فرعون کا دربار سجا ہے۔ ہامان سمیت سب سردار پورے غرور وتمکنت کے ساتھ چند لمحوں بعد شروع ہونے والے مقابلے کے منتظر ہیں۔جادوگروں کا گروہ باہم مشوروں میں مصروف ہے۔ آج فرعون کے دربار میں حق و باطل کا معرکہ در پیش ہے۔ ایمان و کفر کے درمیان محاذ عام لوگوں کے سامنے سجنے کو ہے۔ جادوگر کہتے ہیں ”موسیٰ! کیا تم پہلے پھینکو گے یا ہم پھینکیں؟“موسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں ”تم پھینکو۔“ اب جادوگر یکدم اپنی رسیاں پھینکتے ہیں تو وہ چلتے پھرتے خوف ناک سانپوں کا روپ دھار لیتی ہیں۔
موسیٰ علیہ السلام دل میں خوف محسوس کرتے ہیں کیوں کہ کفر اپنے تمام تر اسباب کے ساتھ میدان میں اترا ہے۔ اس کی جادوگری اور شعبدہ بازی انسانی نظر کو خیرہ کر کے انسان کو مبہوت کر دیتی ہے۔ ادھر موسیٰ علیہ السلام تہی دست ہیں، فقط ایک عصا ان کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ رب العزت کا حکم ہوتا ہے ”اے موسی! اپنا عصا پھینک دو۔“ موسیٰ علیہ السلام عصا پھینکتے ہیں تو وہ اژدہا بن جاتا ہے اور سب سانپوں کو نگل جاتا ہے۔ جادوگر جان لیتے ہیں کہ موسی علیہ السلام اللہ کے نبی ہیں، جادوگر نہیں۔ اور سجدہ ریز ہو کر اللہ رب العزت پر ایمان لے آتے ہیں۔ ایمان جیت جاتا ہے اور کفر کو شکست و ہزیمت کا سامنا ہوتا ہے۔
ایک منظر ذہن کی اسکرین پر چل رہا ہے جو آج سے چودہ پندرہ برس پہلے کسی وڈیو میں دیکھا تھا۔ عجیب ایمانی منظر ! ایک فلسطینی بچہ خالی ہاتھ دوڑے جا رہا ہے۔ اس کے پیچھے ایک مسلح صیہونی فوجی (اسرائیلی) بندوق ہاتھوں میں اٹھائے اس کا تعاقب کرتا ہے۔ منظر بڑا واضح ہے۔ دیکھنے والا اسے دیکھ کر ذہن میں پہلے سے فیصلہ کر لیتا ہے کہ چند لمحوں بعد یا تو یہ فلسطینی بچہ جس کی عمر بہ مشکل نو یا دس سال ہےتھک ہار کر رک جائے گا اور اسرائیلی فوجی کے ہاتھوں گرفتار ہو کر مار کھاتا ہوا اس کے ہمراہ جیل کی طرف روانہ ہو جائے گا یا پھر اگر تعاقب کرتے ہوئے اسرائیلی فوجی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو اس کے ہاتھوں میں موجود بندوق کا رخ بچے کی جانب ہو جائے گا اور پھر ہم اس بچے کو گرتا ہوا اور خون میں لت پت ہوا دیکھیں گے۔
مگر چند لمحوں کے اس منظر کے بعد دیکھنے والا ایک ایسا منظر دیکھتا ہے کہ جو پھر اس کی یادداشت میں پتھر پر لکیر کی طرح ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ معصوم فلسطینی بچہ نہ جانے کیا سوچ کر یکدم واپس مڑتا ہے اور واپس مڑ کر اپنے تعاقب میں پیچھے آنے والے فوجی کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔ وہ فوجی اب بھی اس کی سمت دوڑے چلے آ رہا ہے مگر اب اس کے چہرے پر حیرانی کے آثار واضح نظر آرہے ہیں۔ اس نے بھی سوچا ہوگا کہ اس بچے کو کیا ہوا؟ کیا یہ مرنا چاہتا ہے؟ آخر یہ کیا چاہتا ہے؟ ایسے میں وہ بچہ باز کی طرح زمین پر پڑے پتھروں پر تیزی سے جھپٹتا ہے اور پتھر اٹھا کر یکدم اس فوجی پر پتھروں کی بارش کر دیتا ہے۔
وہ بچہ اتنا بھی بچہ نہیں کہ اسے معلوم ہی نہ ہو کہ فوجی مسلح ہے، بندوق کا رخ اسی کے سینے کی طرف ہے اور یہ کہ فوجی کی انگلی کی ایک جنبش اسے ہمیشہ کے لیے خاموش کر سکتی ہے۔ مگر نہیں ! وہ بچہ تو ماں کی گود سے خالد بن ولید کے قصے سنتے آرہا ہے ۔اس کی پرورش ہی توبہ اور انفال کو عمل کے روپ میں ڈھالتے معاشرے میں ہوئی ہے۔ چنانچہ اب اس بچے نے کیل کانٹے سے لیس یہودی فوجی کے خلاف پتھر برسا کر جنگ کا طبل بجا دیا ہے۔
فوجی پہلے تو رکا، ٹھٹکا اور پھر وہی ہوا جو اذل سے ایمان و کفر اور حق و باطل کے معرکوں میں ہوتا چلا آرہا ہے۔ وہ مغضوب علیھم قوم کا باشندہ کہ جس کی دنیاوی زندگی سے محبت کا یہ عالم ہے کہ ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ ہزار سال جیے یکدم الٹے پیر پھر جاتا ہے اور اب دیکھنے والا ایمانی قوت کے عجیب کرشمے دیکھتا ہے۔ کافر کے دل میں اللہ کی طرف سے رعب کا نزول دیکھتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ اب یہودی فوجی آگے آگے ہے اور وہ پتھر برساتا ببر شیر پیچھے پیچھے۔ بس ایک پتھر اٹھانے کی دیر تھی! اللہ کا حکم پورا کرنے کی دیر تھی، یعنی استطاعت و مقدور بھر تیاری اور پھر اللہ پر توکل کرتے ہوئے اس کے دشمن سے بھڑ جانا کہ اللہ کی مدد و نصرت نبیﷺ کی امت کے اس ننھے معصوم بچے کے لیے نازل ہو گئی اور سر تا پیر کیل کانٹے سے لیس یہودی فوجی مرعوب ہو گیا، خائف ہو گیا، بھاگ نکلا۔
بندہ میدان پکارتے ہیں کتاب پڑھ رہا ہے۔ اللہ کی مدد و نصرت کے حیران کن ایمان افروز واقعات پڑھ رہا ہے، اور واقعات پڑھتے ہوئے چشم تصور سے ذہن کے پردہ پر ان واقعات کو دیکھتا بھی جا رہا ہے۔ کتاب میں لکھے واقعات جیسے مجسم شکل میں اس کی آنکھوں کے سامنے ابھرتے اور امڈتے جا رہے ہیں۔ وہ ایک مفلوک الحال افغانی مجاہد قیدی کو روسی فوجیوں کی قید میں دیکھتا ہے۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہیں اس کے پاؤں میں جوتی بھی نہیں ہے، بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ لیکن چہرے پر بشاشت و طمانیت ہے اور ہونٹ مسلسل ذکر ِالٰہی میں جنبش کیے جا رہے ہیں۔ ایسے میں ایک روسی فوجی کمانڈر اپنے ماتحت فوجیوں کے ہمراہ اس قیدی کے پاس آتا ہے اور تجسس وطنز کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اس سے مخاطب ہو کر کہتا ہے ”سنا ہے کہ تم لوگ اللہ اکبر کہہ کر پتھر ہمارے ٹینکوں پر مارتے ہو تو وہ جل اٹھتے ہیں۔ یہ دیکھو تمہارے سامنے ایک ٹینک کھڑا ہے ۔ذرااللہ اکبر کہہ کر اسے پتھر مارو۔ یہ جل اٹھا تو ہم تمہیں رہا کر دیں گے۔“
وہ اللہ کا بندہ اٹھتا ہے اور دو رکعت نفل پڑھ کر نہایت آہ و زاری سے اللہ سے دعا مانگتا ہے ۔ پھر جب وہ ایمان و یقین کے ہتھیار سے لیس ہو کر اٹھتا ہے تو سب روسی فوجی انتہائی متجسس نظروں سے اسے تک رہے ہوتے ہیں۔ آج پھر کفر کے دربار میں ایمان کی حقانیت ثابت ہونے کا موقع ہے۔ وہ اللہ کا بندہ اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر چند کنکر ٹینک پر پھینکتا ہے تو یکدم ٹینک کو آگ لگ جاتی ہے۔ سبحان اللہ! روسی کمانڈر آگے بڑھ کر اس افغانی مجاہد کو سلوٹ کرتا ہے اور اسے رہا کر دیتا ہے۔
