ناصر کاظمی شاعری اور شخصیت

3697

غم ہے یا خوشی ہے تُو
میری زندگی ہے تُو

کے خالق ناصر کاظمی اردو زبان کے ایک اہم شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں عشق، محبت، درد، رنج اور انسانیت کے جذبات کو خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ وہ اپنی غزلوں کے لیے مشہور ہیں، لیکن ان کی نظمیں بھی بہت خوبصورت اور معنی خیز ہیں۔

ناصر کاظمی کی شخصیت میں بہت سی خوبیاں تھیں۔ وہ ایک حساس اور جذباتی انسان تھے۔ ان کے دل میں انسانیت کے لیے بڑا درد تھا۔ وہ مظلوموں اور بے کسوں کی دادرسی کرتے تھے۔ وہ ایک اچھے دوست اور ساتھی تھے۔

حامد کاشمیری نے لکھا تھا کہ ’’ناصر کاظمی کے کلام میں جہاں اُن کے دکھوں کی داستان، زندگی کی یادیں، نئی اور پرانی بستیوں کی رونقیں، ایک بستی سے بچھڑنے کا غم اور دوسری بستی بسانے کی حسرتِ تعمیر ملتی ہے، وہیں وہ اپنے عہد اور اس میں زندگی بسر کرنے کے تقاضوں سے بھی غافل نہیں رہتے۔ ان کے کلام میں ان کا عہد بولتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔‘‘

ناصر کاظمی کی پیدائش 8 دسمبر 1925ء کو انبالہ میں ہوئی۔ ان کا اصل نام سیّد ناصر رضا کاظمی تھا۔ ان کے والد سیّد محمد سلطان کاظمی فوج سے وابستہ رہے تھے، اور والدہ کا تعلق بھی علم و کتاب سے رہا ہے، وہ پڑھنے پڑھانے سے تعلق رکھتی تھیں اور انبالہ کے مشن گرلز اسکول میں استانی تھیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ناصر نے پانچویں جماعت تک اسی اسکول میں تعلیم حاصل کی تھی۔ ناصر کاظمی نے ابتدا میں اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔

ناصر کاظمی نے اپنی شاعری کا آغاز یونیورسٹی کے زمانے میں کیا۔ ان کی پہلی غزل 1945ء میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے مسلسل شاعری کی، اور اپنی غزلوں کے ذریعے اردو ادب میں ایک خاص مقام حاصل کیا۔

ناصر کاظمی کی غزلوں میں عشق کا جذبہ بہت گہرا اور سچا ہے۔ وہ عشق کو ایک ایسی نعمت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو انسان کو زندگی میں ایک نیا معنیٰ دیتی ہے۔

مثلاً دیکھیے:

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

ناصر کاظمی کی غزلوں میں درد اور رنج کا بھی اظہار ملتا ہے۔ وہ زندگی کے دکھوں اور مصائب کو خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں انسانیت کے جذبات بھی ملتے ہیں۔ وہ مظلوموں اور بے کسوں کی دادرسی کرتے ہیں۔

اے دوست ہم نے ترکِ محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

ذرا سی بات سہی تیرا یاد آ جانا
ذرا سی بات بہت دیر تک رلاتی تھی

محرومِ خواب دیدۂ حیراں نہ تھا کبھی
تیرا یہ رنگ اے شبِ ہجراں نہ تھا کبھی
ہر چند غم بھی تھا مگر احساسِ غم نہ تھا
درماں نہ تھا تو ماتمِ درماں نہ تھا کبھی

ان کی مشہورِ زمانہ غزل کے چند اشعار کیا خوب ہیں:
نئے کپڑے بدل کر جائوں کہاں اور بال بنائوں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا مَیں باہر جائوں کس کے لیے
وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
اب ایسے ویسے لوگوں کے مَیں ناز اُٹھائوں کس کے لیے

یہاں ناصر کاظمی نے درد و غم اور کرب کو کیا خوب اور سہل انداز میں بیان کرکے آفاقی رنگ دیا ہے، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

ناصر کاظمی کی نظمیں بھی بہت خوبصورت اور معنی خیز ہیں جن میں سماجی مسائل کو بھی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ وہ اپنی نظموں کے ذریعے انسانیت اور بھائی چارے کی دعوت دیتے ہیں۔ وہ ایک اچھے انسان اور شاعر تھے۔ ان کی شاعری آج بھی اردو ادب میں ایک قیمتی سرمایہ ہے۔

ناصر کاظمی کی کتابوں میں دیوان (غزلیں) ’’برگِ نے (غزلیں)‘‘، ’’پہلی بارش (غزلیں)‘‘، ’’نشاطِ خواب (نظمیں)‘‘، ’’سُر کی چھایا (منظوم ڈراما)‘‘ اور ’’کلیات‘‘ جبکہ نثری کتب میں ’’خشک چشمے کے کنارے‘‘ اور ’’ڈائری… چند پریشاں کاغذ‘‘ شامل ہیں۔

ناصر کاظمی کی شاعری اور شخصیت کا اردو ادب اور ثقافت پر گہرا اثر پڑا ہے۔ ان کی شاعری نے اردو غزل کو ایک نئی روح دی۔ ان کی شخصیت نے اردو ادب میں انسانیت، دوستی اور تعلق کے جذبات کو فروغ دیا۔ وہ اردو ادب اور ثقافت کا ایک قیمتی سرمایہ ہیں جنہیں ہمیشہ اردو دنیا میں یاد رکھا جائے گا۔

حصہ