چین کو امریکا کے متبادل کے طورپر نہیں دیکھنا چاہئے،سابق سفارت کار طارق فاطمی کا ایک یادگار انٹریو

257

(دوسرا اور آخری حصہ)

سوال : بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہمیں حالیہ برسوںمیں کئی بار امریکہ پر اپنا دفاعی انحصار ختم کرکے چین کے ساتھ خصوصی تعلقات بنانے کا موقع ملا لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ نے امریکہ کے خوف سے اس امکان سے استفادہ نہیں کیا‘ آپ کی اطلاع اور تجزیہ کیا ہے؟

طارق فاطمی: پہلی بات تو یہ ہے کہ چین کو امریکہ کے متبادل کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔ فارن پالیسی اُس وقت کامیاب سمجھی جاتی ہے جب آپ ہر امکان کو استعمال کرتے ہیں اور جتنا پھیلا سکتے ہیں اپنی Roof for memorability اور دوسرے ممالک سے تعلقات بناتے ہیں‘ لیکن کسی دوسرے ملک کی قیمت پر نہیں۔ یہ ایک کامیاب خارجہ پالیسی ہے۔ ہماری پالیسی کامیاب اس وقت کہی جاتی ہے جب ہم بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات مضبوط اور پائیدار کر پاتے اور ان سے مستفید ہو سکتے۔ الحمدللہ چین سے ہمارے تعلقات ابھی بھی اچھے ہیں‘ چین پاکستان کی معاشی زندگی میں اہم عنصر کی حیثیت رکھتا ہے‘ مگر ہمارے جیسے لوگوںکا خیال ہے (میں بھی چین میں کام کر چکا ہوں) کہ چین پاکستان کا واحد اور آزمودہ دوست ہے اور ہمیں اپنے تعلقات چین کے ساتھ برقرار ہی نہیں بلکہ مسلسل مضبوط کرنے اور تعلقات کے نئے راستے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین اب 1960ء کی دہائی والا ملک نہیں ہے‘ ترقی یافتہ دنیا میں چین ایک علیحدہ مملکت نہیں بلکہ ایک عالمی طاقت ہے۔ پوری دنیا چین کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔ ان کی ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے‘ ان کی تجارت پھیل رہی ہے‘ ان کی معاشی پیداوار دوہرے ہندوسوں میں ہے۔ تو اب پاکستان کویہ توقع نہیں کرنا چاہیے کہ چین پاکستان پر خصوصی نظر کرے گا‘ یہ ممکن ہی نہیں۔ یہ کوشش ہمیں کرنی ہوگی کہ ہم چین کو اپنے ہر اہم اسٹریٹجک شعبے میں لے کر آئیں‘ اسے خصوصی مراعات اور سہولیات دیں۔ چین کی پچھلی نسلیں‘ جن کی پاکستان سے جذباتی وابستگی تھی اور جو اب منظر سے ہٹ گئی ہیں اور ان کی جگہ اب نئی نسل جو یورپ اورامریکہ سے پڑھ کر آئی ہے‘ جو ہر تعلق کو معاشی زاویے سے دیکھتی ہے‘ انہیں پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کرائیں۔ یہ میری ذاتی رائے ہے۔ امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے‘ وہ رہے گا آنے والے کچھ برسوں تک۔ ہمیں اس کے ساتھ تعلقات بہتر کرے چاہئیں۔ ضرورت اس تعلق میں توازن قائم کرنے کی ہے۔ آپ اس سے ایسے معاہدے نہ کریںجن سے پاکستان کا اقتدار اعلیٰ آزادی اور خود مختاری متاثر ہو۔ خاص طور پر 9/11کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمیں امریکہ کا ساتھ دینا چاہیے تھا‘ دہشت گردی ہمیں کسی طرح سے منظور نہیں ہے‘ دہشت گردی اور اسلام میں موروثی تضاد ہے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ پر صحیح ہیںلیکن جس طرح سے ہم نے امریکہ کوکھلی چھوٹ دی ہوئی ہے کہ وہ جب جی چاہے‘ جہاں جی چاہے اور جس طرح بھی چاہے آپریشن کرے‘ یہ غلط بات ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان میں بہت غم و غصہ نظر آتا ہے اور جو دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے جسے ہم سب کو سپورٹ کرنا چاہیے‘ وہ عوام کی نظروں میں امریکہ کی جنگ ہے جس میں صرف پاکستانی مارے جا رہے ہیں‘ بم گر رہے ہیں جس سے ہمارے فاٹا اور شمالی علاقہ جات مکمل طور پر غیر مستحکم ہو گئے ہیں۔ یہ پالیسی غلط ہے اور ساتھ ہی ساتھ جو ہم نے دروازہ کھول کر بغیر سوچے سمجھے اجازت دے دی ہے کہ وہ پاکستان میں اتنے بڑے پیمانے پ شامل ہو جائیں اس سے ہمارے ہمسایہ ممالک خاص کر چین‘ ایران میں تشویش پائی جاتی ہے۔ وہ جاننا چاہتے ہیںکہ آپ یہ پالیسی کیوں جاری رکھے ہوئے ہیں‘ اس سے آپ کوکیا فائدہ پہنچ رہا ہے اور امریکہ کی اس موجودگی کے اصل مقاصد کیا ہیں؟ اس کا ہدف کیا ہے؟ وہ کیوں آئے ہیں؟ ساتھ ساتھ ہم نے ناٹو کو بھی اجازت دے دی ہے۔ ناٹو ایک خاص مقصد (یورپ کے دفاع) کے لیے قائم کی گئی ہے‘ اس کو بھی ہم نے اجازت دے دی اور وہ بھی بڑے پیمانے پر شامل ہو گئے۔ یہ بھی ایک پریشان کن عنصر ہے۔

