غزہ اور حماس سے متعلق سوشل میڈیا پروپیگنڈا

705

60 دن کے بڑے سبق:
سوشل میڈیا پر ’ابوعبیدہ‘ ہفتے بھر سے مستقل ٹرینڈ لسٹ میں موجود رہا ہے۔ وجہ اس کی یہ بھی ہے کہ ناجائز اسرائیل نے دوبارہ حملے شروع کردیے اور تباہی کی نئی تاریخ رقم کردی۔ ناجائزاسرائیل کی صاف اور واضح شکست پر کسی کو کوئی شک نہیں، مگر میں حیرت زدہ ہوں کہ یہ بولنے کی ہمت کسی میں نہیں ہورہی۔ 60 دنوں میں اسرائیل نہ حماس کو ختم کرسکا اور نہ ہی اپنا ایک مغوی ڈھونڈ سکا۔ وہ یہی دو دعوے لے کر جنگ میں کودا تھا، مگر اسے کوئی نتیجہ نہیں ملا۔ اس کی ساری آرٹی فیشل انٹیلی جنس، سارے سیٹلائٹ، ساری ٹیکنالوجی، سارے کیمرے فیل ہوگئے اور وہ جھوٹی خبروں سے آگے نہ جا سکے۔ یہ شکست نہیں تو اور کیا کہلائے گی؟ اللہ کی اس سے بڑی مدد اور کیا کوئی دیکھنا چاہے گا!

اسرائیل حماس جنگ کا یہ 60دن کا دورانیہ عرب اسرائیل اور ماضی کی تمام جنگوں پر طوالت لے چکا ہے۔ 1973ء میں اسرائیل کے ساتھ آخری جنگ صرف 19 دن چلی، اس سے پہلے 1967ء میں ہونے والی جنگ صرف 7 دن، اور اس سے پہلے 1956ء والی جنگ صرف 9دن تک چلی۔ یہ ساری عرب اسرائیل جنگیں کہلاتی ہیں، یعنی ان میں 5 عرب ممالک اسرائیل سے لڑے۔ اہم بات یہ ہے کہ اِن سب جنگوں میں عرب ممالک کے پورے اتحاد کو ہی شکست ہوئی۔ اصل میں یہ سارے ممالک اسرائیل سے مقابلے پر ہونے والی ترقی کی تباہی برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔ مگر یہ معاملہ ایک مقامی تنظیم کے دُنیا کے سب سے طاقتور ممالک سے لڑنے کا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی کیس ہے جیسے افغانستان میں ایک اکیلی تنظیم طالبان، جس سے سب ہاتھ اٹھا چکے تھے اور وہ حماس سے بھی زیادہ اکیلے ہوچکے تھے، لیکن اُنہوں نے تن تنہا امریکا اور اُس کے ساتھ 44 ملکوں کی فوج کا مقابلہ کیا اور ہماری آنکھوں کے سامنے ہی شکست دی۔ اس لیے پہلا سبق بہت واضح ہے کہ اہلِ حق کے لیے تعداد کبھی مسئلہ نہیں رہی، اہلِ حق کے پاس علم اور ٹیکنالوجی کی کمی کبھی مسئلہ نہیں رہی، اہلِ حق کے لیے دنیا بھر کا ساتھ نہ ہونا کبھی مسئلہ نہیں رہا۔ میدان میں جانا ہی واحد کام ہے، پھر مدد جس کی ذمہ داری ہے وہ دے دیتا ہے۔

دوسرا سبق:
اِس لیے ’نادان لوگ‘ تو اللہ کی کسی مدد کو سمجھ ہی نہیں سکتے، کیونکہ یہ تو اللہ کو ہی نہیں سمجھتے۔ اِن لوگوں کو نہ اہلِ غزہ اور اہلِ فلسطین کا صبر نظر آتا ہے، نہ یہ صبر و عزیمت کی اس کیفیت کو سمجھ سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بے شمار وڈیوز آ پ نے دیکھی ہوں گی، جن میں مسلمان اپنے پیاروں کی لاش کے سرہانے بیٹھ کر تلاوت کر رہے ہوں گے، کوئی تباہ شدہ گھر کے ملبے پر بیٹھا تلاوت کر رہا ہوگا۔ وہ جو عربی میں دعائیں اور اشعار پڑھتے ہیں، صحافی پوچھتے ہیں جب اس تباہی کے بارے میں، تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے، ہمیں اللہ پر یقین ہے، وہی ہماری مدد کرے گا۔ کبھی ان الفاظ کے معانی دیکھیں تو یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ وہ کون سی طاقت ہے جو اِن لوگوں کو ایک انچ بھی نہیں جھکا پارہی، رائی برابر بھی کمزور نہیں کر پارہی۔ وہ ڈٹ کر اسرائیل کے ہر ظلم کا سامنا کررہے ہیں اور حماس کے ساتھ کھڑے ہیں، جس کے خلاف عالمی پروپیگنڈا جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ نظم انتہائی مقبول رہی، جو پہلے ڈاکٹروں کی زبانی پڑھنے پر وائرل ہوئی، اس کے بعد پھر مسلمان صحافیوں نے غزہ میں عین بمباری کے ماحول میں بیٹھ کر یہ عزم دہرایا، جس کی وڈیو ایمانی جذبات بڑھا گئی۔ اس عربی نظم کے ترجمے کے الفاظ آپ کے ایمانی جذبات کو بڑھانے کے لیے پیش ہیں:

