پیڑ بوئے ببول کا تو آم کہاں سے کھائے

452

مغلوں کے زوال کے وقت رئوسا اور نوابوں کے لڑکے مشہورِ زمانہ طوائفوں کے کوٹھے پر سلیقہ اور اخلاقیات سیکھنے جایا کرتے تھے۔ لکھنؤ اور دہلی کی گلیوں میں شام ڈھلے بن سنور کر خسرے چاندی کے طشت میں عورتوں کے مخصوص ایام کے کپڑے آوازیں لگا کر بیچا کرتے تھے۔

پاکستان جو لاکھوں قربانیوں کے بعد کلمے کی بنیاد پر وجود میں آیا شروع دن سے عیاش حکمران طبقے کی چرا گاہ بنا اور اب تو حد ہوگئی کہ بدنام زمانہ، سند یافتہ زانیوں، بدکاروں، خائنوں، بد دیانتوں اور لٹیروں کی پسندیدگی کا عالم یہ ہے کہ عوام کی ایک بڑی اکثریت ان کے لیے جان دینے کو تیار ہے، اور اس ملک میں ریاست کی سرپرستی میں ہر برائی کو پروان چڑھانے کی سند موجود ہے۔ حتیٰ کہ دین اور اسلامی انقلاب کی داعی جماعتیں بھی ان کی قیادت کے در پر حاضری دینے میں عار محسوس نہیں کرتیں، اور آٹھ دہائیوں سے اس ملک کے پلید سیاسی اور جمہوری نظام کے تحفظ کو اپنی سیاسی جدوجہد کا محور بناکر کوئلے کی کان کو اسلام کے نام پر سفید بنانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ انتخابات کے وقت تو ہر جماعت کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح سے ایسی جماعت سے ایڈجسٹمنٹ کرلے جو سب سے زیادہ عوامی مقبولیت رکھتی ہو، چاہے اس کا لیڈر کردار کا ’’ک‘‘ بھی نہ جانتا ہو۔

یہی اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ اللہ نے اپنی بخشی ہوئی نعمت پاکستان پر پاکستان کے نظریاتی انحراف کی وجہ سے بدکاروں کو مسلط کردیا اور ہم سے ہماری بصیرت و بصارت چھین لی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’دین میں کوئی جبر نہیں، اللہ نے نیکی اور بدی واضح کردی ہے، جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا گویا اُس نے ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی چھوٹنے والا نہیں۔ وہ سنتا ہے اور جانتا بھی ہے۔ جو اللہ پر ایمان لایا اور اس کو اپنا ولی بنایا تو اللہ اس کو اندھیروں سے نکال کر نور میں لے جاتا ہے۔ اور جس نے انکار کیا اور طاغوت کی دوستی اختیار کی، اللہ اس کی روشنی چھین کر اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے۔ یہی لوگ جہنمی ہیں جو اس میں ہمیشہ کے لیے ڈال دیے جائیں گے۔‘‘ (البقرہ)

یہ آیتیں دلیل ہیں کہ اسلام کے داعی اور اللہ کی رحمتوں کی متلاشی عوام جب تک طاغوت سے کنارہ کش ہوکر جدوجہد نہیں کریں گے، کامیاب نہیں ہوں گے۔

اے روحِ عصر جاگ کہاں سو گئی ہے تُو
آواز دے رہے ہیں پیمبر صلیب سے
اس رینگتی حیات کا کب تک اٹھائیں بار
بیمار اب الجھنے لگے ہیں طبیب سے

