خودکشی کی کوئی ایک وجہ نہیں ہوتی۔ کوئی شدید افلاس کے ہاتھوں زندگی کا خاتمہ کر بیٹھتا ہے، اور کوئی ڈھیروں دولت ہونے پر بھی موت کو گلے لگانا پسند کرتا ہے۔ کوئی اپنے گھر والوں سے نالاں ہو تو موت کی طرف چلا جاتا ہے، اور کوئی اچھی خاصی خوش حال گھریلو زندگی بسر کرنے پر بھی کبھی اچانک ڈپریشن کا شکار ہوکر موت کو اپناتا ہے۔ پس ماندہ معاشروں میں لوگوں کا خودکشی کرنا یا خود کشی کے رجحان کا حامل ہونا سمجھ میں آتا ہے، تاہم ترقی یافتہ معاشروں میں خودکشی؟ یہ بہت عجیب بات لگتی ہے۔ امریکا اور یورپ میں خودکشی کا رجحان نشیب و فراز کے مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ بعض یورپی معاشروں میں مادّی سُکھ تو بہت ہے مگر روحانی خلا انسان کو موت کی طرف دھکیلتا رہتا ہے۔ باطن کی کشمکش بھی انسان کو موت کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ اس وقت یورپ میں خودکشی کا رجحان کمزور ہے تاہم امریکا میں یہ رجحان تیزی سے جڑ پکڑ رہا ہے۔ اِس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ معاشی مشکلات بھی بڑھ رہی ہیں۔ دوسری طرف معاشرت کے مسائل بھی ہیں۔ امریکا جو کچھ بھی دنیا بھر میں کررہا ہے اور کرتا آیا ہے اُس کا بھی امریکیوں کی نفسی ساخت پر شدید منفی اثر مرتب ہوا ہے۔ لاکھوں امریکی شدید احساسِ جرم کے ساتھ جی رہے ہیں۔ ریٹائرڈ فوجیوں میں بہت سوں نے اس لیے خودکشی کی ہے کہ جنگ کے دوران غیر متحارب لوگوں یعنی عام شہریوں کو بڑے پیمانے پر ہلاک کرنے اور اُنہیں مفلوج کرنے کے عمل میں حصہ لینے پر اُن کے ضمیر نے کچوکے لگائے، اور وہ اس حوالے سے پیدا ہونے والا شدید ڈپریشن جھیل نہ پائے۔ نسل پرستی کی شکل میں پائی جانے والی اندرونی معاشرتی تفریق بھی لوگوں کو موت کی طرف جانے پر اُکساتی ہے۔
امریکا میں خودکشی کا رجحان کس حد تک پنپ چکا ہے اِس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ 1941ء سے اب تک کے ریکارڈ کے مطابق گزشتہ برس یعنی 2022ء میں خودکشی کے ریکارڈ واقعات رونما ہوئے۔ اس حوالے سے عبوری اعداد و شمار دی یو ایس سینٹر فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن نے فراہم کیے ہیں۔ اِس ایک سال میں کم و بیش 49449 افراد نے موت کو اپنی مرضی سے گلے لگایا۔ یعنی ہر ایک لاکھ پر 14 افراد کی خودکشی۔ خواتین کے مقابلے میں موت کو گلے لگانے والے مردوں کی تعداد چار گنا ہے۔ بڑی عمر کے مردوں میں خودکشی کا رجحان زیادہ قوی ہے اور مرنے والوں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ 2022ء میں خودکشی کرنے والی خواتین کی تعداد بھی دگنی ہوگئی ہے، بالخصوص 25 سے 34 سال تک کے گروپ میں۔
چند عشروں کے دوران امریکا میں خودکشی کا رجحان تواتر سے پروان چڑھتا رہا ہے۔ صورتِ حال اتنی سنگین ہے کہ 2021ء میں دی یو ایس سرجن جنرل نے خودکشی کے رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے قومی سطح پر باضابطہ اور جامع حکمتِ عملی مرتب کرنے پر زور دیا، نوجوانوں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر اُن کی ذہنی صحت کا معیار بلند کرنے پر متوجہ ہونے کی سفارش کی۔ امریکا بھر میں نئی نسل کے لیے ذہنی صحت سے متعلق مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ اُن پر ایک طرف تو کیریئر کے حوالے سے دباؤ ہے اور دوسری طرف معاشرتی الجھنیں بھی اُن کا پیچھا نہیں چھوڑ رہیں۔ سوشل میڈیا کی آمد نے معاملات کو مزید بگاڑا ہے۔
