دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

180

پریشانی ہو تو بچپن میں چھپنے سے کم ہوجاتی ہے مگر ختم نہیں ہوتی۔ وہی خیالات، وہی قصے… سب سے بڑی ٹینشن اسکول، مدرسے جانا۔ سب سے بڑی دعا یااللہ آج بارش ہو یا استاد کی طبیعت خراب ہو۔ چھٹی ہوجائے تو سب سے اہم مقصد کھیل کود۔ میں اپنے بچپن میں چھٹی کے دن کبھی گھر پر نہیں رہا۔ جمعہ کو علی الصبح کھیتوں کی طرف نکل جاتا، پرندوں کا شکار کرتا، جنگلی بیر جسے ہم ’’مرخڑئی‘‘ کہتے ہیں، کے ہمارے بہت سے درخت تھے، کسی درخت پر چڑھ کر گھنٹوں بیٹھا رہتا۔ مجھے اپنے ہر ہر درخت سے پیار تھا، اپنے کھیت کھلیان سے شدید محبت تھی، میری چھٹی کا دن ان ہی میں گزرتا تھا، کھانے پینے کی کوئی فکر نہیں ہوتی تھی۔ میرے دوچار دوست تھے، شکار کی شروعات میرے ایک دوست نے کرائی، اور پہلے شکار پر ٹانگیں اس طرح کانپ رہی تھیں کہ گویا کسی انسان کو قتل کیا ہو۔ مگر احساسات تو فاتحانہ تھے۔ اس کے بعد سے میں خود کو ایک منجھا ہوا شکاری سمجھ بیٹھا تھا، اس قدر احساسِ تفاخر کے ساتھ شکار کرتا جیسے پورے گاؤں کا سب سے بڑا شکاری میں ہی ہوں۔ سانپوں سے مجھے کبھی ڈر نہیں لگا، کیوں کہ میں سوچتا تھا سانپ اُڑ نہیں سکتے، آپ اپنی حفاظت کرسکتے ہیں۔ مگر جسے ہم سانپ کی خالہ کہتے تھے وہ سانپ کی طرح خطرناک ہرگز نہ تھی، نہ ہی مارنے کی حد تک ڈستی تھی۔ اسے دیکھتے ہی میرے بدن میں چیونٹیاں کاٹنے لگ جاتی تھیں۔ ہم اسے ’’بوڈئی‘‘ کہتے تھے، کیوں کہ وہ اُڑ سکتی تھی اور یہی ڈر لگا رہتا کہ کہیں اُڑ کر کاٹ نہ لے۔

میرے دادا جان مرحوم نے ان زمینوں میں اپنی زندگی گزار دی۔ ہماری زمین کا ایک بڑا حصہ انہوں نے بنجر ہونے سے بچایا۔ وہ انھی پہاڑوں میں تاقیامت خوابیدہ رہیں گے، اللہ ان پر اپنی رحمت رکھے۔ دادا جان مرحوم کا سوچتا ہوں تو گمان ہی نہیں گزرتا تھا کہ موت ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہے۔ وہ بھی فنا کے گھاٹ اتر گئے۔

