دنیا بہت نازک موڑ پر آگئی ہے۔ کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ ’’کچھ بھی ہوسکتا ہے‘‘ ہی تو ہے جس نے کسی بہت بڑے سانحے کو روک رکھا ہے۔ عالمی سیاسی و معاشی نظام کی چُولیں ہل چکی ہیں۔ امریکا اور یورپ نے مل کر دوسری جنگِ عظیم کے بعد، محض اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر، جو عالمی نظام ترتیب دیا تھا وہ اب فرسودہ ہوچکا ہے۔ دنیا بھر کے پس ماندہ خطوں کو ترقی سے ہم کنار کرنا ممکن نہیں ہو پایا۔ عالمی سیاسی و معاشی نظام صرف مغربی مفادات کا نگہبان رہا ہے۔ اِس کے نتیجے میں پس ماندہ خطوں کی پس ماندگی بڑھتی گئی ہے اور اب دنیا بھر میں مغرب کے حوالے سے شدید تنفر پایا جاتا ہے اور اس معاملے میں امریکا ناپسندیدگی کے گراف پر زیادہ بلند ہے۔
بڑی طاقتوں کے درمیان طاقت کے حوالے سے کشمکش بڑھتی جارہی ہے۔ ایک طرف امریکا اور یورپ کی طاقت میں کمی واقع ہو رہی ہے اور دوسری طرف چین تیزی سے ابھر رہا ہے۔ چین کی معاشی قوت زیادہ ہے۔ وہ اب ہائی ٹیک اور اسٹریٹجک معاملات میں بھی اپنے آپ کو منوانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ طاقت کا توازن تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ مغرب کا دور جارہا ہے اور مشرق یعنی ایشیا کا دور آرہا ہے۔ چین کی غیر اعلانیہ قیادت میں ایک نیا پاور بلاک ابھر رہا ہے۔ چین اپنی طاقت میں غیر معمولی اور تیز رفتار اضافہ چاہتا ہے۔
جب چند بڑی طاقتیں آپس میں ٹکراتی ہیں تو اُس کے اثرات پوری دنیا میں محسوس کیے جاتے ہیں۔ بہت کچھ الٹ پلٹ جاتا ہے۔ چھوٹے، کمزور اور پس ماندہ ممالک کے لیے یہ وقت بہت نازک ہوتا ہے کیونکہ اُن کے لیے یہ طے کرنا انتہائی دشوار ہوتا ہے کہ کس کے ساتھ رہیں اور کس کا ساتھ چھوڑیں۔
چین کی بڑھتی ہوئی وقت سے مغربی دنیا خائف ہے۔ چین نے معاشی معاملات میں اپنی گرفت بہت مضبوط رکھی ہے۔ امریکا اور یورپ کے لیے معاشی معاملات کو قابو میں رکھنا انتہائی دشوار ہوتا جارہا ہے۔ ہائی ٹیک میں غیر معمولی برتری کے باوجود دوسری بہت سی اشیاء و خدمات کے حوالے سے امریکا اور یورپ کی پوزیشن کمزور ہوتی جارہی ہے۔
مستقبل کے حوالے سے سوچنے اور لکھنے والوں کا خیال ہے کہ بہت جلد بڑی طاقتوں کے درمیان ایک بڑا تصادم رونما ہوسکتا ہے۔ چین کو گھیرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تائیوان کے معاملے میں چین کو مغربی طاقتوں نے بند گلی میں دھکیلنے کی کوششیں اب تک ترک نہیں کیں۔ اب کہا جارہا ہے کہ چین نے تائیوان کو مسخّر کرنے کی بھرپور تیاری کر رکھی ہے۔ بس مناسب وقت کا انتظار ہے۔)
…٭…
ایک عشرے قبل بیرونِ ملک رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کے پسندیدہ موضوع یعنی مستقبل کے امکانات اور ممکنہ منظر ناموں کے حوالے سے مارٹن واکر نے، جو ماسکو، واشنگٹن اور برسلز سے رپورٹنگ کرتا رہا تھا، معروف برطانوی روزنامہ گارجین میں لکھا تھا کہ چین متموّل ہونے سے پہلے بوڑھا ہوچکا ہوگا۔
چین کے آمرانہ نظامِ حکمرانی کی طرف سے آزاد منڈی کی معیشت کو مسترد کردیئے جانے اور معلومات کے آزادانہ تبادلے کا نظام لانے سے انکار کا صرف ایک مطلب تھا … یہ کہ چین کبھی اُتنی اور متوازن معاشی نمو پانے میں کامیاب نہ ہوسکے گا جتنی اُس کے پڑوسیوں جنوبی کوریا، ملائیشیا، جاپان اور تائیوان نے حاصل کی ہے۔ آزاد منڈی کی معیشت کو مسترد کرنے سے دولت کا غیر معمولی تناسب سے حصول ممکن ہی نہیں تھا اور یہی ہوا ہے۔
