قیصروکسریٰ قسط(130)

264

کلاڈیوس نے کہا۔ ’’میں مسلمانوں کے عزائم کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ اسلام کے ساتھ عرب میں جو انقلاب رونما ہورہا ہے وہ انسانی تاریخ کا ایک عظیم ترین معجزہ ہے۔ موتہ اور تبوک پر ان کے حملے ہمارے لیے کسی بڑی پریشانی کا باعث نہ تھے لیکن امن کے چند مہینوں میں عرب کی جو کایا پلٹ ہوئی ہے وہ ہمارے لیے سرحدی لڑائی سے کہیں زیادہ تشویشناک ہے۔ پچھلے سال جب میں نے تمہیں یروشلم آنے اور وہاں سے تبوک یا اس سے آگے اپنے وطن کی سیاحت کی دعوت دی تھی تو مجھے یقین تھا کہ عرب کے تازہ حالات سنتے ہی تم سفر پر آمادہ ہوجائو گے۔ میں تمہاری رومی حکومت کے ایک جاسوس کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک ایسے انسان کی حیثیت سے وہاں بھیجنا چاہتا تھا۔ جن کی گواہی پر مجھے یقین آسکتا تھا۔ موتہ اور اس کے بعد تبوک پر مسلمانوں کے حملوں کی نسبت میرے لیے یہ بات کہیں زیادہ اہم تھی کہ اسلام نے شراب، جوئے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ اور اس کے باوجود عرب جوق در جوق یہ دین قبول کررہے ہیں۔ اسلام نے چوری اور بدکاری کے لیے ہولناک سزائیں مقرر کی ہیں۔ اور عربوں کی تمام وہ بری عادات یکسر بدل دی ہیں جن پر وہ صدیوں سے فخر کرتے چلے آرہے تھے۔ مکہ میں قریش کی شکست کے بعد بھی ہم یہ سوچتے تھے کہ عرب کے طول و عرض میں ان بتوں کی پوجا کرنے والے قبائل پوری شدت کے ساتھ اسلام کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے، جو کعبہ کے اندر توڑ دیے گئے ہیں۔ ہمیں یہ بھی یقین تھا کہ عربوں کی قبائلی عصبیتیں انہیں ہمیشہ ایک ایسے دین کے خلاف اُکساتی رہیں گی جس کا مقصد نسل اور خون کے امتیازات کو مٹانا ہے۔ پھر ہماری آخری اُمید یہ تھی کہ جب مسلمان مکہ سے آگے بڑھیں گے تو انہیں سیکڑوں قبائل کی متحدہ قوت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور ان کا انجام اس ندی سے مختلف نہیں ہوگا جو بالآخر صحرا کی پیاسی ریت میں جذب ہو کر رہ جاتی ہے۔ لیکن گزشتہ ایک سال کے واقعات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ عرب کے انقلاب کی وسعت اور گیرائی ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ عرب سے آئے دن ہمیں صرف اس قسم کی اطلاعات ملتی ہیں کہ آج فلاں قبیلے کے وفد نے محمدؐ کی خدمت میں حاضری دی ہے اور آج فلاں علاقے کے اتنے خاندان مسلمان ہوگئے ہیں جو لوگ چند سال قبل اسلام کے مبلغین کو قتل کیا کرتے تھے اب اسلام کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بذاتِ خود مدینہ جاتے ہیں مجھے تمام قبائل کے نام یاد نہیں رہے لیکن تم حیران ہوگے کہ حضرموت اور یمن سے لے کر یمامہ تک عرب کے بیشتر قبائل اسلام قبول کرچکے ہیں۔ قریش مکہ نے کافی مدت مقابلہ کرنے کے بعد اپنی شکست کا اعتراف کیا تھا۔ لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پورا عرب اس دین کی بے پناہ اخلاقی اور روحانی قوت کے سامنے ہتھیار ڈال چکا ہے۔ یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے اپنے اسلاف کے بت توڑ رہے ہیں۔ اہل عرب پہلی بار ایک حکومت کے جھنڈے تلے متحد اور منظم ہورہے ہیں۔ اور میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ جب شاہراہِ حیات کا یہ نیا قافلہ اپنی منازل کی طرف رُخ کرے گا تو روم اور ایران کی ساری عظمتیں اس کے راستے کے گردو غبار میں گم ہو کر رہ جائیں گی‘‘۔

کلاڈیوس یہ کہہ کر خاموش ہوگیا اور عاصم اور فسطنیہ دیر تک سکتے کے عالم میں اس کی طرف دیکھتے رہے۔ بالآخر عاصم نے کہا۔ ’’آپ مجھے دوبارہ اپنے وطن جانے کی دعوت دے رہے ہیں اور مجھے ر ہے کہ اس دفعہ میں شاید انکار نہ کرسکوں‘‘۔

