طوفان الاقصیٰ… کیا یہ آخری جنگ ہوگی؟

604

اگر میں یہ کہوں کہ طوفان الاقصیٰ فلسطینی مزاحمت کاروں اور اسرائیلیوں کے درمیان آخری جنگ ہوسکتی ہے تو میں کچھ زیادہ ہی پُرامید ہوں گا۔ یہ میں اس بنیاد پر بھی کہنے میں حق بجانب ہوں کہ اسرائیل میں صہیونی رہنماؤں کے درمیان شدید اندرونی اختلافات پیدا ہوچکے تھے، البتہ اس جنگ کے ری ایکشن میں ابتداً ان کی باہمی چپقلش میں کمی واقع ہوگئی تھی لیکن جنگ بندی کے بعد اختلافات پھر سے ابھر کر سامنے آچکے ہیں۔ شدت پسند صہیونی احزاب جنگ کا خاتمہ نہیں چاہتے، وہ نیتن یاہو حکومت سے الحاق ختم کرنے اور اسے گرانے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ لہٰذا عین ممکن ہے کہ اندرونی تنازعات جلد یا بدیر اسرائیلیوں کے ہاتھوں اسرائیل کے خاتمے کا سبب بن جائیں۔ اس سے قبل تاریخ میں یہود کو دو بار ریاست بنانے کا موقع مل چکا ہے، لیکن خود یہودیوں کی باہمی کشمکش نے ہر دو بار ان ریاستوں کو برباد کردیا تھا۔

مذکورہ دونوں ریاستیں 80 سال تک پہنچنے سے پہلے پہلے شکست و ریخت کا شکار ہوگئی تھیں جسے 80 ویں سال کی لعنت کے طور پر یہودی تاریخ میں یاد کیا جاتا ہے۔ جس طرح ان کے لیڈروں نے اپنی پہلی اور دوسری یہودی ریاستیں ختم کی تھیں، بالکل اسی طرح حالیہ اسرائیلی ریاست کا خاتمہ بھی 80 ویں سال سے پہلے پہلے متوقع ہے، اسی طرح جیسے ماضیِ قریب میں بہت سے دیگر ممالک داخلی تنازعات کی وجہ سے ختم ہوچکے ہیں۔

لہٰذا یہ عین ممکن ہے کہ اسرائیل بھی اپنا وجود کھو دے، خاص طور پر جب کہ امریکا جسے اسرائیل کی اہم لائف لائن سمجھا جاتا ہے، خود داخلی سیاسی تنازعات اور معاشی بحرانوں میں ڈوب چکا ہے، لہٰذا یہ اندرونی حالات اُسے اپنے اس صہیونی منصوبے سے پیچھے ہٹ جانے پر مجبور کردیں۔ اسے اسرائیل کے لیے آٹھویں دہائی کی وہ لعنت جس کا ذکر اوپر ہوا، بھی کہا جاتا ہے۔ اس تاریخی حقیقت سے تمام صہیونی عالمی طور پر خوف و ہراس کا شکار ہوچکے ہیں۔ یہ کیفیت جس سے ہر اسرائیلی پریشان ہے بالکل ایسے ہی ہے جیسے مہلک دماغی رسولی میں مبتلا کوئی شخص اپنی موت کا منتظر ہو کہ کسی بھی لحظہ خاتمہ ہوا ہی چاہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تاریخ میں دونوں یہودی ریاستیں 80 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی زوال پذیر ہوچکی ہیں، اور یہی وہ مترکبہ لعنت ہے جسے اسرائیل کا میڈیا خود بھی پھیلا رہا ہے۔ وہ گھبراہٹ، الجھن اور بے بصارتی کا شکار ہوکر اسے ایک لاینحل یعنی لاعلاج لازمی وقوعہ سمجھتے ہیں، جیسے کہ کسی مہلک موروثی بیماری میں مبتلا شخص ہو جسے اپنے وجود و بقاء کا معاملہ درپیش ہو جب کہ نہ اُس کے پاس کوئی دوا ہو اور نہ کوئی اور طریقہ علاج، جب کہ وہ اپنے انجام کے گڑھے کی جانب قدم بقدم بڑھتا جا رہا ہو۔ اسرائیل کی حالت یہ ہے کہ وہ ہر روز اپنے انجام کی جانب قدم اٹھانے پر مجبور ہے۔ اس صورتِ حال میں نہ تو امریکا، نہ ہی یورپ اور نہ ہی اسرائیل کے عرب اتحادی ملک اسرائیل کے متحارب فریقوں کے درمیان مصالحت کرانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں اور نہ ہی انہیں ناگزیر حتمی انجامِ بد سے ہی بچا لینے کی قدرت رکھتے ہیں۔

عملی طور پر اسرائیلی پچھلے 5 سال سے شدید اندرونی تنازعات میں رہ رہے ہیں، جس سے وہاں بگاڑ کی بہت سی صورتیں سامنے آچکی ہیں۔ ان پانچ سالوں میں وہاں 5 انتخابات کرائے گئے اور کئی ناکام حکومتیں بنائی گئی ہیں، مگر کوئی بھی ان کی باہمی مصالحت کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکا، البتہ طوفان الاقصیٰ نے صہیونیوں کو مشترکہ دشمن حماس سے جنگ کی وجہ سے مجتمع کردیا تھا، لہٰذا ان کے درمیان تنازعات کی حدت وقتی طور پر کم ہوگئی تھی، لیکن اب حالیہ جنگ بندی انھیں پھر سے اندر سے تتر بتر کردے گی۔

میں آپ سے خوابوں یا خواہشات کی بات نہیں کررہا، بلکہ یہ وہ حقائق ہیں جن سے خود اُن کے اخبارات اور ذرائع ابلاغ بھرے پڑے ہیں جو اُن کی دگرگوں کیفیات کے عکاس ہیں۔ اس وقت اُن کے مؤرخ، مفکر اور سیاست دان اس پر کھل کر بات کررہے ہیں۔ یہ ہے وہ اہم اور تاریک منظرنامہ جس سے اسرائیلی خوف زدہ ہیں۔ اس بارے میں اسرائیلی صدر نے طوفان الاقصیٰ سے پہلے ایک طویل نشری تقریر میں خبردار کردیا تھا۔

اسرائیل میں موجود انتہاپسند، فلسطینیوں کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے لیے بہت پُرجوش ہیں چاہے انھیں اس کے بھاری نقصانات ہی کیوں نہ ہوں، یہ اس لیے کہ اُن کے خیال میں جنگ کا جاری رہنا اُن کو داخلی صورتِ حال کے پھٹ پڑنے سے بچانے کا سبب بن جائے گا۔ ایسا کرنا انہیں شدتِ شکست کو سمجھنے سے صرفِ نظر کرنے کا جذبہ فراہم کردے گا۔

7 اکتوبر اور اس کے بعد خدا کی نشانیوں کے ظہور نے ہم سب کو حیرت زدہ کردیا ہے جس سے مومنوں کے یقین میں مزید اضافہ ہوا ہے اور وہ خدا کی فتح کو افق پر نمودار ہوتے دیکھ رہے ہیں۔

آپ جنگ کے بعد بہت سے حیرت انگیز واقعات کو نمودار ہوتا دیکھیں گے۔ یاد رکھیں، قوموں کی زندگی میں بڑی تبدیلیوں کے لیے صبر اور یقین پر کاربند رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب وہ دن آئے گا تو مومن خدا کی دی ہوئی فتح پر خوش ہوں گے۔ ہمیں یقین ہے اس آنے والے کل کو باذن اللہ ہم جلد دیکھیں گے۔

حصہ