عابد شیروانی کی کتاب “محمد سے وفا”کی تقریب پذیرائی

364

جناح آڈیٹوریم‘ ایم سی سٹی کورٹ کراچی میں عابد شیروانی ایڈووکیٹ کی دوسری کتاب ’’محمدؐ سے وفا‘‘ کی تقریب پزیرائی کا اہتمام کیا گیا جس میں محمود شام صدر تقریب تھے۔ مسلم شمیم‘ پروفیسر خیال آفاقی اور پروفیسر رئیس صمدانی مہمانان خصوصی تھے۔ رانا خالد محمود مہمان اعزازی تھے۔ ثوبیہ آصف نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ جاوید اقبال ایڈووکیٹ نے تلاوت کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ غلام قاصد نے نعت رسولؐ پیش کی۔ حلقۂ شعرا بار کراچی کے زیر اہتمام ہونے والے پروگرام میں جاوید اقبال ایڈووکیٹ نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ حلقہ شعرا بار کراچی ایک غیر سیاسی تنظیم ہے جس کے تحت ہم ہر ماہ ادبی پروگرام آرگنائز کرتے ہیں۔ شاعری ہماری روحانی غذا ہے اور مشاعرے ہمارا کلچر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج ہم عابد شیروانی ایڈووکیٹ کے لیے یہاںجمع ہوئے ہیں جو کہ ایک ممتاز قانون دان ہونے کے علاوہ معروف ادیب بھی ہیں۔ ان کی پہلی کتاب ’’اسپین‘ اقبال کا دوسرا خواب‘‘ شائع ہوچکی ہے جو کہ اردو ادب میں گراں قدر اصافہ ہے۔ اختر سعیدی نے عابد شیروانی ایڈووکیٹ کو منظوم خراج تحسین پیش کیا جس میں انہوں نے عابد شیروانی کی شخصیت اور فن پر سیر حاصل بحث کی۔ صدیق راز ایڈووکیٹ نے کہا کہ عابد شیروانی جہاں دیدہ شخصیت ہیں۔ انہوں نے متحرک زندگی گزاری ہے‘ وہ کامیاب وکیل اور ممتاز لکھاری ہیں۔ انہیں علامہ اقبال سے بڑی محبت ہے۔ وہ علامہ اقبال کی شاعری اور شخصیت پر قابل تحسین تحریریں پیش کر رہے ہیں۔ وہ اردو ادب کی ترویج و اشاعت میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں‘ ان کی دوسری کتاب ’’محمدؐ سے وفا‘‘ علامہ اقبال کی نظموں‘ شکوہ اور جواب شکوہ کی آئینہ دار ہے۔ اس کتاب میں مسلمانوں کی زبوں حالی کا تذکرہ بھی ہے اور مسلمانوں کو یہ ہدایت بھی ہے کہ وہ اسوۂ رسول پر عمل کریں کہ اسوۂ رسول کی پیروی دین و دنیا میں کامیابی کی مظہر ہے۔حوا عمر لدھانوی نے کہا کہ عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے علامہ اقبال کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھاہے کہ علامہ اقبال ہمارے قومی شاعر ہیں انہوں نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانانِ ہند کو غلامی سے آزادی کی تحریک دی‘ انہوں نے شکوہ جواب شکوہ جیسی لاجواب نظمیں لکھ کر مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا بلاشبہ عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے بڑی مہارت سے ان دونوں نظموں کی تشریح کی ہے۔ ان کے الفاظ میں جامعیت اورمعنویت پنہاں ہے۔ نورین فیاض (حیدرآباد) نے بھی عابد شیروانی ایڈووکیٹ کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ خورشید احمد نے کہا کہ عابد شیروانی ایڈووکیٹ کی دوسری کتاب بھی علامہ اقبال کے مطالعات پر مبنی ہے یہ کتاب قارئینِ ادب کے لیے معلومات کا اہم ذریعہ ہے انہوں نے علامہ اقبال کے پیغامات کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ رانا خالد محمود قیصر نے کہا کہ عابد شیروانی ایڈووکیٹ کی یہ کتاب بھی معرکۃ الآرا تصانیف میں شامل ہے۔ یہ اربابِ علم و فن کی تشنگان کے لیے بہترین تحفہ ہے۔ علامہ اقبال کی عربی‘ فارسی‘ جرمنی‘ پنجابی‘ اردو اور انگریزی زبان دانی نے قارئین ادب کے علم و فن میں اضافہ کیا ہے۔ 1911ء میں علامہ اقبال نے اپنی نظم شکوہ پہلی مرتبہ انجمن حیاتِ الاسلام کے جلسے میں پڑھی تھی یہ نظم سوئے ہوئے جذبات کو جگانے میں معاون ثابت ہوئی۔ علامہ اقبال نے اپنی نظم جوابِ شکوہ 1913ء میں پیش کی جس میں الہامِ رہانی کا شان نظر آتی ہے۔ عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے شکوہ اور جوابِ شکوہ کی شرح لکھتے ہوئے زبان دانی اور فہم و فراست کا بھرپور استعمال کیا ہے تراکیب و استعارات کا پس منظر بیان کرنے میں بھی عابد شیروانی کی قابلیت نمایاں ہے‘ ان کی زبان آسان اور سادہ ہے جس کی وجہ سے ابلاغ کے مسائل پیدا نہیں ہو رہے۔ سکندر علی رند نے کہا کہ عابد شیروانی کی شرح نگاری میں ان کی فاضلانہ مہارت نظر آرہی ہے انہوں نے علامہ اقبال کے اسلوب کو بہترین انداز میں پیش کیا ہے انہوں نے علامہ اقبال کی نظموں میں استعمال شدہ استعارات اور لفظیات کا آسان ترجمہ پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر رئیس صمدانی نے کہا کہ عابد شیروانی ایڈووکیٹ کی پیش کردہ تصنیف کا عنوان ’’محمدؐ سے وفا‘‘ ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کی نظم جوابِ شکوہ میں شعر‘ بند نمبر 36 کا آخری شعر ہے محمد سے وفا کے الفاظ اس شعر میں کچھ اس طرح سے ہیں:

کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے ان دونوں نظموں کی بہترین شرح پیش کی ہے‘ انہیں ’’اقبالیات‘‘ سے دل چسپی ہے ان کا تحقیقی اور مطالعاتی کام قابل ستائش ہے۔ جاوید حلیم نے کہا کہ عابد شیروانی ایڈووکیٹ علامہ اقبال کے شناسائوں کی صف میں شامل ہو گئے ہیں ان کی دو کتابیں اقبالیات سے متعلق شائع ہو چکی ہیں۔ پروفیسر خیال آفاقی نے کہا کہ علامہ اقبال ایک روشن خیال‘ بیدار مغز انسان تھے‘ وہ پوری امت محمدی کے نقیب تھے‘ ان کی انقلابی فکر صرف برصغیر ہند وپاک تک محدود نہیں بلکہ وہ پوری دنیا میں انسانوں کی رہنمائوں کر رہے تھے‘ ان کے اشعار زندگی کے تمام زاویوں کی عکاسی کرتے ہیں‘ وہ مسلمانوں کو ایک عظیم قوم بنانا چاہتے تھے۔ مسلم شمیم ایڈوکیٹ نے کہا کہ جس زمانے میں علامہ اقبال نے شکوہ اور جوابِ شکوہ نظمیں کہی تھیں۔ وہ مسلمانوں کی غلامی کا دور تھا‘ انگریز ہمارے حاکم تھے۔ علامہ اقبال نے اللہ تعالیٰ کے حضور مسلمانوں کی ناگفتہ بہ حالت پیش کیے۔ ان دونوں نظموں پرعابد شیروانی ایڈووکیٹ نے جو کام کیا ہے وہ نگاہِ قدر و منزلیت کا آئینہ دار ہے۔ افتخار ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ علامہ اقبال نے فارسی اور اردو میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے بے شمار اشعار کہے ہیں۔ اقبالیات پر خامہ فرسائی ایک مشکل کام ہے لیکن ڈاکٹر عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے نہایت ہنر مندی سے علامہ اقبال کے پیغامات کو عام کیا ہے انہوں نے سیدھی سادھی زبان میں علامہ اقبال کی شاعری کی شرح بیان کی ہے میں ان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ محمود شام نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ سب سے پہلے تو ڈاکٹر عابد شیروانی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے نامساعد حالات کے باوجود علامہ اقبال پر اپنی تصانیف پیش کیں جو کہ اردو ادب کے شاہکاروں میں شمار ہوتی ہے۔ فکری اعتبار سے ان کی دونوں کتابیں اہم دستاویز ہیں۔ میرے مطالعے کے مطابق ’’محمدؐ سے وفا‘‘ اقبالیات کے روپ میں ایک اہم اضافہ ہے۔ ڈاکٹر عابد شیروانی نے کلمات تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج اس کی دوسری کتاب پر جن صاحبانِ عقل و دانش نے مجھے قابل ستائش کلمات سے نوازا ہے وہ میرے لیے سند کا درجہ رکھتے ہیں میری کوشش ہے کہ میں علامہ اقبال پر مزید کام کروں تاکہ ان کے خیالات و پیغامات سے ہم فائدہ اٹھائیں۔ علامہ اقبال جیسے انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں‘ اس کتاب میں علامہ اقبال کی دو نظموںکا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس کتاب سے علامہ اقبال کو سمجھنے میں آسانی رہے گی۔

حصہ