’’ہم یہاں پر ہی رہیں گے۔ ہم یہاں پر ہی رہیں گے۔ اورتمام تکالیف ختم ہوجائیں گی۔ ہم یہاں زندہ رہیں گے۔ ہم یہاں زندہ رہیں گے۔ تاکہ آوازیں مزید اچھی ہوجائیں۔ اے میرے وطن، اے میرے خوبصورت وطن! میں حاضر ہوں۔ دشمن کی چال اور انتقام کے باوجود… ہم غالب رہنے کی کوشش کریں گے۔ ہم ابھرتے مستقبل کو ضرور دیکھیں گے… کامیابی اور بلندی کی طرف بڑھتے ہوئے۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں جو بیماری کے باوجود جدوجہد کررہے ہیں۔ آگے بڑھیں اپنے واضح مقصد کی طرف۔‘‘

اِس لیے یہ دوسرا سبق ہے کہ اہلِ حق، حق کے راستے کی ہر آزمائش کو سہتے ہیں، استقامت دکھاتے ہیں، ’’صبر‘‘کے ساتھ ’’ثم استقامو‘‘ کے بدلے بھی اللہ نے ’’فرشتوں کی مدد‘‘ کا وعدہ کیا ہے۔

تیسرا سبق:
دوسری طرف حال یہ ہے کہ آج ہی سوشل میڈیا پر یہ وڈیو اور خبریں دیکھنے کو ملیں (بحوالہ ترکی اخبار یانی شفک) کہ 30 آسٹریلوی خواتین نے صرف غزہ کی صورتِ حال میں مسلمانوں کا عزم و حوصلہ، استقامت و ایمان دیکھ کر اسلام میں دلچسپی لی اور مطالعے کے بعد اسلام قبول کرلیا۔ قبولِ اسلام کی یہ تقریب میڈو ہائٹس (میلبورن) میں منعقد ہوئی۔ یہی نہیں، کئی امریکی ٹک ٹاکرز نے فلسطینی مسلمانوں کی وڈیوز سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا (بحوالہ الجزیرہ۔ العربیہ)۔ برطانوی اخبار دی گارجین کے مطابق TikTok پر نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ایک ایسے مذہب کو سمجھنے کے لیے خود کو قرآن میں غرق کررہی ہے جسے اکثر مغربی میڈیا نے غیر منصفانہ طور پر پیش کیا ہے۔ ہیش ٹیگ ’’قرآن بک کلب‘‘ کے تحت وڈیوز نے 1.9 ملین کمنٹس حاصل کیے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین اپنے فہم کے مطابق فخر کے ساتھ اپنے نئے حاصل کردہ قرآن کی نمائش کررہے ہیں اور اس کی آیات کے ساتھ اپنے ابتدائی تجربات بھی شیئر کررہے ہیں۔ غزہ کے مسلمانوں کی صورت حال دیکھ کر قرآن مجید اور اسلام میں یہ دلچسپی مرد، خواتین سب میں یکساں محسوس ہورہی ہے۔ Yale کی ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر زرینہ گریوال کا کہنا ہے کہ لوگ مخصوص جغرافیائی سیاسی واقعات کو سمجھنے کے لیے قرآن کی تلاش نہیں کررہے ہیں بلکہ مسلمان فلسطینیوں کی طرف سے ظاہر کی گئی ایمانی استقامت، اخلاقی طاقت اور کردار کو سمجھنے کے لیے تلاش کررہے ہیں۔ اب یہ سارے ٹک ٹاکرز ہی سب سے زیادہ اسکرین سے جڑے ہوتے ہیں، ان کے پاس اس سب مواد کی بمبارٹمنٹ ہوتی ہے تو وہ اس کو دیکھ دیکھ کر یا تو سنگ دل ہوں گے یا پھر دل نرم ہوں گے اور وہ حقیقت کی تلاش چاہیں گے جو اُنہیں دینِ حق تک لے جاتی ہے۔ اصل میں مغرب کا انسان اندر سے اتنا کھوکھلا ہوچکا ہے کہ وہ ایسی کسی حقیقی کیفیت کو نہ دیکھ سکتا ہے اور نہ سمجھ سکتا ہے۔ اس کے نزدیک ایسی اخلاقی صفت جو انسان میں ایسی قوت پیدا کردے کہ وہ اپنے پیاروں کی لاشوں کے بعد بھی سینہ سپر ہوکر کھڑا رہے، یہ کوئی انہونی سی بات ہے۔ اس لیے وہ ان کو اندر سے متوجہ کررہی ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟

پس 60 روز کی جنگ میں یہ بات تیسرے سبق کی صورت عیاں ہے کہ پوری دنیا جو اپنے خالق و مالک کو بھول کر عیش و عشرت، نفس پرستی اور رنگینی میں ڈوبی ہوئی تھی، اُن سب کو اللہ رب العالمین نے اپنی حقانیت، اپنی خلّاقیت، اپنی شانِ ملکیت، اپنی الوہیت، اپنی موجودگی کی یاد دہانی کرائی ہے۔

چوتھا سبق:
اہلِ حق کے ساتھ جب آپ کھڑے ہوں گے تو اہلِ باطل اپنے بیانیوں کے ساتھ صاف نظر آنا شروع ہوجائیں گے۔ سوشل میڈیا پر ایسے بیانیوں کو فروغ دینے والوں کو دیکھ کر آپ بخوبی سب کو پہچان سکتے ہیں، شرط یہ ہے کہ آپ کا اپنا ’’ایمانی کھونٹا‘‘مضبوط ہو۔ اگر آپ خود ’اہلِ باطل‘ کے نظریات سے مرعوب ہوں گے تو اُن کے ہی کیمپ میں چلے جائیںگے۔

اب ذیل میں ہم سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے کچھ بڑے بیانیوں کا پوسٹ مارٹم کرنے جارہے ہیں، تاکہ آپ سوشل میڈیا پر اور ویسے بھی دونوں گروہوں کو پہچان سکیں، فرق کر سکیںکہ کون اہلِ باطل ہیں؟ اور کون اہلِ حق ہیں؟ یہ ہے وہ چوتھا سبق جو اس 60 دن کی جنگ میں حق و باطل کی تفریق کرنے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اس کو میں اگلی سطور میں ’دجل‘کے عنوان سے لکھوں گا۔

دجل1:’’اسرائیل کو ایسی کوئی شکست نہیں ہوئی۔ یہ سب تو حماس نے اسرائیل کے کہنے پر کیا ہے، تبھی تو وہ جنگ کو لمبا کررہی ہے، اور ابھی تک حماس کے نہ کمانڈر پکڑے، نہ سرنگ، اور نہ قیدی چھڑائے۔ اس کا مقصد اسرائیل کا غزہ پر قبضہ کرنا ہے، جو وہ حماس کے ساتھ مل کر کررہا ہے۔ یہ سب اندر سے ملے ہوئے ہیں۔ بس افسوس یہ ہے کہ بے گناہ معصوم بچے، خواتین و انسانیت ماری جا رہی ہے۔‘‘ اس پوری جنگ کی یہ مضحکہ خیز تعبیرسن کر قہقہہ لگانے کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

دجل 2: ’’غزہ کی تباہی اور معصوم جانوں کی ذمہ دار حماس ہے۔ حماس اگر حملہ نہ کرتی تو سب اچھا تھا، امن تھا، سکون تھا۔‘‘

دجل 3: ’’اسرائیل کو بھی تو دفاع کا حق ہے، حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس نے غزہ کے لوگوں کو بزور طاقت اپنے جبر میں رکھا ہوا ہے، تاکہ دنیا بھر سے فنڈنگ لے کر اس جنگ کو زندہ رکھ سکے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کشمیر میں ہماری فوج بجٹ کی خاطر ایشو کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔‘‘

دجل 4: ’’فوری جنگ بندی ہونی چاہیے۔‘‘

دجل 5: معصوموں، بے گناہ انسانوں کو نہیں مارنا چاہیے۔‘‘

دجل 6: ’’یہ سب زیر زمین تیل و معدنیات پر قبضے کے لیے ہو رہا ہے۔‘‘

دجل 7: ’’غزہ کا کنٹرول فلسطینی اتھارٹی کو ملنا چاہیے۔‘‘

دجل 8: ’’اگر 1948ء میں ہی اسرائیل کو تسلیم کرلیا جاتا تو یہ خونریزی نہ ہوتی۔ دُنیا امن سے رہتی۔‘‘

دجل9: ’’دو ریاستی فارمولا ہی مسئلے کا حل ہے۔ یعنی ایک اسرائیل، ایک فلسطین۔‘‘

دجل 10: ’’انسانیت کی خاطر ہمیں نکلنا چاہیے، عالمی برادری کو کچھ کرنا چاہیے۔‘‘

یہ 10 دجل اتنے معروف ہیں بیانیے کی اس جنگ میں کہ آپ کو یہ پڑھ کر ضرور یقین ہوگیا ہوگا کہ میں نے کیوں اِن بیانیوں کو ’دجل‘ کہا ہے۔

