’’تم کرتی ہی کیا ہو دن بھر؟‘‘ گو کہ یہ جملہ اب بہت پرانا ہوگیا اور اس کے کہنے والے بھی اب سوشل میڈیا کی بہ دولت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک خاتونِ خانہ کیا کیا کرتی ہے، لیکن پھر بھی یہ وہ جملہ ہے جو اُن گھریلو خواتین کے تن بدن میں آگ لگا دیتا ہے جو سارا دن گھر کو گھر بنا کر رکھتی ہیں۔ جب ایک عورت صبح اٹھتے ہی گھر کے کاموں میں لگ جاتی ہے تو پھر رات گئے تک اس کو فرصت نہیں ملتی، مگر یہ جملہ کہہ کر عورت کو مزید کاموں میں دھکیل دیا جاتا ہے اور اس کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ کردیا جاتا ہے۔ پھر عورت کے پاس یہ کہنے کو ہوتا ہے کہ ’’ہاں میں گھریلو کاموں کے علاوہ یہ بھی کرتی ہوں‘‘۔ اخراجات کی ایک طویل فہرست بتا بتاکر ایک مرد ہی عورت کو کمانے پر مجبور کرتا ہے کہ ’’یا تو اخراجات میں کمی کرو یا ہاتھ بٹائو‘‘۔ جب کہ اخراجات کی اس فہرست میں اُس عورت کی ذاتی اشیا بہت کم ہوتی ہیں جو صرف گھر اور گھرداری کو ہی اہم سمجھتی ہے۔ اس کے ذہن میں کچن کی اشیا، بچوں کے لنچ کا سامان، شوہر اور بچوں کے پسندیدہ کھانوں کے لیے مایونیز، چکن، ساسز، چاکلیٹ اسپریڈ، پاستا، بریانی مصالحہ اور نہ جانے کیا کیا چل رہا ہوتا ہے جو ان کی فرمائش پر بنانا ضروری ہے، اور اگر وہ یہ کہہ دے کہ کوئی چیز ختم ہوگئی ہے، تو پھر یہ سننے کو ملتا ہے کہ’’تم ہو ہی پھوہڑ، چیزیں ضائع بہت کرتی ہو، ابھی تو لایا تھا، اتنی جلد ختم کیسے ہوجاتی ہیں!‘‘
پھر ہر موسم کے لحاظ سے بچوں کے کپڑے بھی اس کو ہی دیکھنے ہیں۔ ’’میرا تو گزارا ہو ہی جائے گا‘‘۔ اس سوچ میں اُس کا اپنا آپ کہیں پیچھے رہ جاتا ہے، مگر اِس پر یہ سننے کو ملتا ہے کہ ’’تم کو تو پہننے اوڑھنے کا نہ ڈھنگ ہے اور نہ ہی سلیقہ‘‘۔ ایسے میں اگر وہ کچھ ایسا کرنے کا سوچنے لگے کہ گھر بیٹھے ہی کچھ آن لائن کام کرلے یا ٹیوشن ہی پڑھا لے تو یہ اس کی ذمہ داریوں میں اضافے کا سبب ہی بنے گا، اور اگر وہ اخراجات میں کمی کر بھی لیتی ہے تو شوہر اور بچے اس کا ساتھ نہیں دے سکتے کہ اب سب کو زبان کے چٹخارے کی عادت ہوچکی ہے اور سادہ یا ون ڈش پر گزارہ ناممکن ہے۔ اس چکر میں خاتونِ خانہ کو کیا کرنا چاہیے…؟ اُس کی سمجھ میں نہیں آتا، مگر وہ اپنی کوشش جاری رکھتی ہے اور زندگی گزر ہی جاتی ہے۔
ایسے میں کبھی کبھی خواتین یہ نظم بھی گنگناتی ہوئی نظر آتی ہیں:
’’میرا درد‘‘
’’کتنا اچھا لگتا ہوگا نا
جب تم گھر آتے ہوگے
اور مجھے موجود نہ پاتے ہوگے
کتنا تمہیں میں ستاتی ہوں
نجانے کتنا آزماتی ہوں
ابھی یہ چاہیے ،ابھی وہ چاہیے
ہردم گویا کچھ نہ کچھ چاہیے
مگر شاید تم نے کبھی سوچا نہیں
یا کبھی غور کیا ہی نہیں
مجھے اپنے لیے تو کبھی کچھ چاہیے نہ تھا
کبھی سامان کے پرچے میں میرا کچھ نہ تھا
مگر پھر بھی تم یہ کہتے تھے
تم کو دیکھ کر خرچے مجھے یاد آتے تھے
نہ جانے زندگی یہ کیسی ہے
میری اپنی ہو کر بھی، میری نہیں ہے
کبھی مرچ مصالحہ جات کا پرچہ تھماتی ہوں
تو کبھی واشنگ پاؤڈر اور باتھ سوپ کے لیے میسج کرتی ہوں
شیمپو نہ جانے کیوں ختم ہوجاتا ہے
لانگ بار بھی اکثر دغا دے جاتا ہے
کوکنگ آئل کی بچت جو کرتی ہوں
تو ہانڈی کی رونق کھوتی ہوں
آٹا بھی بہت ضروری ہے
کیچپ، چائے اور شربت بھی ضروری ہے
کیا اہم ہے اور کیا نہیں
کیا کیا میں نے تم سے کہا نہیں
اس پر بھی اگر تم کچھ مانگو اور ملے نہیں
پھر تم کہتے ہو، گھر چلانا تمہیں آتا نہیں
اب میں تم سے کیا کہتی
تم نہ سمجھتے جو میں کہتی
اچھا چھوڑو
سب جانے دو
بس پھر خواتین کی تو یہی زندگی ہوتی ہے:
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے