رشوت لالچ، حرص و ہوس اور خودغرضی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ رشوت ستانی ریاستی اداروں اور اُن کے ملازمین، بااثر اشرافیہ اور حکومتی دلالوں کا گورکھ دھندا ہے، ایک جال ہے جس میں ضرورت مند عوام کو پھنسا کر اُن سے اُن کے جائز کام کے پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔ یہ عوام دشمن لوگوں کا ظالمانہ اور استحصالی طریقہ کار ہے جس میں عوام کی اکثریت مجبور و بے بس ہوچکی ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں میں یہ نظام سکۂ رائج الوقت بن چکا ہے۔ حالانکہ ہر ملک میں اس کے سدباب کے لیے قوانین اور سزائیں موجود ہیں، مگر کیا کیجیے جب باڑھ ہی کھیت کو کھا رہی ہو! قانون نافذ کرنے والے خود اس جرم میں ملوث ہیں۔ ضرورت مندوں اور سائلین کو تمام تر قانونی دستاویزات کے باوجود اتنا تنگ کرتے ہیں کہ بے چارے مجبور ہوکر رشوت دینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور اس مجبوری کی وجہ سے گناہ گار بن جاتے ہیں، کیوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’رشوت دینے اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔‘‘
کچھ لوگوں نے تو اپنی عادت بنا لی ہے کہ جو بھی جائز اور ناجائز کام کرانا ہو رشوت دو اور ناممکن کو ممکن بنا لو۔ رشوت ستانی کی وجہ سے حق دار اور قابل نوجوان محروم رہ جاتے ہیں، اور نااہل نہ صرف نوکری بلکہ اعلیٰ مناصب حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ زندگی کا کوئی شعبہ رشوت ستانی کے عفریت سے محفوظ نہیں ہے۔ برصغیر ہند و پاک اور بنگلہ دیش کے علاوہ افریقی ممالک، حتیٰ کہ جاپان کے وزرائے اعظم بھی اس میں ملوث پائے گئے اور استعفیٰ دینا پڑا۔
رشوت ملکی نظام کے لیے ذیابیطس کی طرح لاعلاج بیماری بن چکی ہے جو ریاست کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے۔ تھانہ، کچہری، اسپتال، تمام سرکاری دفاتر… ہر جگہ یہی سکہ چلتا ہے۔ یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ ’’لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا‘‘۔
یہ بات درست ہے کہ پر نالہ اوپر سے نیچے گرتا ہے، مچھلی سر سے سڑنا شروع ہوتی ہے۔ حدیثِ قدسی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک بادشاہ نے اپنے لشکر کے ساتھ دوپہر کے وقت ایک باغ میں پڑاؤ ڈالا۔ اس نے باغباں سے کچھ پینے کو مانگا۔ باغباں نے انار کے درخت سے ایک انار توڑا، نچوڑا اور پورا کٹورا بھر گیا۔ مٹھاس بھی خوب تھی۔ بادشاہ نے سوچا یہ باغ میری ملکیت میں کیوں نہیں ہے؟ بادشاہ نے پھر طلب کیا۔ باغباں نے پھر اسی درخت سے انار توڑا۔ اس بار نہ انار میں اتنی مٹھاس تھی اور نہ ہی کٹورا بھرا۔ بادشاہ نے اس فرق کے بارے میں جب باغباں سے پوچھا، تو باغباں نے جواب دیا: لگتا ہے حکمراں کی نیت خراب ہوگئی ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر بادشاہ باغ سے بغیر اجازت پھل توڑ لے تو اس کے سپاہی پورے باغ کو اجاڑ دیں گے۔‘‘
آج ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور دنیا کے بیشتر ممالک میں یہی کیفیت پائی جارہی ہے۔ کروڑوں روپے خرچ کرکے دولت مند طبقہ الیکشن لڑتا ہے اور کامیاب ہوکر اربوں کھربوں کی رشوت اور بدعنوانی کے ذریعے ملک کو لوٹتا ہے۔ وزیر، سفیر، ارکان قومی و صوبائی اسمبلی، جرنیل، بیوروکریٹ، پولیس اور اس کے افسران سب بہتی گنگا میں ڈبکیاں لگاتے ہیں اور عوام دن بہ دن کنگال ہوتے جارہے ہیں۔
جج خرید لے یہ سستے میں بک جاتا ہے
عدالت میں کیوں کھڑا ہے وکیل کے ساتھ
