قیصروکسریٰ قسط(131)

268

’’نہیں، بیٹا اس گھر کے مکین پانی مانگنے والوں کو دودھ پیش کیا کرتے ہیں‘‘۔ عاصم یہ کہہ کر تھوڑی دیر کے لیے ماضی کی وسعتوں میں کھو گیا۔

فسطنیہ نے سوال کیا۔ ’’آپ وہاں جانا چاہتے ہیں؟‘‘۔

عاصم نے جواب دیا۔ ’’ہاں! یہ گھر میرے لیے اپنے گھر سے کم اہمیت نہیں رکھتا۔ اور نعمان کا حال معلوم کئے بغیر یہاں سے گزر جانا مجھے کافی صبر آزما محسوس ہوتا ہے‘‘۔

ابا جان! نعمان کون ہے؟ یونس نے سوال کیا۔

’’وہ میرا دوست تھا بیٹا!‘‘

’’تو پھر آپ میرے لیے پانی کیوں نہیں منگواتے‘‘۔

ایک لڑکا جس کی عمر دس سال کے لگ بھگ معلوم ہوتی تھی، باغ سے نمودار ہوا اور اس نے کہا۔ ’’آپ کو پانی چاہیے‘‘۔

’’ہاں‘‘۔ عاصم نے جواب دیا۔ ’’تم اِس گھر میں رہتے ہو؟‘‘۔

’’ہاں‘‘۔

’’تمہارا کیا نام ہے؟‘‘

’’میرا نام عبداللہ ہے‘‘۔

’’تم نعمان کو جانتے ہو؟‘‘۔

’’وہ میرے ابا جان ہیں، آئیے، اندر آئیے!‘‘۔ عبداللہ نے یہ کہہ کر عاصم کے گھوڑے کی باگ پکڑ لی۔

عاصم نے یونس کو بازو سے پکڑ کر نیچے اتارتے ہوئے کہا۔ ’’تم اپنے اس ننھے مہمان کو پانی پلادو‘‘۔

’’آپ کو ہمارا مہمان بننا پسند نہیں‘‘۔

’’نہیں، اس وقت ہم آگے جارہے ہیں۔ تم اسے جلدی لے آئو‘‘۔

’’بہت اچھا‘‘۔ عبداللہ نے یہ کہہ کر یونس کا ہاتھ پکڑ لیا، اور وہ باغ میں غائب ہوگئے۔

تھوڑی دیر بعد وہ واپس آئے تو اُن کے ساتھ ایک خوش وضع آدمی تھا۔ عاصم اُسے دیکھتے ہی گھوڑے سے اُتر پڑا۔ نودارد نے کہا۔ ’’میرے بیٹے کو یہ شکایت ہے کہ دو معزز مسافر پیاس کے باوجود ہمارے گھر میں پائوں رکھنا پسند نہیں کرتے۔ آپ کہاں سے آئے ہیں۔‘‘

’’ہم بہت دور سے آئے ہیں؟‘‘

’’میرا بیٹا یہ بھی کہتا ہے کہ آپ کو میرا نام معلوم ہے اور اگر یہ درست ہے تو آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ میرے گھر کا دروازہ مہمانوں کے لیے ہمیشہ کھلا رہتا ہے‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’مجھے معلوم ہے کہ اس گھر کے مکین اپنے دشمنوں سے بھی نفرت نہیں کرتے‘‘ اور اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے‘‘۔

یونس نے شکایت کے لہجے میں کہا۔ ’’ہاں، ابا جان! میں نے پانی مانگا تھا اور یہ مجھے زبردستی دودھ پلانا چاہتے تھے‘‘۔

عاصم کی قوتِ ضبط جواب دے چکی تھی۔ اُس نے کہا۔ ’’نعمان! تم نے مجھے پہچانا نہیں؟‘‘۔

وہ ایک ثانیہ سکتے کے عالم میں کھڑا رہا اور پھر عاصم، عاصم! کہتا ہوا اُس کے ساتھ لپٹ گیا۔ ’’میرے دوست، میرے بھائی، تم کہاں تھے۔ میں اور سالم تمہاری تلاش میں عرب و عجم کی خاک چھان چکے ہیں۔ اور اب تم میرے گھر کے دروازے سے باہر کھڑے ہو؟‘‘۔

