حفاظت پر پاکستانی فوجی مامور تھے۔ کون جانے یہ پناہ گاہ کب تک تھی!

یہ مشرقی پاکستان کا شہر ’’ڈھاکہ‘‘ تھا، اور نومبر 1971ء کی آخری تاریخیں تھیں۔ پاکستانی فوج پورے مشرقی پاکستان میں موجود تھی، مگر مکتی باہنی کی بدمعاشی کو لگام نہیں دے پا رہی تھی۔ رملہ بار بار ابو سے سوال کرتی ’’ابو! ہماری فوج کے پاس تو اتنی تربیت ہے، اسلحہ ہے، پھر یہ بغاوت کچل کیوں نہیں دیتے؟‘‘

بیٹی میں کیا بتاؤں…‘‘ رملہ کے سوالوں پر ابو سوچ میں ڈوب جاتے کہ جیسے اُن کی آواز کہیں دور سے آرہی ہوتی۔

’’پتا نہیں کیوں رملہ! جو فوجی مشرقی پاکستان میں تعینات کیے گئے ہیں ان میں بنگالی فوجی نہ ہونے کے برابر ہیں۔

’’کیوں بابا؟ ہماری یونیورسٹی میں سب ہی فوج کے خلاف باتیں کرتے رہتے ہیں…آخر ایسا کیوں ہے؟‘‘

’’بس بیٹا! ایوب خان کو بنگالیوں کے قد پر اعتراض ہے کہ وہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں… فوج میں اُن کا کیا کام!‘‘ وہ دکھ سے کہتے۔

رملہ سوچتی رہ جاتی، یہ کیا بات ہوئی بھلا…! فوج میں جرأت اور ٹریننگ اہم ہوتی ہے، جذبہ اہم ہوتا ہے… قد کا کیا ذکر! اُس کا بھائی نذیر ’’البدر‘‘ میں شامل ہوکر ہر دن جگہ جگہ تقریریں کرتا، ہندوؤں کی سازشیں بتاتا… وہ تو ڈھاکہ ہی میں پیدا ہوا تھا، اسی دھرتی کا بیٹا تھا… پَر اس کا اسلام سے محبت کا جرم کسی سے چھپا کیسے رہ سکتا تھا…! اس کا گھر نشانے پر تھا۔

البدر کے معصوم نوجوان متعصب بنگالیوں کو مسلمان اور ہندو کا فرق سمجھانے کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کررہے تھے۔ مگر آج اپنے پرائے کی پہچان ختم ہوچکی تھی۔ کیسی عجیب بات تھی اور کس قدر تلخ بھی کہ انڈیا کی دراندازی اپنی جگہ، مگر مغربی پاکستان کے بعض طبقوں نے بھی تعصب کی بڑی بڑی دیواریں کھڑی کرنے میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ اسی لیے آج کوئی نہیں جانتا تھا کہ مکتی باہنی میں کتنے ہندو مسلمانوں کو لوٹنے اور قتل کرنے میں مصروف ہیں۔

مشرقی پاکستان کے بنگالی مسلمان صرف یہ جانتے تھے کہ وہ بنگالی ہیں… یہ اُن کی پہچان تھی۔ تعصب کی عینک اُنہیں اپنے پرائے کی پہچان کرنے نہیں دے رہی تھی۔

یونیورسٹی میں رملہ اپنی دوستوں کے منہ سے تعصب کی یہ باتیں سن سن کر پریشان رہنے لگی تھی۔ وہ سوچتی، کیا مغربی پاکستان کے اہلِ اقتدار اندھے ہیں کہ اُنہیں ہندوؤں کی یہ منصوبہ بندی نظر نہیں آرہی! ایک دو دن کی بات نہیں تھی، 1947ء سے 1971ء تک ایک نئی نسل جوان ہوچکی تھی۔ ان میں مولوی عبدالحق کے ساتھی بہت تھوڑے رہ گئے تھے۔ زیادہ تر نوجوان لادین نصاب پڑھنے والے تھے۔ ’’بندے ماترم‘‘ کا ترانہ پڑھنے والے تھے۔ اسلام کے دشمن… پاکستان کے دشمن… انسانیت کے دشمن تھے۔