اب چند اہم بنیادی حقائق سمجھ لیں تاکہ اِس سارے دجل سے محفوظ رہ سکیں۔

1: اِس میں شک نہیں ہونا چاہیے کہ سرزمینِ فلسطین پر یہودی قابضین کی صورت میں ہیں، جنہیں عالمی میڈیا میں بھی باقاعدہ ’سیٹلرز‘ لکھا، پڑھا اور پکارا جاتا ہے۔

2: امریکہ اور اسرائیل نے اِس پوری جنگ کو مذہبی قرار دیا ہے، وہاں کے مذہبی رہنما مستقل اپنے فوجیوں کو ’’مذہبی تقاضا‘‘کہہ کر مسلمان بچوں، عورتوں، مردوں سب کے قتل پر اُبھار رہے ہیں۔

3:ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ کی زمین پر کوئی زبردستی قابض ہوجائے اور اس کو الگ ملک بنالے۔اسلام تو آگے کی بات ہے خود اقوام متحدہ وغیرہ کے قوانین میں بھی ایسا ممکن نہیں۔

4: اب جو کوئی ایسا کرے گا اُس کے خلاف اپنی زمین واپس لینے کے لیے ہر ممکن طاقت، سفارت، سیاست، معیشت یعنی ہر ذریعہ، ہر طریقہ استعمال کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔

5: حماس سے قبل یہ مزاحمت الفتح کرتی رہی ہے، جو بعد ازاں اپنے سوشلسٹ نظریات کی وجہ سے امریکی و یہودی آلہ کار کی شکل اختیار کرگئی۔

6: حماس 1987ء میں اپنے قیام سے ہی دینی نظریات کی بنیاد پر مزاحمت کررہی ہے، دینی نظریات نے ہی اس کو زندہ اور کھڑا رکھا ہوا ہے۔

7: جنگ بندی کا مطلب تو دونوں کا جنگ روکنا ہوتا ہے۔ جبکہ ہم یکسو ہیں کہ حملہ آور صرف اسرائیل ہے، اسے رکنا چاہیے۔ حماس تو اصل میں اپنی زمین واپس چاہتی ہے، اس کے لیے وہ جدوجہد کررہی ہے، جس کا اُسے حق ہے۔

8: 1948ء میں اسرائیل کا رقبہ چاہے ایک انچ ہی کیوں نہ ہوتا، اس کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ تھا کہ کوئی بھی کسی کی زمین پر جا کر اپنا ملک بنا لے۔ یہ متضاد نظریات رکھنے والوں، ازلی دشمنوں کے درمیان تو ممکن نہیں۔ خلافت کے خاتمے پر عربوں کے درمیان تو الگ ملک بن گئے اس لیے کہ سب ایک ہی مذہب و عقیدے پر تھے اور قبضے کا کوئی تنازع نہیں تھا۔ لیکن یہود کا معاملہ اس سے بالکل الگ تھا۔ اسرائیل کو کسی صورت ماننے کا مطلب پاکستان کے لیے بھی کشمیر سے ہاتھ دھولینا ہے۔

9:انسانیت، فی زمانہ ’ہیومینٹی‘کے معنی میں ایک غیر اسلامی اور باطل تصور ہے۔ اِس تصور کی بنیاد یوں بھی کھوکھلی ہوجاتی ہے کہ اگر انسانیت کے نام پر ہی سب کو نکلنا ہے تو کیا وہ یہودی انسان نہیں جنہیں حماس نے مارا ہے؟ اس لیے اپنی نہاد میں یہ ایک باطل تصور ہے۔

10: اِسی طرح جو لوگ عام شہریوں کو نہ مارنے کی بات کرتے ہیں تو وہ بین السطور یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ صرف اُس کو مارو جو آپ کو مار رہا ہے، یعنی حماس کو مارو۔

11: حماس کی مقبولیت کا حال یہ ہے کہ وہ 2007ء میں وہاں صرف الیکشن ہی نہیں جیتی تھی بلکہ 2008ء- 2012ء- 2014ء- 2021ء- 2023ء میں مستقل بمباریوں کے باوجود آج بھی غزہ کے عوام کے دلوں میں بستی ہے۔ باوجود منفی پروپیگنڈے کے، حماس سے متعلق تمام وڈیوز، تمام سروے یہی بتا رہے ہیں کہ عوام حماس کے ساتھ ہی کھڑے ہیں، جس کو یہ دہشت گرد اور جبر ی حکومت کہتے ہیں۔

حصہ