امریکا، یورپ اور دیگر ملکوں میں جنسی آزادی اور دیگر افعالِ قبیح کو آئین اور قانون کی چھتری حاصل ہے، لیکن ان ملکوں میں اگر کوئی سرکاری عہدے دار یا پارٹی کا سربراہ اس طرح کے اسکینڈل میں بدنام ہو یا جھوٹ بولتے پکڑا جائے تو وہ نہ صرف معافی مانگتا ہے بلکہ عہدے سے استعفیٰ دے کر گھر بیٹھ جاتا ہے۔ یورپ، امریکا اور جاپان کی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ مگر واہ ری مملکتِ خداداد پاکستان… یہاں بدنام زمانہ قومی مجرمان، سند یافتہ زانی اور جھوٹے آئے دن عوام کے ووٹوں سے اعلیٰ مناصب پر بٹھا دیے جاتے ہیں، بلکہ عوام کی کثیر تعداد ان کے لیے مرنے مارنے کو تیار رہتی ہے۔ جس طرح بردہ فروش اپنی عزت کو اپنی مرضی سے بازار میں بیچتا ہے، اسی طرح عوام بھی اپنی بربادی کا انتخاب خود کرتے ہیں۔

قرآن نے درست کہا ہے کہ ’’خشکی اور تری میں جو فساد ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔‘‘

دوسری آیت میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’انسان کو بڑا تھڑدلا پیدا کیا ہے، یہ جان بوجھ کر غلطی کرتا ہے، جب مصیبت آتی ہے تو جزبز ہوتا ہے، اور جب ٹل جاتی ہے تو اکڑنے لگتا ہے۔‘‘

کرنی کرے تو کیوں کرے اور کرکے پچھتائے
پیڑ بوئے ببول کا تو آم کہاں سے کھائے
ذرا سوچیے گا ضرور۔

آزادی کے 76 سال میں ہندوستان کی سرحدیں وسیع سے وسیع تر ہوگئیں، کیوں کہ وہاں کے حکمران اسے اکھنڈ بھارت بنانے کے راستے پر گامزن ہیں۔ کشمیر، گوا، حیدرآباد دکن، جونا گڑھ، سکم، دمن دیو پر قبضہ کیا۔ پاکستان کا مشرقی بازو کاٹ کر بنگلہ دیش کی صورت میں بھارت کی ایک طفیلی ریاست قائم کی۔ مگر پاکستان حکمرانوں اور محافظوں کے ہاتھوں کشمیر، مشرقی پاکستان، سیاچن گنوا چکا۔ ملک کی مایہ ناز ائرلائن PIA، اسٹیل مل، ریلوے اور دیگر صنعتی ادارے اور پاور سیکٹر غیر ملکی اداروں کو بیچے جا چکے ہیں یا بیچنے کی تیاری جاری ہے۔

تلہ گنگ دریا کا سونا جاپان نکالتا ہے، ریکوڈک کے سونے کے ذخائر اب عرب ممالک نکالیں گے، چاغی کے پہاڑوں میں تانبے اور چاندی کے ذخائر کا ٹھیکہ چین کے پاس ہے۔ زرعی زمینوں پر کاشت غیر ملکی سرمایہ دار کریں گے۔ IMF کا سودی قرض تو ہماری کئی نسلیں ادا کرتی رہیں گی۔ یہ تباہی اور بربادی ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ ایک شخص جو ساری زندگی گناہوں میں بسر کرتے کرتے اِس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے مگر اُس کے لواحقین قرآن خوانی، قل، سوئم اور چہلم کے ذریعے اسے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دلوانے کی دعا کرتے ہیں، ٹھیک ہم اسی طرح برے لوگوں کا انتخاب کرکے بھلائی کی امید رکھتے ہیں۔

قیصر روم کی فرمائش پر جب قوم نے عیسیٰ علیہ السلام کی جگہ بربا ڈاکو کو رہائی دلائی تو بربا نے رہا ہوکر لوگوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ قرآن کا حکم ہے۔ ’’ایمان والو! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانت اہلِ امانت کے سپرد کرو۔‘‘

اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ ’’ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔‘‘مگر ہم ہیں کہ اللہ کی حکم عدولی کرتے ہیں پھر رحمت کے طلب گار بھی ہیں۔ وہ رحمن اور رحیم ہے تو قہار و جبار بھی ہے۔ نعمتوں کی ناشکری کرنے والی اور باغی قوموں کی آبادیاں آج بھی روئے زمین پر نشانِ عبرت کے طور پر موجود ہیں۔
’’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘

حصہ