٭ چین معمر افراد کی بند گلی میں :
چین کو معاشی معاملات میں جن الجھنوں کا سامنا ہے اُن میں سب سے بڑی ہے معمر افراد کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد اور اُن کے لیے بڑھاپے میں کسی بنیادی مالیاتی سہارے کا نہ ہونا۔ آزاد منڈی کی معیشت والے کسی بھی اور (ترقی یافتہ) ملک میں اُتنے معمر افراد پنشن کے بغیر نہیں جی رہے جتنے چین میں جینے پر مجبور ہیں۔ لوگ یہ بات اکثر بھول جاتے ہیں کہ دنیا بھر میں معمر افراد کی سب سے تیز رفتار آبادی چین میں ہے۔ 2019 میں چین میں 60 سال سے زائد عمر کے افراد کی تعداد 21 کرور 90 لاکھ تھی۔ 2040 تک یہ تعداد 40 کروڑ 20 لاکھ ہوچکی ہوگی۔ یہ تعداد اس وقت کی پوری یورپی یونین کی آبادی سے صرف 4 کروڑ کم ہوگی۔ 2040 میں چین کی آبادی میں پنشن کی عمر کو پہنچنے والے افراد 28 فیصد ہوں گے۔ ان میں سے بہت کم کو پنشن مل سکے گی کیونکہ حکومت نے معمر افراد کے لیے پنشن کا نظام بنایا ہی نہیں۔ چین کے اشتراکی سیاست دان اس بات کو بھی پسند نہیں کرتے کہ سرکاری اور نجی ادارے فنڈز کی مدد سے پنشن کا نظام تیار کریں جیسا کہ بہت سے تری پذیر اور پس ماندہ ممالک میں ہوتا ہے۔ جمہوری معاشروں میں معمر افراد کے لیے تھوڑی بہت پنشن کا اہتمام ضرور کیا جاتا ہے تاکہ جب وہ کمانے کے قابل نہ رہیں تو کسی نہ کسی طور گزارا ہوتا رہے۔ اب ملک بھر میں لوگ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ اُن کا قائد، صدر شی جن پنگ، تائیوان پر حملے اور اُس کی تسخیر سے قبل بوڑھا ہوگا یا نہیں۔
٭2027 : انتہائی خطرناک سال :
چینی صدر شی جن پنگ کے لیے 2027 بہت اہم سال ہے۔ اِس سال چین کی پیپلز لبریشن آرمی اپنے قیام کی 100 ویں سالگرہ منارہی ہے۔ تب تک صدر شی جن پنگ کی بحیثیت صدر تیسری میعاد بھی ختم ہوچکی ہوگی۔ تب وہ 73 سال کے ہوچکے ہوں گے۔ ہاں، جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ سے تو وہ خاصے چھوٹے ہوں گے۔ چینی فوج کی 100 ویں سالگرہ منانے کا چینی قائدین کی نظر میں اس سے اچھا طریقہ کیا ہوسکتا ہے کہ جسے وہ اپنے ملک کا ناگزیر حصہ گردانتے ہیں اُس تائیوان کو مسخّر کرلیا جائے؟
اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ تائیوان کی حکومت گرتے ہوئے معیارِ زندگی کو بلند کرنے میں کامیاب ہوسکے گی یا نہیں۔ ایک عشرے سے چین شی جن پنگ کے تصرّف میں ہے۔ ایک طرف تو چین میں بڑھتے ہوئے معمر افراد کے لیے کچھ خاص نہیں کیا جارہا اور دوسری طرف چینی نوجوانوں میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ مئی 2023 تک چین کے شہری علاقوں کے نوجوانوں میں بے روزگاری کا تناسب 21 فیصد تک پہنچ چکا تھا۔