تاریخ کا مسافر وقت کے اوراق پلٹتے پلٹتے موسی علیہ السلام اور فرعون کے درمیان حق و باطل کے معرکے دیکھتا دیکھتا ،تحیر آنکھوں میں سموئے ،عصرِ حاضر میں پہنچتا ہے تو اس کے مشاہدے میں آنے والی بہت سی باتوں میں کچھ مماثلت پائی جاتی ہے ۔اسے اہلِ حق اور اہل ِایمان، اہلِ باطل کے مقابلے میں ہمیشہ قلتِ تعداد اور قلتِ ساز و سامان کا شکار نظر آتے ہیں ۔چاہے وہ داؤد علیہ السلام اور طالوت رحمہ اللہ کے لشکر کا مقابلہ جالوتی لشکر سے ہو یا بدر میں نبی آخر الزمان ﷺ کے لشکر کا مقابلہ اپنے سے تین گنا بڑی کفار ِمکہ کی فوج سے۔ مادی لحاظ سے ہمیشہ اہلِ حق اس قدر کمزور رہے ہیں کہ حق و باطل کے لشکروں کے مابین قوت کا یہ تفاوت نہایت واضح ہوتا ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو پھر حق کا حق ہونا کیسے دنیا پر عیاں ہوگا؟ پھر یہ کیسے سر کی آنکھوں سے دِکھے گا کہ اللہ تعالی کی مدد و نصرت ان دو لشکروں میں سے کس کے ساتھ ہے؟
اہلِ حق کا کام توبس اتنا ہے کہ مقدور بھر تیاری کے بعد آتش نمرود میں کود پڑیں ۔باطل کے جھوٹے جاہ و جلال سے مرعوب نہ ہوں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی جو رسیاں سانپ بنے، بندۂ مومن کو مرعوب و خائف کیے جا رہی ہیں،ان پر ایمانی عصائے موسٰی ،رب پر توکل کرتے ہوئے پھینکیں تو پھر وہی ایمان افروز منظر دہرایا جائے گا کہ سر تاپا مسلح اسرائیلی فوجی آگے آگے اور امت کا ایک ننھا سا مسلمان فلسطینی بچہ پتھر ہاتھوں میں لیے پیچھے پیچھے۔
موسی علیہ السلام فرعون پر حجت تمام کرنے کے بعد اپنے رب کے حکم پر بنی اسرائیل کو لے کر راتوں رات نکلتے ہیں۔ فرعون بھی اپنا لاؤ لشکر لے کر ان کے تعاقب میں آجاتا ہے ۔سمندر کے کنارے پہنچتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ آگے سمندر اور پیچھے فرعونی لشکر ۔موسی علیہ السلام کے ساتھی پکار اٹھتے ہیں :”ہم پکڑے گئے!“ لیکن اپنے رب کو پہچاننے والے ،اس پر مکمل توکل رکھنے والے موسٰی علیہ السلام فرماتے ہیں: ”ہرگز نہیں! میرے ساتھ میرا رب ہے جو عنقریب میری رہنمائی کرے گا“۔ موسی علیہ السلام اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل خالی ہاتھ ہیں، جبکہ فرعونی لشکر ہر طرح کے اسبابِ حرب و ضرب سے لدا ہوا ہے۔ آسمان سے اللہ رب العزت کا موسی علیہ السلام کو حکم پہنچتا ہے کہ سمندر پر اپنا عصا مارو۔ غور کیجئے !اللہ ساتھ ہو تو ہاتھ میں پکڑا عصا بھی پورے پورے لشکروں کے خلاف کافی ہو جاتا ہے ۔قصۂ مختصر عصا مارنے پر سمندر میں راستہ بن گیا، موسٰی علیہ السلام اور ان کی قوم پار نکل گئی اور فرعونی لشکر غرقاب ہو گیا۔
یہ عظمتِ باطل دھوکہ ہے
یہ سطوتِ کافر کچھ بھی نہیں
مٹی کےکھلونے ہیں سارے
یہ کفر کے لشکر کچھ بھی نہیں!