سوال : 11 ستمبر 2001ء کی رات جنرل مشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر جو فیصلہ کیا اس کی کیا توجیہہ کی جاسکتی ہے؟

طارق فاطمی: جس وقت 9/11 کا واقعہ ہوا‘ دنیا میں بڑی خراب صورت حال تھی اور ہمارے متعلق تاثر یہ تھا کہ پاکستان کسی نہ کسی طرح 9/11 میں شامل ہے‘ اگر براہِ راست نہیں تو بالواسطہ۔ مگر اس سے بڑی وجہ یہ تھی کہ پاکستان پر فردِ واحد کی حکمرانی تھی۔ وہ آرمی چیف بھی تھا‘ صدر بھی تھا‘ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف بھی تھا‘ نیشنل سیکورٹی کونسل کا بھی صدر تھا۔ غرضHe was one and only تو وہ کس سے مشورہ کرتا اور ان کا مزاج بھی نہیں ہے مشاورت کا۔ اور پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ شاید امریکہ کا ساتھ دینا صحیح ہے۔ ہمارے جیسے ہی لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ اگر آپ کو امریکہ کے ساتھ تعاون کرنے کا فیصلہ کرنا ہی تھا تو کم از کم سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے تھا۔ آپ اپنے سینئر افسروں کو شامل کرتے‘ اہم سیاسی شخصیات سے مشاورت کرتے۔ مگر یہ ممکن ہی نہیں ہے‘ یہ آمریت کی ایک بنیادی کمزوری ہے کہ اس میں مشاورت‘ بات چیت اور ہم آہنگی کا کوئی امکان ہی نہیں ہوتا‘ اس میں عوام کا کوئی عمل دخل ہی نہیں ہوتا۔ اگر یہی فیصلہ ایک جمہوری حکومت کرتی تو سب سے پہلے تو وہ مذاکرات کرتی‘ پھر ان مذاکرت کی شرائط کو جو ادارے ہیں (مثلاً انٹیلی جنس‘ دفاع‘ وزارتِ خارجہ اور بالآخر پارلیمنٹ کیوں کہ پارلیمنٹ عوام کی نمائندگی کرتی ہے۔) اس میں زیر بحث لاتی تو اس سے حکمرانوں کو وقت ملتا‘ اس کے بعد جب وہ بات چیت کرتے تو زیادہ بہت پوزیشن میں ہوتے۔ مگر جب آپ مذاکرات کے بغیر ایک ٹیلی فون کال پر کسی ملک کی شرائط کو قبول کرتے ہیں تو ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے کہ آپ کو یہ ملا ورنہ اس سے بھی بدتر ہو سکتا تھا۔

سوال : جنرل مشرف نے جو بھی فیصلہ کیا‘ ساڑھے آٹھ سال تک اس پر عمل کرتے رہیں‘ کیا اس صورت حال کے ذمہ دار صرف وہی تھے؟