نعمان کی آنکھوں میں آنسو اور چہرے پر مسکراہٹیں تھیں۔

اچانک وہ عاصم کو چھوڑ کر فسطنیہ کی طرف متوجہ ہوا۔

عاصم نے کہا۔ ’’نعمان یہ میری بیوی ہے‘‘۔

’’آئیے!‘‘ نعمان نے یہ کہہ کر فسطنیہ کے گھوڑے کی باگ پکڑ لی۔ عبداللہ نے عاصم کا گھوڑا سنبھال لیا۔ اور وہ اس باغ کے اندر داخل ہوئے جو عاصم کو اپنی جوانی کی امنگوں کا قبرستان محسوس ہوتا تھا۔

نعمان نے کہا۔ ’’اگر آپ تھوڑی دیر پہلے آتے تو سالم سے یہیں ملاقات ہوجاتی‘‘۔

عاصم نے پوچھا۔ ’’سعاد کیسی ہے؟‘‘۔

’’وہ بالکل ٹھیک ہے‘‘۔

’عباد زندہ ہے‘‘۔

’’نہیں وہ آپ کے جانے کے دو سال بعد فوت ہوگیا تھا۔ مرنے سے قبل اس کا آخری کارنامہ یہ تھا کہ اس نے شمعون کو قتل کردیا تھا‘‘۔

باغ عبور کرنے کے بعد وہ مکان کے صحن میں داخل ہوئے۔ وہاں ایک عورت اُون کات رہی تھی، اور ایک کمسن بچی اس کے قریب بیٹھی ہوئی تھی۔ عورت نعمان کے ساتھ ایک اجنبی کو دیکھ کر جلدی سے اٹھی اور بھاگتی ہوئی کمرے کے اندر چلی گئی۔ ایک نوکر گھوڑے لے کر اصطبل کی طرف چلا گیا اور یہ سب کھلی ہوا میں ایک چٹائی پر بیٹھ گئے۔ نعمان نے انہیں پانی پلایا اور پھر عبداللہ سے کہا۔ ’’بیٹا تم سالم کو بلالائو‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’میں اپنے خاندان میں سب سے پہلے سعاد کو دیکھنا چاہتا ہوں، اس لیے یہ زیادہ بہتر ہوگا کہ میں خود چلا جائوں‘‘۔

نعمان نے کہا۔ ’’سعاد بھی یہیں آجائے گی‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’یہ بات مجھے ناقابل یقین معلوم ہوتی ہے‘‘۔

’’اب آپ کے گھرانے کا کوئی فرد اس گھر کے لیے اجنبی نہیں۔ میں ابھی آتا ہوں‘‘۔

نعمان یہ کہہ کر مکان کے اندر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا تو اس کی بیوی جو چرخہ چھوڑ کر اندر چلی گئی تھی اس کے ساتھ تھی۔

عاصم نے اچانک اپنے دل میں خوشگوار دھڑکنیں محسوس کیں اور اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ اپنی بیوی کو پریشان دیکھ کر نعمان نے کہا۔ ’’سعاد! تم نہیں جانتیں یہ کون ہیں؟‘‘۔

اس نے عاصم کی طرف غور سے دیکھا۔ چند قدم آگے بڑھی جھجکی اور پھر اخی! اخی! کہتی ہوئی بے اختیار اُس سے لپٹ گئی۔ ’’مجھے یقین تھا کہ تم زندہ ہو۔ تم کسی دن ضرور آئو گے۔ اور میں ہر نماز کے ساتھ یہ دعا کیا کرتی تھی کہ میں تمہاری واپسی تک زندہ رہوں‘‘۔ پھر اس کے الفاظ سسکیوں میں ڈوب کر رہ گئے، اور سسکیاں دبی دبی چیخوں مین تبدیل ہونے لگیں۔ کمسن لڑکی جو حیرت کے عالم میں یہ منظر دیکھ رہی تھی اچانک پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور فسطنیہ نے اسے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھالیا۔

سعاد اپنے آنسو پونچھنے کے بعد فسطنیہ کی طرف متوجہ ہوئی۔ بہن مجھے معاف کرنا۔ میں تھوڑی دیر کے لیے مہمان نوازی کے آداب بھول گئی تھی‘‘۔

فسطنیہ نے جواب دیا۔ ’’بہن میرے لیے آپ کے جذبات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ آپ کا بھائی اکثر آپ کا ذکر کیا کرتا تھا۔ اور جب میں آپ کا تصور کرتی تھی تو مجھے یہ تسکین ہوتی تھی کہ آپ کی ہمسانگی میں مجھے غریب الوطنی کا احساس نہیں ہوگا‘‘۔