ڈینگ ژیاؤپنگ کے دور میں چین میں اشتراکیت اور کھلے بازار کی معیشت کے نظام کا ملاپ ہوا۔ نجی اداروں کو پنپنے کی گنجائش دی گئی اور یوں لوگوں نے سرکاری اداروں سے ہٹ کر بھی کام شروع کیا۔ اس کے نتیجے میں چین میں متوسط طبقات پیدا ہوئے۔ ان طبقات کے لیے تھوڑی بہت ایسی خوش حالی کا اہتمام ہوا جس کا چین میں پہلے تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اب متوسط طبقات کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُن کی خوش حالی برقرار نہ رہ سکے گی۔ چین میں معیارِ زندگی برقرار رکھنا اس لیے ممکن نہیں ہو پارہا کہ بلدیاتی ادارے شہروں اور قصبوں کو چلتا رکھنے کے لیے اپنی اپنی زمینیں بیچتے آئے ہیں۔
اس وقت چین میں ہاؤسنگ اور تعمیرات کا شعبہ انتہائی نوعیت کی مشکلات سے دوچار ہے۔ تعمیراتی اداروں اور بینکوں کے درمیان مکانات کی تعمیر کے لیے جاری کیے جانے والے قرضوں کے حوالے سے حالیہ محاذ آرائی نے چین میں اور اُس سے باہر اعتماد کو شدید مجروح کیا ہے۔ اس مفروضے کی موت واقع ہوچکی ہے کہ کبھی مارکیٹ اٹھے گی اور کبھی بیٹھے گی اور اس کے نتیجے میں کچھ لوگ زیادہ مال دار ہوتے ہی رہیں گے۔ چین میں کاروباری معاملات کے حوالے سے شفافیت ہے نہ جوابدہی کا نظام۔ وہاں کھلے بازار کے سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی اصولوں کا فقدان ہے۔ کھلے بازار کی معیشت والے ممالک میں غیر سرکاری میڈیا اور پرائیویٹ شیئر ہولڈرز کا مفاد بہت مضبوط ہوتا ہے۔ وہ ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے چیف ایگزیکٹیو آفیسرز کو نکال باہر کرتے ہیں۔ چین میں برابری کی بنیاد پر کچھ کرنے کا مطلب ہے طاقتور سیاسی روابط کے حامل اشتراکی سیاست دانوں سے تصادم۔ ایسے میں اس بات پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ کاروباری اداروں، صوبوں اور شہروں کی ناقص کارکردگی کے بارے میں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
٭ ذہین نوجوانوں کا انخلا :
چین کے متموّل افراد اپنی دولت کے علاوہ اولاد کو بھی بیرونِ ملک بالخصوص مغرب منتقل کر رہے ہیں۔ امریکا، آسٹریلیا، کینیڈا، برطانیہ اور یورپی یونین کی جامعات کے کیمپس کا طائرانہ جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ چین کی نئی نسل اپنے ملک سے دور رہنا کس حد تک پسند کرتی ہے۔ بیجنگ ملک سے دولت کے غیر قانونی انخلا کو روکنے کے لیے سخت تر اقدامات کر رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں کچھ بہتری آنے کے بجائے نئی، دولت پیدا کرنے والی اشرافیہ اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے ناقابلِ اصلاح مردہ دل سیاست دانوں کے درمیان تفاوت بڑھتا ہی جارہا ہے۔
چین میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے جو حکومتی نظام سے خوش نہیں۔ یہ لوگ حکومت کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔ 1980 اور 2020 میں چین کے اشتراکی حکمرانوں نے یہ پیکیج پیش کیا کہ جو بھی نظامِ حکومت کے لیے خطرہ نہ بنے وہ ترقی کرسکتا ہے، مال دار ہوسکتا ہے۔ یہ پیکیج اب کارگر نہیں رہا۔
اگر کوئی سپریم لیڈر ایک بڑی فوج کے ساتھ اقتدار میں ہو مگر اپنے لوگوں کی خوش حالی یقینی نہ بنا سکتا ہو اور نہ ہی انہیں جمہوری معاشروں والی آزادیاں اور حقوق دے سکتا ہو تو لوگ کہانی بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اس کام کے لیے وہی جذبہ دکھائی دیتا ہے جو کھوئی ہوئی سرزمین کا دوبارہ حصول یقینی بنانے کے لیے درکار ہوا کرتا ہے۔
٭ 2027 میں عظمت بحال کرنے کی سرگوشیاں :