کلاڈیوس نے جواب دیا۔ ’’عاصم! اگر میں ایک عرب ہوتا اور تمہاری طرح وہاں کے حالات سے مایوس اور بد دل ہو کر نکلتا اور پھر غریب الوطنی میں مجھے کوئی یہ مژدہ سناتا کہ جس زمین پر تم نے جہالت اور ظلم کی اندھی اور بہری قوتوں کی ہولناکیاں دیکھی تھیں، وہاں رحم، عدل اور انصاف کے چراغ روشن کیے جارہے ہیں تو میرے دل میں وہاں جانے کی خواہش ضرور بیدار ہوتی۔ عاصم تم میرے دوست اور محسن ہو۔ تم نے مجھے موت کے جبڑوں سے نکالا تھا۔ اور میں اس احسان کا بدلہ چکانے کے لیے تمہیں قسطنطنیہ لے گیا تھا۔ لیکن آج میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اگر عرب کے متعلق جو کچھ میں نے سنا ہے صحیح ہے تو زندگی کی جو مسرتیں وہاں تمہارا انتظار کررہی ہیں وہ شاید تمہیں قیصر کے ایوان میں بھی نصیب نہ ہوں۔ اگر خدا کو عرب کی حالت پر رحم آگیا ہے اور وہاں اس کی رحمتوں کا نزول ہورہا ہے تو میں یہ چاہتا ہوں کہ تم وہاں جا کر اپنا دامن بھرلو۔ اگر عرب کے متعلق میری معلومات سراسر غلط نہیں تو میں پورے وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ تم وہاں جا کر واپس آنے کی بجائے فسطنیہ اور یونس کو بھی وہیں بلا لو گے اور اس کے بعد یہ ممکن ہے کہ زندگی میں ہماری ملاقات نہ ہوسکے۔ لیکن میرے لیے یہ اطمینان کافی ہوگا کہ تم اس دنیا میں اپنا صحیح مقام حاصل کرچکے ہو‘‘۔

عاصم بولا۔ ’’کلاڈیوس سچ کہو۔ کیا میرے متعلق تمہارے اضطراب کی وجہ یہ نہیں کہ تم میرے لیے دمشق کو غیر محفوظ سمجھتے ہو‘‘۔

کلاڈیوس نے جواب دیا۔ ’’میرے دوست! تم یہ جانتے ہو کہ تمہاری حفاظت کے لیے میں اپنی جان تک قربان کرسکتا ہوں‘‘۔

’’یہ میں جانتا ہوں۔ لیکن تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا‘‘۔

کلاڈیوس نے قدرے توقف کے بعد کہا۔ ’’اگر تم اس سوال کے جواب پر اس قدر مصر ہو تو سنو! میں ان لوگوں میں سے ہوں جو عرب کے ساتھ رومی حکومت کا تصادم ناگزیر سمجھتے ہیں اور جب سے میں نے یہ سنا ہے کہ نجران کے تمام عیسائی قبائل مسلمان ہوچکے ہیں۔ اور بعض غسانی رئوسا بھی اسلام کی طرف مائل ہیں۔ میرا یہ یقین اور پختہ ہوگیا ہے کہ کلیسا کے اکابر قیصر کو زیادہ دیر آرام سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ وہ عیسائیت کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کے خلاف تلوار اٹھانے پر مجبور ہوجائے گا۔ اور مجھے یہ کہتے ہوئے ندامت محسوس ہوتی ہے کہ جب عرب اور شام کا معرکہ شروع ہوگا تو تم یہاں صرف ایک عرب کی حیثیت سے دیکھے اور پہچانے جائو گے جن لوگوں نے فسطنیہ کے نانا کو اس کی عظیم خدمات کے باوجود ایرانیوں کا طرفدار سمجھ کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، وہ تمہاری خدمات کا لحاظ نہیں کریں گے۔ تمہارے خلاف عوام کو مشتعل کرنے کے لیے کسی متعصب پادری کا یہ کہہ دینا کافی ہوگا۔ کہ تم یثرب کے باشندے ہو اور تمہاری دلی ہمدردیاں مسلمانوں کے ساتھ ہیں۔ ان حالات میں رومی حکومت کو اپنی وفاداری کا ثبوت دینے کے لیے تم عربوں کے خلاف تلوار اٹھانے پر مجبور ہوجائو گے۔ عاصم میں تمہیں اس امتحان سے بچانا چاہتا ہوں۔ میں یہ جانتا ہوں کہ تمہاری جنگ کسی دشمن کے خلاف نہیں بلکہ اپنے ضمیر کے خلاف ہوگی اور میرے نزدیک تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو اپنے ضمیر کی موت کے بعد صرف اس بات پر قانع رہ سکتے ہیں کہ انہیں چند سال اور زندگی کے سانس لینے کی مہلت مل گئی ہے‘‘۔