خیانت بھی لالچ، حرص، بدعہدی کی پیداوار ہے۔ ’’مومن وہ ہے جو امانت میں خیانت نہیں کرتا اور عہد کو پورا کرتا ہے۔‘‘( سورہ المومنین)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ایک مسلمان سے ہر طرح کا گناہ سرزد ہوسکتا ہے، مگر وہ خائن اور بدعہد نہیں ہوسکتا۔‘‘ مطلب صاف ہے کہ وہ جھوٹا نہیں ہوتا۔ نبوت سے سرفراز ہونے سے پہلے سارا مکہ آپؐ کو ’’امین‘‘ اور ’’صادق‘‘ کہہ کر پکارتا تھا۔ ہجرت کی رات آپؐ نے اہلِ مکہ کی تمام امانتیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حوالے کیں اور ہدایت دی کہ صبح تمام لوگوں تک اُن کی امانتیں پہنچا دینا۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے ’’ایمان والو! امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو۔‘‘
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ منبر پر صحابہ کرامؓ سے مخاطب ہونے کے لیے کھڑے ہوئے تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ’’عمر! آپ میرے اس سوال کا جواب دیں کہ آپ نے بیت المال میں آئے ہوئے مالِ غنیمت میں کیوں خیانت کی ہے؟ کل جو کپڑا تقسیم ہوا اُس میں تو آپ کا جبہ نہیں بن سکتا تھا، پھر یہ کیسے بنا؟‘‘ حضرت عمرؓ کے بیٹے عبداللہ بن عمرؓ نے کہا کہ ’’میں نے اپنا حصہ بھی ابو کو دے دیا تھا۔‘‘
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مرگیا تو اللہ قیامت میں مجھ سے پرسش کرے گا۔‘‘
ریاست کے تمام بڑے چھوٹے منصب داروں کے لیے وسائل سمیت ہر چیز امانت ہے۔ ملکی خزانہ ہو یا سرکاری و عسکری معلومات… سب کی حفاظت کرنا درجہ بہ درجہ ہر سطح کے منصب دار کی ذمے داری ہے۔ اس میں خیانت قومی جرم ہے اور غداری کے زمرے میں آتا ہے۔
چین جیسے لادین ملک میں رشوت لینے یا ملکی راز کو اِفشا کرنے والوں کو موت کی سزا دی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسے مجرموں کو سیاسی چھتری حاصل ہے۔ احتساب کا قومی ادارہ بھی لوٹی ہوئی دولت واپس لینے اور سزا دینے کے بجائے ’’پلی بارگین‘‘ کے ذریعے لوٹے ہوئے مال کا کچھ فیصد لے کر لٹیروں کو معاف کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب کر اپنی سالمیت کو خطرے میں ڈال چکا ہے، اور ہم آئی ایم ایف کے غلام بن چکے ہیں۔ جب تک یہ قومی مجرم قرار واقعی سزا نہیں پائیں گے تب تک ملک سے غربت اور بے روزگاری ختم نہیں ہوگی۔ نہ ہم امریکا اور آئی ایم ایف کی غلامی سے آزاد ہوں گے، نہ ہی عوام کو روزمرہ کی بنیادی ضروریات میسر ہوں گی۔ اگر ملک کا سابقہ نیول چیف منصورالحق آبدوز کی خریداری کا مجرم ٹھیرائے جانے کے باوجود آزاد ہو تو اللہ خیر۔ ریٹائر ہونے والا ہر جرنیل ملک سے باہر چلا جاتا ہے اور اربوں کھربوں کی جائداد کا مالک ہوجاتا ہے۔
تم ڈالر کی کھنکتی ہوئی جھنکاروں میں
اپنی غیرت کو بیچ آئے ہو بازاروں میں
مگر اس کا ایک مؤثر ترین علاج عوام کے پاس ہے۔ برصغیر کے تمام ممالک جمہوری ہیں اور ووٹ عوام کی امانت ہے، اور اتفاق سے ان تمام ممالک میں 2024ء کے اوائل میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ لہٰذا عوام اپنی اس مقدس امانت یعنی اپنا ووٹ عوام دشمن، ملک دشمن، خائن، بددیانت، بد عہد اور راشی سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں کو ہرگز نہ دیں، ورنہ پھر پانچ سال کے لیے پچھتانا پڑے گا۔ ایسے لوگوں کی پہچان قرآن مجید میں موجود ہے ’’جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ تو یہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔‘‘(البقرہ)
اے اہلِ وطن سوچو تو ذرا یہ کیسا عالم طاری ہے
کب رات ڈھلی کب صبح ہوئی یہ خواب ہے یا بیداری ہے
اس گلشن کی بربادی میں کچھ برق و خزاں کا ہاتھ نہیں
تم جس کو سمجھتے ہو مالی یہ پھولوں کا بیوپاری ہے
پورے برصغیر کی عوام کی حالت نا گفتہ بہ ہے۔
قمقمے جلے ہوئے گوشت کی بو دیتے ہیں
اسپتالوں میں جراثیم نمو دیتے ہیں
خون بھی ملتا ہے ہوٹل میں رگِ تار کے ساتھ
عمداً زہر دیا جاتا ہے خوراک کے ساتھ