حماس کیا ہے؟

756

حماس ایک طرزِ حیات ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ صرف حماس کی قیادت اور کارکن ہی نہیں حماس کے متاثرین بھی اپنے معنی کو اچھی طرح یاد کیے ہوئے ہیں۔

آپ حماس کو ایک تنظیم سمجھتے ہیں؟ غلط۔ حماس تنظیم نہیں ایک ’’طرزِ حیات‘‘ ہے۔ حماس ابتدا میں ایک تنظیم تھی مگر اس کی قیادت نے مزاحمت کو ایک طرزِ زندگی بنادیا۔ تقریریں کرکے نہیں‘ صعوبتیں جھیل کر اور قربانیاں دے کر۔ خدمت اور مزاحمت کو یکجا کرکے۔ اس نمونے اور اس ماڈل میں بلا کی ذہانت موجود ہے۔

تو حماس ایک طرزِ حیات ہے؟ مگر اس کے معنی کیا ہیں؟ اس کے معنی یہ ہیں کہ حماس کے لیے مزاحمت کوئی ’’پارٹ ٹائم جاب‘‘ نہیں ہے‘ پوری زندگی ہے۔ اس کی فکر بھی یہیں سے آتی ہے‘ دلیل اور منطق بھی یہیں سے برآمد ہوتی ہے اور عمل بھی یہیں سے آتا ہے‘ یہاں تک کہ اس کی شعوری پسپائی اور پیش قدمی بھی یہیں سے آتی ہے۔

افراد ہی نہیں تنظیمیں اور پارٹیاں بھی اپنے قول و فعل اور اپنی حکمت عملی کی اسیر ہوجاتی ہیں۔ لیکن حماس ان میں سے کسی چیز کی اسیر نہیں ہوئی۔ اس کی اصل شناخت عسکری تھی اور عسکری تنظیموں سے توقع بھی نہیں کی جاسکتی کہ وہ سیاسی کردار ادا کرنے پر آمادہ ہوں گی‘ مگر حماس نے ایک خاص وقت میں محسوس کیا کہ اسے اب سیاسی کردار ادا کرنا چاہیے۔ وہ جمہوری عمل جس کی وہ نہ عادی تھی نہ اس کو پسند ہی کرتی تھی‘ اچانک حماس کو عزیز ہوگیا اور حماس کی قلب ِماہیت ہوگئی۔ حماس عسکری تنظیم کے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹی بن کر سامنے آگئی۔ یہ ایک خاص طرح کے چیلنج کا جواب تھا اور ایسا نہیں تھا کہ اس مسئلے پر حماس میں ایک سے زیادہ آراء موجود نہیں تھیں۔ مگر حماس ان آراء کو پھلانگ گئی۔ حماس ایک طرزِحیات نہ ہوتی تو اوّل تو وہ سیاسی کردارکے بارے میں غور ہی نہ کرتی اور کرتی تو تقسیم ہوجاتی۔

طرزِحیات کا ایک مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کے معنی مجھے اس طرح یاد ہوگئے ہیں کہ اب میں ان معنوں کو کسی خاص لفظ یا اصطلاح میں ادا کرنے کی مجبوری سے بے نیاز ہوگیا ہوں۔ اب میں اس کو بہت مختلف الفاظ اور بہت مختلف اصطلاحوں میں بھی بیان کرسکتا ہوں۔ معنی کا ایسا شعور اللہ تعالیٰ کی عنایت ِخاص ہوتا ہے۔ چنانچہ حماس کے لیے جہاد اور بیلٹ بکس میں کوئی فرق نہیں رہا۔ یہ بات اسرائیل اور امریکا سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ وہ یونہی حماس کے درپے نہیں ہوگئے۔

امریکا، اسرائیل اور یورپ کا خیال تھا کہ سیاسی عمل حماس کے لیے پھندا ثابت ہوگا‘ چنانچہ انہوں نے حماس کی انتخابات میں شرکت کی مخالفت تو کی مگر اس کا راستہ نہیں روکا۔ حماس محض ایک جماعت ہوتی تو یہ پھندا حماس کے لیے پھانسی کا پھندا بن جاتا۔ مگر حماس ایک طرزِ حیات ہے‘ چنانچہ دشمنوں کی ناپاک خواہشیں ان پر الٹ کر رہ گئیں۔ امریکا اور یورپ کی جمہوریت نوازی پوری دنیا کے سامنے الم نشرح ہوگئی۔ ان طاقتوں کے جمہوری اور سیاسی نعرے پوری دنیا کے سامنے ننگے ہوگئے اور سارا عالم ان پر تُھو تُھو کررہا ہے۔