طارق فاطمی: اس کے علاوہ کوئی اور نام آپ کو نظر آتا ہے؟

سوال : جس ادارے سے وہ وابستہ تھے؟

طارق فاطمی: نہیں‘ فوج ہی کے تو وہ (پرویز مشرف) نمائندہ تھے ناں… اگر جمہوری نظام میں پالیسی ناکام ہو جاتی ہے تو آپ اسمبلی کے 342 ممبران کو تو ذمہ دار نہیں ٹھہراتے ہیں‘ آپ وزیراعظم کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کیوں کہ وہ نمائندگی کرتا ہے۔ صدر صاحب نے خود اپنے انٹرویو اور کتاب میں ذکر کیا ہے کہ سارے اہم مناصب ان کے پاس تھے۔ تو ذمہ دار تو وہی ٹھہرائے جائیں گے۔ فارن آفس کا تو کوئی تعلق بھی نہیں تھا‘ اس کو تو پتا بھی نہیں تھا اور نہ ہی اعتماد میں لیا گیا تھا‘ اور ان کے بہت سارے ساتھی بھی یہی کہتے ہیں کہ انہیں بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اسی لیے آمریت ہے جو ملکوںکو تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔ جمہوری حکومت کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ اس کی قانونی حیثیت ہوتی ہے اور پھر وہ یادہ مؤثر بھی ہو جاتی ہے کیوں کہ وزیراعظم کا‘ کابینہ کا‘ وزرا اور ان کی پارٹی کا کام ہے کہ جب وہ اپنے حلقوں میں جائیں تو دستور کی رو سے اپنی پالیسی کو واضح کریں اور جس طرح سے میاں نواز شریف نے ایٹمی ایشو پر صلاحت اور ذہانت کا مظاہرہ کیا اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں آپ کو نہیں ملے گی۔ اور میں اس لیے دعویٰ کرتا ہوں کہ میں خود موجود تھا اور براہِ راست اس فیصلہ سازی کے عمل میں شامل تھا۔ اور میاں صاحب کے پاس ایک نہیں پانچ ٹیلی فون کال صدر کلنٹن کی آئیں‘ ٹونی بلیئر کے فون آئے‘ جرمن چانسلر کے آئے‘ جاپانی وزیر اعظم کے آئے… دنیا کا کوئی رہنما ایسا نہیں تھا جس نے ان کو ٹیلی فون نہ کیا ہو اور دبائو ڈالنے کی کوشش نہ کی ہو۔ ان کا سادہ سا ایک جواب تھا کہ ’’میں عوام کی نمائندگی کر رہا ہوں‘ مجھے وہ فیصلہ کرنا ہوگا جو پارلیمنٹ اور کابینہ کو منظور ہو۔ اگر اس پالیسی کی پارلیمنٹ میں حمایت نہیں ہوگی تو پالیسی برقرار نہیں رکھی جاسکتی۔‘‘ اب اس جواب پر آپ بتایئے کہ صدر کلنٹن یا وزیراعظم ٹونی بلیئر یہ کہہ دیتے کہ ’’آپ کی پارلیمنٹ اور آپ کے عوام جہنم میں جائیں اور آپ وہ کچھ کریں جو ہم کرنے کو کہہ رہے ہیں۔‘‘ وہ یہ نہیں کہہ سکتے۔

سوال : کیا پاکستان میں دہشت گردی کا کوئی مسئلہ تھا یا ہم صرف امریکہ کی جنگ لڑ رہے ہیں؟