ہاں مگر دوستو! فتح مکہ کی منزل تک پہنچنے کے لیے شعب ابی طالب کی گھاٹی میں بھی اترنا پڑتا ہے، بدر واحد، احزاب اور حنین کے میدانوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے ۔حمزہ اور مصعب جیسے قیمتی ہیرے اپنے ہاتھوں سے سپرد خاک کرنے پڑتے ہیں ۔فتح یقینی ہے، منزل یقینی ہے، مگر یہ راستہ طویل ،پُرخطر اور قربانیوں سے بھرا ہوا ہے ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ہمارے ذمے بس اپنے حصے کا کام کرنا اور آگے بڑھتے رہنا ہے۔ سو کامیابی ہی کامیابی ہے!چاہے فتح ہو یا اس راہ کی کسی منزل پر، کسی بدر، کسی احد ، کسی خندق و حنین پر چلتے موت آجائے۔
یہ فیروز لوٹے تو غازی کا غازی
وگرنہ شہادت سے ہو سرفرازی
وہ منظر دیکھو۔۔۔ ایک جنازہ اٹھ رہا ہے ۔۔۔ ہزاروں پرجوش اہل ایمان جنازے میں شریک ہیں۔ مگر ذرا دیکھو تو یہ جنازہ کس کا ہے؟ غزہ کا علاقہ ہے۔ ذرا قریب سے دیکھو… ارے! یہ تو ایک تیرہ چودہ سالہ لڑکے کا جنازہ ہے ۔سینہ خون آلود ہے ۔چہرے پر الوہی مسکراہٹ ہے ۔یہ اس کے دونوں ہاتھوں کو پٹی سے اکٹھا کیوں باندھا گیا ہے؟ اس کے دونوں ہاتھوں کے بیچ کیا شے ہے ؟ایسا لگتا ہے کہ جو چیز اس نے دونوں ہاتھوں میں تھام رکھی ہے ،شہادت کے بعد بھی اسے چھوڑنے پر رضامند نہیں ہے۔ دوستو !اس کے ہاتھ میں موجود پتھر، اس معصوم فلسطینی ننھے مجاہد کا لاشہ چہرے پر دلفریب اور دل کو موہ لینی والی مسکراہٹ لیے مجھ سے اور آپ سے پوچھ رہا ہے ۔۔میں تو ٹینکوں کے مقابلے میں پتھر تھامے میدان میں اتر پڑا۔۔اپنی جان تک قربان کرڈالی۔۔لیکن تم ۔۔تم کیوں اب تک گھر بیٹھے ہو؟ تم کب نکلو گے؟ اقصیٰ کی جانب نکلتے قافلوں میں کب شامل ہو گے؟ نکلو کہ تمہیں ‘میدان پکارتے ہیں۔
ابابیلیں ہیں ہم
بس اس قدر ہی فرض ہے ہم پر
کوئی کنکر
کوئی پتھر
ذرا ان ہاتھیوں کے لشکروں پر پھینک دیں اور پھر…
افق کے پار جا پہنچیں
جہاں ساروں کو جانا ہے
حساب اپنا چکانا ہے
ہمیں لیکن ۔۔۔۔۔
محض زخمِ جگر اپنا دکھانا ہے
پھر اُس کے بعد کی دنیا کا ہر منظر سہانا ہے!