26 نومبر2023 کو، اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی دوسری کھیپ میں جواں ہمت فلسطینی خاتون اسراء جعابیص کو بھی رہائی مل گئی،انہیں 8 سال بعد رہا کیا گیا اسرائیلی عدالت نے انہیں جھوٹے مقدمے میں 11 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
تفصیلات کے مطابق جعابیص کی رہائی کے لیے ان کے اہل خانہ اور کئی تنظیموں کی جانب سے مہم چلائی گئیں مگر اسرائیل نے کسی مطالبے پر کان نہیں دھرے، رہائی کے بعد میڈیا پرانہیں اپنے 15 سالہ بیٹے معتصم سے گلے ملتے ہوئے دکھایا گیا، معتصم اپنی ماں کی حراست کے وقت آٹھ سال کا تھا۔
سوشل میڈیا پر گرفتاری سے پہلے اور بعد اسراء اور اس کے بیٹے کی تصویر کا موازنہ کیا گیا۔سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ان کی رہائی کے حوالے سے کئی تبصرے کیے گئے جن میں ایک یہ تھا کہ جو کوئی نہ کرسکا وہ حماس کی مزاحمت نے کردکھایا۔
39 سالہ شیر دل فلسطینی خاتون اسراء جعابیص 22 جولائی 1984ء کو القدس (یروشلم) میں پیدا ہوئیں، جو نو بہنوں اور بھائیوں میں چوتھی تھیں۔ اسراء جعابیص نے یروشلم کے شمال میں واقع قصبے بیت حنینا کے نیشنل کالج میں تعلیم حاصل کی،انہوں نے اسپیشل ایجوکیشن میں ڈگری لی، وہ بچوں اور بوڑھوں کی فلاح و بہبود کا کام کرتی تھیں،ان کا ایک بیٹا معتصم ہے۔
11اکتوبر 2015ء کو اسراء اپنے 8 سالہ بیٹے معتصم کے ہمراہ جیریکو سے القدس کی جارہی تھیں ،ان کی کار میں روزمرہ استعمال کی اشیاء اور ایل پی جی گیس کا سلنڈر بھی تھا،راستے میں ان کی کارکے برقی نظام میں خرابی کی وجہ سے آگ لگ گئی،تھوڑی دیر بعد، ایک ریٹائرڈ اسرائیلی پولیس افسر ان کی رکی ہوئی گاڑی کے پاس سے گزرا۔
اس نے اپنی کار ان کے سامنے کھڑی کی اور ان سے شناخت مانگی، گاڑی سے گیس کی تیز بو آ رہی تھی،اسراء نے گاڑی سے باہر نکلنے کی کوشش کی مگر اس دوران کچھ اور اسرائیلی پولیس اہلکار آگئے،اسراء نے ایک بار پھر دروازہ کھول کر کار سے باہر نکلنے کی کوشش کی، لیکن ایک اسرائیلی افسر تیزی سے آیا اور اس کا ہاتھ کچلتے ہوئے اسے بند کر دیا۔
اسراء نے اس پر زور دیا کہ وہ اسے باہر جانے دے کیونکہ گاڑی کے اگلے حصے میں آگ بھڑک اٹھی تھی، مگر اسرائیلی پولیس اہلکاروں نے انکار کر دیا،جس کے نتیجے میں اسراء بری طرح جھلس گئیں۔
اسراء نے ایمبولینس کو بلانے کی کوشش کی، قابض پولیس اور ان کے سپاہی متحرک ہوگئے اور انہوں نے اس کی مدد کے لیے ایمبولینس کو آنے نہیں دیا۔ تاہم اسراء کو مدد ملنے کے بعد اور اسپتال لے جانے کے بعد بھی قابض فوجیوں نے ان کے پاؤں اور ہاتھ ایسے باندھ دیے جیسے وہ کوئی “مجرم” ہوں ۔
اسرائیلی پولیس نے ابتدائی طور پر اعلان کیا کہ یہ ایک عام ٹریفک حادثہ تھا، لیکن عبرانی میڈیا نے اس خبر کو قابض فوجیوں کو نشانہ بنانے کے طور پر پیش کیا، اسے دہشت گردی قراردیا اور اس حقیقت کے واضح ہونے کے باوجود کے ان کی کارمیں بارود نہیں گھریلو گیس سلنڈر تھا اسرائیلی انٹیلی جنس نے دعویٰ کیا کہ اسراء اسرائیلیوں کے خلاف ایک آپریشن کے لیے جارہی تھیں۔
اسپتال کے اندر سے اسراء جعابیص کے لیے کئی سیشن منعقد کیے گئے۔ صحت کی نازک حالت کی وجہ سے انہیں عدالت لے جانے میں دشواری کا سامنا تھا مگر اس کے باوجود ان پر اسرائیلیوں کو مارنے کا الزام عائد کیا گیا ۔