عبوری اعداد و شمار بچوں کے حوالے سے تھوڑے حوصلہ افزا ہیں۔ 2022ء میں 10 سے 14 سال کے لڑکوں اور لڑکیوں میں خودکشی کے واقعات میں 18 فیصد کمی رونما ہوئی۔ یعنی ہر ایک لاکھ افراد پر 2 اموات۔ اِسی طور 15 سے 24 سال تک کے نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان 9 فیصد کم ہوا، یعنی ہر ایک لاکھ افراد پر 14 اموات۔
لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں میں خودکشی کا رجحان تیزی سے کمزور پڑا ہے۔ پھر بھی اموات کے معاملے میں لڑکیاں بہتر حالت میں ہیں، کیونکہ خودکشی کرنے والے نوجوانوں میں واضح اکثریت اب بھی لڑکوں ہی کی ہے۔
عبوری اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ عمر کے دیگر گروپوں میں خودکشی کا رجحان توانا ہوا ہے۔ امریکی انڈینز کے درمیان خودکشی کا رجحان زیادہ مضبوط ہے، یعنی ایک لاکھ پر 27 اموات۔ سفید فام امریکیوں میں بھی خودکشی کا رجحان کم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ہر ایک لاکھ سفید فام امریکیوں میں سے 18 نے موت کو اپنی مرضی سے گلے لگایا۔
خودکشی کے نصف سے زائد واقعات میں آتشیں اسلحے کا استعمال سامنے آیا ہے۔ جان ہاپکنز سینٹر فار گن وایولینس سولیوشنز کی تحقیق کے مطابق گن کے ذریعے خودکشی کے واقعات 2022ء میں بلند ترین سطح پر پہنچ گئے۔ خود کو گولی مار کر زندگی ختم کرنے والوں میں بڑی عمر کے سفید فام افراد اور سیاہ فام نوجوان نمایاں ہیں۔ یہ بات جان ہاپکنز سینٹر فار گن وایولینس سولیوشنز کے پالیسی ایڈوائزر ایری ڈیوس نے بتائی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ خودکشی کے رجحان کو کمزور بنانے کے لیے جامع حکمتِ عملی ترتیب دینا ہوگی۔ اُن کی رائے ہے کہ جن لوگوں میں خودکشی کا رجحان قوی ہو اُنہیں غیر معمولی کاؤنسلنگ کی ضرورت ہے۔
کیا امریکی حکومت خودکشی کے رجحان کو کمزور کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہے؟ 2022ء کے موسمِ گرما میں امریکی محکمۂ صحت و انسانی خدمات کے سبسٹنس ابیوز اینڈ مینٹل ہیلتھ سروسز ایڈمنسٹریشن نے سوسائیڈ اینڈ کرائسز لائف لائن 988 کا اجرا کیا۔ اِس سے پہلے یہ دی نیشنل سوسائیڈ پریوینشن لائف لائن کہلاتی تھی۔ اِسے وسعت دے کر آسان ڈائل کوڈ بھی دیا گیا تاکہ متعلقین کو بروقت مدد مل سکے۔ تب سے اب تک 988 کو تقریباً 70 لاکھ کالز، ٹیکسٹ اور چیٹس موصول ہوچکی ہیں۔ وفاقی اعداد و شمار کے مطابق صرف ستمبر 2023ء میں پانچ لاکھ کالز آئی ہیں۔ رائے عامہ کے بعض جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ امریکا میں بہت سے نوجوانوں اور پختہ عمر کے لوگوں کو معلوم نہیں کہ وہ ایک فون کال یا ٹیکسٹ میسیج کے ذریعے باضابطہ تربیت یافتہ کاؤنسلر کی خدمات حاصل کرکے ڈپریشن اور خودکشی کے رجحان سے نجات پاسکتے ہیں۔ اس حوالے سے حکومت کی سرپرستی میں ایک جامع سسٹم کام کررہا ہے۔ تربیت یافتہ افراد مایوسی کا شکار ہونے والے اور خودکشی کی طرف مائل ہونے والے افراد کی نگرانی کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ حکومت اس حوالے سے اپنے طور پر وہ سب کچھ کررہی ہے جو اُسے کرنا ہی چاہیے۔
حوالہ
www.cnn.com
Suicide deaths reached a record high in the US in 2022, despite hopeful decreases among children and young adults
By Deidre McPhillips
November 29, 2023