رملہ جانتی تھی ہندو اساتذہ نے نوجوانوں کی رگ رگ میں تعصب کے نام پر جو زہر بھرا ہے وہ اُنھیں دیوانہ کررہا ہے۔ روز ہی نوجوانوں میں جھگڑے ہونے لگے تھے جو بظاہر تو تھم جاتے مگر پھر وہ لڑکے دوبارہ یونیورسٹی میں زندہ نظر نہ آتے جو پاکستان کے حق میں آواز اُٹھاتے تھے۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ اُن کے نام مکتی باہنی کے غنڈوں کو دے دیے جاتے تھے، اور پھر وہ گھر اور گھر والے اس سچائی کی سزا بھگتتے تھے۔

کل تو حد ہی ہوگئی… رملہ اپنی سہیلی کے ساتھ گھر آنے کے لیے نکلی تو تین چار لڑکوں نے ان کا راستہ روک لیا اور بدتمیزی کرنے لگے۔ رملہ نے لاکھ کہا ہمیں گھر جانے دو، مگر وہ باز نہ آئے اور اُن کے سامنے تن کر بولے ’’آج تو تم وہاں جاؤ گی جہاں ہم کہیں گے۔‘‘

دونوں لڑکیوں کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، دونوں نے ہاتھ مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھے اور زور زور سے آیت الکرسی پڑھ رہی تھیںکہ اچانک ایک گاڑی نے قریب آکر مسلسل ہارن دینا شروع کردیا۔ یہ اُن کے سر ارشاد تھے۔ اُن کا اشارہ پاتے ہی دونوں لپک کر گاڑی میں بیٹھ گئیں۔

’’سر! آپ ہمیں کسی بس اسٹاپ کے قریب اتار دیں۔‘‘

’’بیٹا! آپ لوگ جلدی گھر چلے جایا کرو… آج کل حالات ٹھیک نہیں۔‘‘

’’جی سر!‘‘ ان کی آواز بہ مشکل نکل رہی تھی۔ یہ اُن دو تین اساتذہ میں سے تھے جو اچھی سوچ رکھتے تھے۔

گھر پہنچ کر رملہ امی سے لپٹ کر سسک اُٹھی۔ امی نے اُس کی طرف دیکھا۔ کچھ کہنے سننے کی ضرورت کہاں تھی! ساری فضا خود کہانی بتارہی تھی۔ خوف کے فسانے سنا رہی تھی۔

آج رملہ نے بہت دعائیں مانگیں اپنے بھائی اور ماں باپ کے لیے… اور اپنے لیے بھلا کیا دعا مانگتی! اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔

آج کی رات بڑی سخت تھی۔ نذیر ایک عرصے سے گھر نہیں آسکا تھا۔ گھر میں وہ غیر محفوظ جو تھا۔ اندھیرا ہوتے ہی مکتی باہنی کے غنڈے ان کے گھر کے باہر جمع ہوئے رات گہری ہونے کے انتظار میں، اور پھر گھر کا دروازہ پیٹا جانے لگا ’’باہر نکالو نذیر کو…‘‘

’’وہ گھر پر نہیں ہے۔‘‘ ابو نے ساری ہمت مجتمع کرکے جواب دیا۔

’’کھولو دروازہ، وہ اندر چھپا ہے۔‘‘

اور پھر امی نے کسی طرح اُسے باہر نکالا۔ سنسان گلی میں وہ بھاگتی چلی گئی… وہ پنجوں کے بَل چل رہی تھی۔ پیچھے مکتی باہنی کے غنڈے دروازہ توڑ چکے تھے۔ ابو کے سر پر سنگین تاننے والے بنگالیوں کے روپ میں کالی دیوی کے پجاری تھے۔

آسمان نے ایسا نظارہ پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا… بے شمار مسلمان لڑکیوں کی آبرو کا زیور نوچ پھینکنے والوں کے ہاتھ مسلمانوں نے ہی مضبوط کیے تھے۔ اُن کے سامنے عزت و ناموس کے جنازے نکل رہے تھے اور وہ ’’جیے بنگلا‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔

دین محمد صاحب کی حویلی تک پہنچتے پہنچتے وہ ہانپنے لگی تھی۔ اندر داخل ہوئی تو سلمیٰ نے بڑھ کر اُسے گلے لگا لیا۔ دونوں دوست سسک اٹھیں اور سب کو اپنے غم یاد آنے لگے۔