نعمان نے کہا۔ ’’اگر آپ کا یہاں کوئی جان پہچان کرنے والا نہ ہوتا تو بھی آپ کو غریب الوطنی کا احساس، پریشان نہ کرتا اب ہمیں یہاں انسانی رشتے، خون کے رشتوں سے بھی زیادہ اہم محسوس ہوتے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ ایسے وقت یہاں آئے ہیں، جب کہ ہمارا ہادی جس نے ہماری زندگی کے دھارے بدل دیے تھے ہم سے رخصت ہوچکا ہے لیکن وہ روشنی جس میں ہم نے انسانیت کی نئی عظمتیں دیکھی ہیں، ہماری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوگی۔ یہ زمین جہاں قبیلوں اور نسلوں کے درمیان نفرت کی آگ کے پہاڑ کھڑے تھے، انسانی اخوت کا مرکز بن چکی ہے اور اب یہاں کسی انسان کو اپنی اجنبیت یا غریب الوطنی کا احساس پریشان نہیں کرسکتا‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’نعمان مجھے کل ہی ہادی اسلام کی وفات کی خبر ملی تھی۔ اور راستے میں بعض لوگوں کی باتیں سن کر مجھے محسوس ہوتا تھا کہ وہ اسلام سے منحرف ہوجائیں گے۔ اپنی صدیوں کی زندگی پر جو قیود انہوں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عظمت سے مرعوب ہو کر قبول کرلی تھیں، اب انہیں ناقابل برداشت محسوس ہوں گی اور میں بذاتِ خود یہ محسوس ہوں گی اور میں بذاتِ خود یہ محسوس کرتا ہوں کہ پیغمبر اسلامؐ کی وفات کے بعد حالات بدل چکے ہیں اور وہ عرب جو شراب، جوئے، سود، چوری، ڈاکا زنی اور قتل و غارت اور ظلم و جور کو اپنی زندگی کے مقاصد میں شمار کرتے تھے پوری شدت کے ساتھ اسلام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے‘‘۔

نعمان نے جواب دیا۔ ’’یہ حالات ہمارے لیے غیر متوقع نہیں۔ ہم ان قبائل کو جانتے ہیں جنہوں نے بحالتِ مجبوری اسلام قبول کیا تھا۔ ہم ان جھوٹی نبیوں سے بھی بے خبر نہیں جو انہیں گمراہ کررہے ہیں لیکن اسلام خدا کا دین ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اس دین کے علمبردار ہر ابتلا اور ہر آزمائش سے سرخرو ہو کر نکلیں گے۔ اللہ کے دین کی راہ کا ہر کانٹا مسل دیا جائے گا اور صرف عرب کی حدود کے اندر ہی نہیں بلکہ عرب کے باہر بھی جو طاقتیں اسلام سے متصادم ہوں گی وہ اس سیلاب کے آگے تنکوں کے انبار ثابت ہوں گی‘‘۔

عاصم نے پوچھا۔ ’’کیا یہ درست ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی وفات سے قبل یہاں سے ایک لشکر شام پر حملہ کرنے کی تیاریاں کررہا تھا؟‘‘

’’ہاں! میں اور سالم اس لشکر کے ساتھ جارہے تھے۔ لیکن حضورؐ کی علالت اور وفات کے باعث ہم رُک گئے ہیں‘‘۔

عاصم بولا۔ ’’اور اب شاید مقامی حالات اس لشکر کو ہمیشہ کے لیے شام پر چڑھائی کا ارادہ تبدیل کرنے پر مجبور کردیں‘‘۔

’’نہیں تمہارا قیاس غلط ہے۔ ہمارے امیر ابوبکر صدیق کو جن لوگوں نے فوری خطرات کے پیش نظر شام کی طرف لشکر کی روانگی ملتوی کرنے کا مشورہ دیا تھا انہیں یہ جواب ملا ہے کہ اگر مجھے یہ یقین ہو کہ جنگل کے درندے مدینے میں داخل ہو کر مجھے اٹھا لے جائیں گے تو بھی اس لشکر کو میں نہیں روک سکتا، جس کی روانگی کا حکم رسول اللہ نے دیا تھا‘‘۔

عاصم نے پریشان ہو کر سوال کیا۔ ’’لیکن تم اسے قرین مصلحت سمجھتے ہو کہ عرب کے باغی قبائل مدینے پر لشکر کشی کردیں اور یہاں کی فوج شام کی طرف روانہ ہوجائے؟‘‘۔

نعمان مسکرایا۔ ’’ہمارے لیے رسول اللہ کا حکم ہی سب سے بڑی مصلحت اور دانائی ہے‘‘۔

(جاری ہے)

حصہ