دنیا بھر میڈیا میں یہ افواہ گردش کر رہی ہے کہ چینی قیادت ممکنہ طور پر 2027 میں عظمتِ رفتہ بحال کرنے کی خاطر کچھ ایسا کرنا چاہے گی جو عوام کو بھی خوش کردے۔ تائیوان کو چین اپنا کھویا ہوا یا منحرف صوبہ قرار دیتا آیا ہے۔ دنیا بھر کے مبصرین اور تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ چین 2027 میں تائیوان پر حملہ کرکے اُسے دوبارہ اپنا حصہ بنانے کی حد تک جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے اور تائیوانی حکومت نے انتباہ جاری کیا ہے۔ بہت سے مبصرین کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے اس نوعیت کی باتیں کرکے امریکا تائیوان کو بڑے پیمانے پر اسلحہ فروخت کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔
٭ مغرب کا کمزور عزم :
مغرب نے یوکرین جنگ میں اپنا وہ کردار ادا نہیں کیا جس کی توقع کی جارہی تھی۔ مغربی دنیا میں اس بات پر زور دیا جارہا ہے کہ یوکرین اور روس کے معاملے میں اسی نوعیت کا امن معاہدہ ہونا چاہیے جیسا جزیرہ نما کوریا کے حوالے سے منصۂ شہود پر آیا۔ اب یہ حقیقت بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ جمہوری دنیا میں کسی نئی جنگ کے چھیڑنے کی خواہش ہے نہ طاقت۔ جمہوری دنیا اب اس نکتے پر بالکل عمل پیرا نہیں کہ اگر آپ کو امن چاہیے تو جنگ کی تیاری کیجیے۔ کورونا کی وبا کے دوران سرکاری سطح پر جو کچھ بھی خرچ کیا گیا تھا اس کے اثرات سے نپٹنے کے عمل میں یورپ کی کوئی بھی حکومت دفاع کے حوالے سے زیادہ خرچ کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں۔ یورپی یونین نے اب تک اسلحے کی خریداری کے حوالے سے کوئی بھی یکساں پالیسی تیار نہیں کی ہے۔ ہر یورپی قوم اپنی اسلحہ سازی کی چھوٹی سی صنعت کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔
برطانیہ کے پاس جنگ کے لیے تیار فوجیوں سے سات گنا زیادہ افراد جیلوں میں ہیں۔ یورپ کو کسی بھی ملک کی طرف سے حملے کا خطرہ نہیں۔ یورپی قائدین اب عراق، شام، لیبیا اور صحرائے صحارا کے زیریں علاقوں کے ممالک سے آنے والی پناہ گزینوں کو سب سے بڑے حملے کا درجہ دیتے ہیں۔
٭ کوریا اور جاپان کے خوابیدہ عِفریت :
امریکا نے کوریا اور جاپان میں فارورڈ فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں۔ 1941 میں پرل ہاربر میں بھی ایسا ہی تھا۔ اگر چینی صدر شی جن پنگ تائیوان کو بزور حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں تو انہیں مشرقی ایشیا میں امریکی فوجیوں کو غیر موثر کرنا ہوگا۔ اور ایسی کوئی بھی کوشش تیسری عالمی جنگ چھیڑ سکتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسی کسی بھی نازک صورتِ حال کو کیونکر ٹالا جائے۔ جنوبی نصب کُرّے کے ممالک کی اکثریت جمہوریت مخالف سیاسی اشرافیہ کے دستِ تصرّف میں ہے۔ یہ اشرافیہ اپنی خراب معاشی کارکردگی کو چھپانے کے لیے معاملات کو کچھ کا کچھ بناتی رہتی ہے۔ شمال کی یورو اٹلانٹک کمیونٹی ترقی یافتہ جمہوریتوں کی شکل میں موجود ہے مگر جنوبی خطے کے ممالک کو اِن ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ مل کر چلنے میں الجھن محسوس ہوتی ہے۔ ایسے میں خاموشی سے 2027 کا انتظار کیجیے جو انتہائی دشوار سال ثابت ہوسکتا ہے۔