شیخ یاسین کی شہادت ہوئی تو اسرائیل اور امریکا کا خیال تھا کہ حماس اس صدمے کو جھیل نہیں سکے گی۔ مگر شیخ یاسین کی جگہ عبدالعزیز رنتیسی آکھڑے ہوئے اور پھر دو ہفتوں میں وہ بھی شہید کردیئے گئے۔ پارٹیوں اور تنظیموں کے لیے اتنا ’’کام‘‘ کافی ہوتا ہے۔ مگر حماس ایک ہی ہفتے میں پھر وہیں آکھڑی ہوئی جہاں وہ تھی۔ بلکہ اس کی قوت اور جاذبیت میں مزید اضافہ ہوگیا۔

ارضِ فلسطین دنیا کا وہ واحد خطہ ہے جہاں دشمن کے قول اور فعل میں کوئی فاصلہ نہیں۔ اسرائیل جب کہتا ہے کہ وہ شیخ یاسین کو قتل کردے گا تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسا ہی کرلے گا۔ ایسے دشمن کے سامنے حریف کا شعور ایک لمحے کی اونگھ کا بھی متحمل نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جھپکی اِدھر پلک اُدھر آئینہ زنگ ہے۔ حماس کی قیادت اور کارکنوں کی ذہانت یہیں سے نمودار ہوتی ہے۔ یہ وہ ذہانت ہے جس کے سامنے ہارورڈ اوراوکسفرڈ کا شعور بھی بچوں کا کھیل ہے۔

حماس ایک طرزِ حیات ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ صرف حماس کی قیادت اور کارکن ہی نہیں حماس کے متاثرین بھی اپنے معنی کو اچھی طرح یاد کیے ہوئے ہیں۔ فلسطین میں تقریباً پچاس فیصد بچے اور 40 فیصد مائیں غذائی قلت کا شکار ہیں مگر اس کے باوجود فلسطین میں شرح پیدائش برقرار رہے۔ یاسرعرفات نے ایک بار کہا تھا کہ بطنِ مادر ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ لیکن ہتھیار کا بوجھ اٹھانا اور اس طرح اٹھانا کہ جیسے وہ بوجھ نہ ہو مذاق نہیں۔ یہ کام مقصد کے گہرے شعور اور اسے طرزِ حیات بنائے بغیر ممکن ہی نہیں۔

حماس کے لیے سب سے بڑا چیلنج الفتح نے پیش کیا۔ الفتح اور خاص طور پر اس کے بعض رہنما امریکا اور اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور ان سے ہتھیار اور رقم لینے کا اعلان کرنے لگے اور خانہ جنگی کی نوبت آگئی۔ مگر حماس اس داخلی بحران کو بھی جھیل گئی۔ یہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں مگر حماس نے اس سے جس طرح نمٹ کر دکھایا ہے وہ کمال سے کم نہیں۔

حماس کے لیے تو ہر دن امتحان ہے مگر اس کے لیے ایک بہت بڑا امتحان باقی ہے۔ معنی پر کامل گرفت نے اسے عسکری میدان سے سیاسی میدان میں جانے کے لیے سہولت فراہم کی۔ ابھی دیکھنا یہ ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو کیا حماس سیاسی عمل کو ترک کرکے ہاتھ جھاڑ سکے گی یا نہیں۔ مسلم دنیاکے ہر باشعور شخص کی امید بھی یہی ہے اور دعا بھی یہی۔ اس لیے کہ اسلامی تحریکوں کے لیے اصل چیز مقصد ہے حکمت ِ عملی نہیں۔ اسلامی تحریکوں کو صرف مقصد کا اسیر ہونا چاہئے حکمت عملی کا نہیں۔ حماس نے یہ کام بھی کرکے دکھادیا تو اس کے لیے ’’سلوک‘‘ کا دائرہ مکمل ہوجائے گا۔ صوفیائے کرام کے یہاں تنزیہہ فی التشبیہ اور تشبیہ فی التنزیہہ کا اصول رائج ہے۔ یہ گویا وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت کا جلوہ دیکھنے کا اصول ہے۔