’’سلمیٰ! امی… ابو…!‘‘ وہ تڑپ اُٹھی۔

’’صبر کرو رملہ… اللہ اُن کی حفاظت کرے گا۔‘‘

’’حفاطت…؟‘‘ حفاظت کا لفظ اپنے معنی کھو رہا تھا جیسے۔

رملہ کے کانوں میں گولیوں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔

دین محمد کی حویلی آخر مکتی باہنی کی زد میں آنی ہی تھی، مگر اس سے پہلے سپاہیوں نے اطلاع دے دی، اور سب عورتوں کو ایک اجڑے گھر کے تہہ خانے میں پہنچا دیا گیا۔ اب حال یہ تھا کہ ان بیس، پچیس خواتین کے لیے ایک ٹنکی پانی اور آدھی بوری چاول تھے، جو دین محمد کی بیگم سب کو روزانہ ایک ایک مھٹی دیتی تھیں، اور سب اُسے خوب چبا چبا کر پانی سے نگل لیتے تھے۔ بیگم صاحبہ سب کو مستقل اللہ کا ذکر اور دعاؤں کا ورد کرواتی تھیں۔ ایک لمحے کو بھی اگر روکتیں تو دور سے قدموں کی چاپ سنائی دینے لگتی تھی، اور پھر سب جلدی جلدی درود شریف پڑھنے لگتیں۔ خوف اس قدر شدید تھا کہ اپنوں سے بچھڑنے کے دکھ پر جیسے رو رو کر آنسو بھی خشک ہوگئے تھے۔

دسمبر شروع ہونے تک پورے علاقے میں غنڈوں کا راج ہوچکا تھا۔ ہر گھر اجڑا پڑا تھا، جوان لڑکیوں کو ہندو اُٹھا اُٹھا کر لے جارہے تھے، وحشت کا رقص جاری تھا۔ ایک بار 1947ء میں دوپٹے تار تار ہوئے تھے، عزت و ناموس برباد ہوئی تھی… اور اب 1971ء میں ایک بار پھر وہی حشر برپا تھا۔ تاریخ سوال کرکے رو پڑی تھی کہ کیا مظلوموں کا محافظ کوئی نہیں؟

ایک خاتون کے چار بیٹے اور شوہر اُن کے سامنے شہید کردیے گئے، اپنی تین بیٹیوں کی عزت بچا کر وہ بھی تہہ خانے میں تھیں۔ وہ بار بار چیخنے لگتیں۔ سب انہیں چپ کرواتے… سب کے دل زخمی تھے۔ زخم بھی ایسے کہ کبھی نہ بھرنے والے۔ اپنے کے زخم بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔

رملہ کو بھی ہر دم امی کا دکھی چہرہ نظر آتا رہتا۔ ابا کا سوال اس کے کانوں سے ٹکراتا ’’کیوں مار رہے ہو… چھوڑو میری بیوی کو… آخر ہمارا قصور کیا ہے؟‘‘

گلی میں بھاگتے، آوازیں اُس کا جگر چیر رہی تھیں۔ کوئی بتائے قصور کیا ہے…؟ جرم کس نے کیا ہے؟ قصور کس کا ہے؟

سقوطِ ڈھاکا ہوچکا تھا۔ کسی ہمدرد فوجی کی مدد سے آخری فلائٹ سے یہ سب خواتین مغربی پاکستان پہنچیں۔ یہاں پھر کس طرح سب اپنے رشتے داروں کے گھر گئیں، کیسے رہیں… کس پر بوجھ بنیں! رملہ بھی ماموں کے گھر چلی گئی۔ اپنے اتنے اچھے گھر کو چھوڑ کر مہاجرت کی زندگی… کیا کِیا؟ کیا ہوا؟ زندگی درد کی راہوں پر چلتی رہی… دکھ درد کے راستے… یادوں کے زخموں کے راستے۔ لیکن اس نے ایک بات ہمیشہ کے لیے طے کرلی تھی کہ تعصب کے راستے پر کبھی نہیں چلنا۔ لیکن شاید اولاد کو بتانا، سمجھانا بھول گئی تھی۔

حصہ