مدرسے سے ہماری چھٹی جمعرات کے دن عصر میں ہوتی تھی، پھر حاضری جمعہ کے دن عصر کو ہوتی تھی۔ مدرسہ ہمارے گاؤں سے خاصے فاصلے پر تھا مگر اُس وقت فاصلے کوئی معنی نہیں رکھتے تھے۔ صبح کو نکل کر شام کو گھر چلے آنا معمول کی بات تھی۔ وہ فاصلہ جسے 2017ء میں دس جگہ بیٹھ کر اور رک کر میں نے طے کیا، بچپن میں روزانہ کے معمول کا حصہ تھا۔ خیر جمعرات کے دن عصر پڑھ کر ہم اور ہمارے گاؤں کے تین دوست مدرسے سے گھر جانے کے بجائے اپنے دوسرے دوستوں کے ساتھ اُن کے گاؤں چلے گئے۔ وہ گاؤں بھی بہت فاصلے پر تھا۔ ہمیں وہاں رات گزار کر صبح دوسرے گاؤں کے لیے نکلنا تھا۔ فاصلے خدا نے اس قدر سمیٹ لیے تھے کہ اس گاؤں تک اب گاڑی فی سواری ہزار روپے سے کم نہیں لیتی اور ہم سوچے بنا نکل پڑے۔ بچپن میں اعتماد بڑی چیز ہوتی ہے، دوست جا رہے ہیں تو ہم بھی چل لیتے ہیں، معلوم نہیں تھا کیوں جانا ہے؟ مگر خیر، ’’کاک‘‘ نامی گاؤں میں رات گزاری، گھر پر کسی قسم کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ ہم نے جس گاؤں میں رات گزاری تھی وہ پہاڑ کے دامن میں ہے اور ہمارا گاؤں بہت بلندی پر ہے۔ ’’کاک‘‘ لگتا ہے کسی نالے کے کنارے بسایا گیا گاؤں ہے جس کی آبادی بہ مشکل 30 سے 40 نفوس پر مشتمل ہوگی۔ رات کے وقت ہم کھلے آسمان تلے سونے کے لیے لیٹ گئے تو لوگوں کی ہلکی ہلکی آوازیں آنے لگیں اور گاؤں، دیہات میں عشاء کی نماز کے بعد آوازیں لگانے کا معمول نہیں ہوتا، عشا کی نماز پڑھ کر لوگ سوجاتے ہیں۔ یہ خطرے کی علامت ہوتی ہے۔ صبح ہوئی تو معلوم ہوا یہ آوازیں ہماری تلاش میں تھیں اور انہیں تسلی دی گئی ہے کہ بچے یہاں سلامت ہیں۔ بہرحال صبح ہی صبح ہم دوسرے گاؤں کے لیے نکل گئے۔ ’’کاروڑ‘‘ جو اب ہماری تحصیل ہے، وہاں کیوں جانا تھا، مجھے ہلکی سی بھنک پڑ گئی تھی مگر حقیقتِ حال کا درست علم میرِ کارواں کو ہی ہوگا۔ مجھے معلوم ہوا تھا کہ ’’کاروڑ‘‘ میں کتوں کے پِلّے ہیں، وہ لینے جانا ہے۔ ایک بات تو طے تھی اُن کے ساتھ گھر میں کیا گاؤں میں بھی ہم میں سے کسی ایک کو گھسنے کی اجازت نہ ہوتی، مگر یہی تو بچپن ہے کہ آج کا سوچا جائے۔ کل کیا ہوگا؟ یہ کل پر چھوڑ دیں۔

بہرحال کاروڑ جاکر ہم گاؤں میں داخل بھی نہیں ہوئے اور واپس ہوگئے۔ کتوں کے پِلّے نہیں مل سکے یا ہمارا مقصد ہی وہ نہیں تھا، مگر کاروڑ سے واپس ہوکر ’’کاک‘‘ اور پھر ‘‘کاک‘‘ سے اپنے گاؤں۔ ہمارا استقبال بہت ’’شاندار‘‘ طریقے سے کیا گیا۔ لاتوں، مُکّوں سے خوب تواضع کی گئی اور آئندہ مدرسے سے سیدھا گھر آنے کی ہدایت کی گئی۔ وہ ہدایت کس زبان میں ہوگی ہم سب جانتے ہیں۔

بچپن کسی جھونپڑی میں گزارا جائے یا کسی محل میں، مگر بچپن ہمیشہ سہانا ہوتا ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے پر کل کی پریشانی بھی آج کی خوشی سے بھلی لگتی ہے۔ پریشانی ہو تو یونہی کبھی کبھار اپنے بچپن کی طرف لوٹنا چاہیے۔ بچپن تھوڑی دیر کے لیے آپ کو بے فکر کردیتا ہے۔ یہی بے فکری سب سے بڑی خوشی ہے۔ پریشانی بھی ختم ہوجاتی ہے۔

حصہ