ایک سال تک اسرائیلی عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمہ چلتا رہا بعدازاں انہیں 11 سال قید اور 50,000 شیکل(اسرائیلی کرنسی) جرمانے کی سزا سنائی گئی۔یہ فیصلہ 7 اکتوبر 2016 ءکو جاری کیا گیا اور انہیں حشرون جیل منتقل کر دیا گیا۔اسراء کے گھر والوں کو اور ان کے بیٹے معتصم تک کو ان سے ملنے نہیں دیا گیا ۔
اسرائیلی حکام نے اسراء سے ہیلتھ انشورنس کارڈ واپس لے لیا، انہیں فوری طور پر کئی سرجیکل آپریشن کی ضرورت تھی مگر جان بوجھ کر علاج سے گریز کیا گیا،اسراء 8 سال تک تکلیف میں رہیں ۔
اسراء جعابیص نے 2023ء میں جیل میں رہتے ہوئے اپنی روداد پر مشتمل “درناک”کے زیر عنوان ایک کتاب بھی سپرد قلم کی جس کا انتساب انہوں نے اپنے بیٹے معتصم کے نام لکھا ہے جس میں وہ رقم طراز ہیں: “جب میرے قدم آپ تک نہیں پہنچ سکتے اور فاصلے مختصر ہونے کے باوجود طول پکڑتے ہیں، جب رات دن بن جاتی ہے اور دن رات بن جاتا ہے، جب لوہے کی سلاخیں ماں بیٹے میں ہجر کے فاصلے قائم کرتے ہیں اور بیٹا ماں کی آغوش سے محروم کردیا جاتا ہے، جب ایک ملزم مجرم بنا کرقید کردیا جاتا ہے،میری کتاب میں ایسا دکھ ہے جس کی اشاعت کی اجازت نہیں۔
اسراء جعابیص کا اکلوتا بیٹا معتصم یروشلم میں اپنی دادی اور خالہ کے ساتھ رہتا ہے، جبکہ ان کے شوہر ایک کار حادثے شدید زخمی ہوگئے تھے جس کے بعد وہ وہیل چیئر تک محدود ہوکر رہ گئے ۔معتصم کی عمراب 14 سال ہے۔
2018 ءمیں، اسراء جعابیص کے خاندان نے “Save_Israa” میڈیا مہم کا آغاز کیا، تاکہ اسراء کے مصائب سے نجات دلائی جا سکتے اور قابض جیل انتظامیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جائے،اسراء کی بہن نے بتایا کہ اسراء اپنے ساتھی اسیروں کی مدد کے بغیر اپنے دانت تک صاف نہیں کر سکتی، کپڑے نہیں پہن سکتی ،کھا نہیں سکتی ۔
جنوری 2018 ءمیں، اسراء جعابیص کی جانب سے اسرائیلی سپریم کورٹ میں ان کی خرابیء صحت کی وجہ سے رہائی کی درخواست دائر کی گئی مگر ان کی یہ درخواست مسترد کردی گئی۔جب صحافیوں نے اسراء سے ان کی صورتحال پوچھی تو اسراء نے جواب دیا: میرا جو درد ہے وہ سب کو نظر آرہا ہے،مجھے علاج معالجے کی سہولت فراہم نہیں کی گئی، جھوٹے مقدمات عائد کیے گئے یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنا چہرہ اور کٹی ہوئی انگلیاں صحافیوں کو دکھلائیں۔
منگل 2جنوری 2018 ءکو مختلف زبانوں میں ایک بلاگنگ مہم شروع کی گئی جس میں زخمی قیدی اسرا کی رہائی اور علاج کا مطالبہ کیا گیا۔اس مہم کا مقصداسراء کی تکالیف کو اجاگر کرنا اور اسرائیل کی جیل سے ان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالناتھا۔
اسراء کی رہائی کے لیے اور ان سے یکجہتی کے لیے بین الاقوامی فاؤنڈیشن ”صدامون“ 2021 میں بین الاقوامی مہم کا آغاز کیا گیا،اس مہم میں مطالبہ کیا گیا کہ اسراء کی آنکھوں اور چہرے کے آٹھ فوری آپریشن فی الفور کرائے جائیں۔
2021 ءمیں، اسراء جعابیص کے خاندان نے اپنی بیٹی کے کیس کو ختم کرنے کی کوشش کی، اور پھراسراء کے بیٹے معتصم نے اپنی ماں کی تصویر والی ٹی شرٹ پہنے ایک ویڈیو کلپ جاری کی جس میں اس نے بتایا کہ میری ماں کو سرجیکل کے 8 مراحل سے گزرنا تھا تاکہ ان کی زندگی برقرار رہ سکے مگر اسرائیلیوں نے اس کی اجازت نہیں دی ۔
2022 ءمیں، ڈاکٹروں نے ایک آپریشن کرنے کے لیے انسانی حقوق کی بنیاد پر ایک درخواست جمع کرائی مگر اسے بھی مسترد کردیا گیا پھر اسرائیلی سپریم کورٹ نے مرکزی عدالت کے فیصلے کے خلاف جمع کرائی گئی اپیل کوبھی مسترد کر دیا۔