طارق فاطمی: پاکستان کی سرزمین کو غیر ملکی لوگ استعمال کرتے آرہے ہیں اور ایسے واقعات ہوئے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں یا تو ان کی ٹریننگ ہوئی تھی یا ان کی ذہن سازی ہوئی تھی۔ دیکھیں جیسا کہ وزیراعظم صاحب نے اپنی تقریر میں کہا اور نواز شریف نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں امریکی ڈپٹی سیکرٹری جارج نیگرو پونٹے سے ملاقات کے بعد بتایا کہ پاکستانی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف ہیں مگر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ ملٹری آپریشن سے لوگوں کی جان لیتے جائیں اور اس چکر میں ہمارے ہاں سابق وزیراعظم بھی ماری گئیں‘ جرنیل بھی مارے جا رہے ہیں‘ شہری بھی مر رہے ہیں‘ مسجدوں پر حملے ہو رہے ہیں‘ جنازوں پر بھی حملے ہو رہے ہیں‘ یہ کیسی پالیسی ہے؟ تو اس پالیسی کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور پھر امریکہ کے ساتھ بڑے بحث و مباحث کی ضرورت ہے کہ دیکھو ایسی دہشت گردی کے خلاف جنگ جس سے پاکستان خدانخواستہ تباہ ہوجائے‘ ہمیں (عوام کو) کو منظور نہیں ہے۔ اس وجہ سے آپ نے دیکھا ہوگا کہ سیاسی گفت و شنید معاشی اصلاحات‘ متاثرہ علاقوں کے لیے سماجی اصلاحات اور پھر آخری حل ہونا چاہیے فوجی آپریشن۔ تب ہی وہ پالیسی عوام میں قبول اور مؤثر ہوگی۔ میں ایک لفظ اپنی تحریر میں استعمال کرتا ہوں‘ اسے کہتے ہیں Terms of engegment‘ جب امریکہ میں آپ رشتہ بتاتے ہیں تو اس کا بھی ایک معاہدہ بنایا جاتا ہے‘ تو ہمیں اس Terms of engagement کی دفعات پر ازسرنو تبادلہ خیال کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ شرائط کیا ہیں‘ نہ قومی اسمبلی کو بتایا گیا نہ پچھلی حکومت کو بتایا گیا۔ ہمیں پتا ہونا چاہیے کہ ہم نے کون سی ذمہ داریاں قبول کی ہیں اور پھر ان سارے تعلقات کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے۔

سوال : پاکستان کا ایٹمی پروگرام امریکہ کے نشانے پر ہے‘ اس کو ختم کرنے کے لیے امریکہ کس حد تک جاسکتا ہے؟

طارق فاطمی: ہماری جوہری پروگرام الحمد للہ محفوظ ہے‘ اس میں کسی ادارے یا غیر متعلقہ فرد کے آنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ یہ امریکہ سیاست کا کھیل کھیلتا ہے کہ ہر تھوڑے دن بعد یہ بیان دیتا ہے کہ پاکستان کے جوہری اثاثے غیر محفوظ ہیں‘ انتہا پسندوں اور ریڈیکل عناصر سے ان کو خطرہ ہے۔ یہ دبائو میں لینے کی حکمت عملی ہے۔ ہمارے ہاں ادارتی قوانین ایسے بنے ہیں کہ ان شاء اللہ ہمارے ایٹمی پروگرام کو کوئی خطرہ نہیں۔

سوال : امریکہ دھمکی دے رہا ہے کہ اگر پاکستان نے ہمارے مطالبات پر عمل نہیں کیا تو وہ حملہ کر دے گا؟ آپ کو حملے کے کیا امکانات نظر آتے ہیں؟

طارق فاطمی: جو بھی اس قسم کے امکانات تھے‘ اب وہ ختم ہو گئے۔ پاکستان میں جمہوریت بحال ہو گئی ہے اور ایک منتخب حکومت اقتدار میں آگئی ہے اس لیے منتخب حکومت کو اصولی پالیسی اختیار کرنی ہوگی اور ابھی تک جو بھی بیانات نواز شریف‘ زرداری اور گیلانی کے آئے ہیں‘ ان سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ اس پالیسی کو Principle Crafting کریں گے اور دوسری بات یہ ہے کہ قومی مفاد کو یہ کبھی نظر انداز نہیں کریں گے۔

سوال : بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چین‘ بھارت اور روس کا اتحاد مستقبل میں بین الاقوامین منظر نامے کی صورت گری کرنے والا ہے اور شاید ایران اور پاکستان بھی مستقبل میں اس کا حصہ ہوں گے۔ ایسے کسی بلاک کا کتنا امکان ہے؟

طارق فاطمی: الحمدللہ اگر ایسا بلاک بن جائے تو آپ کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ میرا نہیں خیال کہ اس قسم کے بلاک بننے کے امکانات ہیں۔ چین اور روس باہمی تعاون کررہے ہیں‘ ان کا تعاون اسٹریٹجک علاقے میں ہے مگر ان کے طویل المعیاد رابطے بھی ہیں اور ہندوستان کی قیادت اور نوجہوان نسل جو یورپ اور امریکہ سے پڑھ کر آئی ہے اس کی خواہش ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے آپ کو منسلک کرے‘ لہٰذا ہندوستان‘ چین اور روس کا اتحاد مجھے نظر نہیں آتا۔

حصہ