مسلمان صرف ایک امت ہی نہیں ہیں ان کی تقدیر بھی ایک ہے۔ اسلامی تحریک ایک جگہ کامیاب ہوتی ہے اور پوری دنیا پر اس کا اثر ہوتا ہے۔ اسلامی تحریک ایک جگہ پسپا ہوتی ہے اور اس کا اثر بھی پوری دنیا پر ہوتا ہے۔ حماس تو یوں بھی عالم اسلام کے قلب میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا طرزِ حیات ہے۔

انسانی تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ افراد‘ گروہ اور تنظیمیں اپنے بنائے ہوئے ڈھروّں یا Patterns کی اسیر ہو جاتی ہیں چنانچہ جب نئے چیلنج ان کے سامنے آتے ہیں تو وہ نہ ان کو پہچان پاتی ہیں اور نہ ان کا کوئی جواب دے پاتی ہیں۔ چنانچہ حماس کے ایک سیاسی جماعت بن جانے کے بعد ایک خیال یہ تھا کہ اب شاید حماس مزاحمت کا حق ادا کرنے کے قابل نہیں رہے گی مگر اسرائیل پر حماس کے تاریخ ساز حملے اور حماس کی دوماہ سے زیادہ طویل مزاحمت نے اس خیال کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ حماس کہنے کو صرف ایک تنظیم ہے مگر وہ ایک ملک کی طرح اسرائیل کی مزاحمت کر رہی ہے۔ اسرائیل کا خیال تھا کہ وہ غزہ پر آٹھ دس دن شدید بمباری کرے گا تو غزہ کے لوگ خود حماس کے خلاف بغاوت کر دیں گے۔ مگر گزشتہ 60 روز میں 17 ہزار سے زیادہ افراد شہید ہو چکے ہیں۔ شہید ہونے والوں میں 6 ہزار بچے بھی شامل ہیں۔ زخمیوں کی تعداد 24 ہزار سے بڑھ گئی ہے۔ غزہ کی 70 فیصد عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں مگر حماس کی مزاحمت زندہ ہے اور غزہ کے لوگ حماس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ افغانستان نے 20 ویں اور 21 ویں صدی میں دو سپر پاور کو شکست دی ہے مگر افغانستان ایک پہاڑی علاقہ اور وسیع ملک ہے۔ افغانستان کے مجاہدین کو پاکستان میں پناہ کی سہولت بھی حاصل تھی۔ مگر غزہ ایک چھوٹا سا میدانی علاقہ ہے۔ اس کے باوجود حماس نے64 روز تک اسرائیل کی کامیاب مزاحمت کرکے دکھا دی ہے۔ اس سے ایک بار پھر ثابت ہو گیا ہے کہ مزاحمت حماس کے لیے واقعتاً ایک طرزِ حیات ہے۔ ہماری دنیا زندگی کو حق و باطل اور شہادتِ حق کے تناظر میں نہیں دیکھتی وہ ہر چیز کو کامیابی اور ناکامی کے تناظر میں تولتی ہے مگر مسلمانوں کے لیے اصل چیز کامیابی یا ناکامی نہیں اصل چیز یہ ہے کہ مسلمان نے شہادتِ حق کا قرض ادا کیا یا نہیں۔ کامیابی اور ناکامی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

مسلمانوں کو غزوۂ احد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں شکست ہوئی تھی مگر مسلمان کامیاب تھے اس لیے کہ انہوں نے شہادتِ حق کا فرض ادا کیا تھا۔ امام حسینؓ یزید کے مقابلے پر کامیاب نہ ہو سکے مگر انہوں نے فریضۂ حق ادا کر دیا۔ چنانچہ وہ قیامت تک کے لیے مسلمانوں کے لیے آمریت کی مزاحمت کا استعارہ ہیں۔ ٹیپو سلطان انگریزوں کے خلاف کامیاب نہ ہو سکے مگر ٹیپوکی مزاحمت کے بغیر 1857ء کی جنگ آزادی برپا نہیں ہو سکتی تھی 1857 کی جنگ آزادی کامیاب نہ ہوسکی مگر اس نے قیامِ پاکستان کی تحریک کو برپا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ حماس بھی 64 روز تک اسرائیل کے سامنے سینہ سپر رہ کر تاریخ میں سرخرو ہو چکی ہے۔

حصہ