فسطنیہ نے کلاڈیوس سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ میں اس گھر کے بدلے اپنے شوہر کے ضمیر کی قربانی مانگوں گی تو آپ غلطی پر ہیں۔ خدا کی قسم! اگر اہلِ روم اتنے ناشکر گزار ہیں تو میں اسی وقت دمشق چھورنے کے لیے تیار ہوں۔ میرے لیے صحرا کا ایک جھونپڑا زیادہ آرام دہ ہوگا‘‘۔

کلاڈیوس نے جواب دیا۔ ’’میری بہن، تم سین کی بیٹی ہو اور تمہارے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ جنگ کے وقت قوموں کی تقدیر ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آجاتی ہے جو دوست اور دشمن میں تمیز نہیں کرتے یہ ہوسکتا ہے کہ جنگ شروع نہ ہو اور دمشق میں آپ کی ساری زندگی خیریت سے گزر جائے لیکن یہ ممکن نہیں کہ جنگ شروع ہوجائے اور عاصم اس سے الگ تھلگ رہ کر اس گھر کے اندر اطمینان کا سانس لے سکے۔ جنگ کے ایام میں قیصر کی رعایا کا جو فرد مسلمانوں کے خلاف تلوار اُٹھانے میں پس و پیش کرے گا، اُسے حکومت کلیسا کا دشمن سمجھا جائے گا۔ میری باتوں کو بُرا نہ مانیں، میں اس وقت جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ دوستی کے تقاضوں سے مجبور ہو کر کہہ رہا ہوں۔ کلاڈیوس یہ کہہ کر خاموش ہوگیا۔ اور عاصم دیر تک سر جھکائے سوچتا رہا۔ بالآخر اس نے فسطنیہ کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’فسطنیہ! ہم وہاں جارہے ہیں، ہم تینوں وہاں جارہے ہیں۔ تم تیار ہوجائو۔ ہم تین دن کے اندر اندر یہاں سے روانہ ہوجائیں گے‘‘۔

فسطنیہ نے جواب دیا۔ ’’میں کل ہی روانہ ہونے کے لیے تیار ہوں‘‘۔

کلاڈیوس نے کہا۔ ’’نہیں عاصم یہ بہتر ہوگا کہ میں انطاکیہ سے واپس آجائوں۔ اس کے بعد میں عرب کی سرحد تک تمہارے سفر کا انتظام کردوں گا‘‘۔

’’آپ کب واپس آئیں گے؟‘‘

’’مجھے دس دن سے زیادہ نہیں لگیں گے‘‘۔

فسطنیہ نے کہا۔ مجھے ڈر ہے کہ دس دن بعد ان کا ارادہ بدل جائے گا‘‘۔

عاصم مسکرایا۔ ’’میں اپنے لیے نہیں یونس کے لیے جارہا ہوں۔ اور اب اگر روم کی پوری فوج میرے راستے میں کھڑی ہوجائے تو بھی میں اپنا ارادہ تبدیل نہیں کروں گا‘‘۔

قریباً دو ماہ بعد ایک سہ پہر کے وقت عاصم اور فسطنیہ ایک ٹیلے کے سائے میں گھوڑے روک کر سامنے یثرب کی پہاڑیوں اور نخلستان کے مناظر دیکھ رہے تھے۔ یونس جس کا چہرہ گرمی سے مرجھایا ہوا تھا۔ اپنے باپ کے ساتھ سوار تھا۔ اُس نے پوچھا۔ ’’ابا جان! یہ آپ کا شہر ہے؟‘‘۔

’’ہاں بیٹا‘‘۔

’’پھر آپ رُک کیوں گئے ہیں۔ مجھے پیاس لگ رہی ہے‘‘۔

’’گھبرائو نہیں بیٹا، ہم ابھی وہاں پہنچ جائیں گے‘‘۔ عاصم نے یہ کہہ کر گھوڑے کو ایڑ لگادی۔

تھوڑی دیر بعد یونس نے پوچھا۔ ’’ابا جان! وہاں پانی مل جائے گا نا؟‘‘۔

’’ہاں بیٹا! وہاں تمہارے لیے کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی‘‘۔

وہ کچھ دیر خاموشی سے چلتے رہے۔ عاصم کے دل کی گہرائیوں سے ماضی کی انت گنت یادیں ابھر رہی تھیں اور وہ نمی جو اس نے یثرب کی پہلی جھلک دیکھتے وقت اپنی آنکھوں میں محسوس کی تھی بتدریج آنسوئوں میں تبدیل ہورہی تھی۔

جب وہ ایک نخلستان کے قریب سے گزر رہے تھے تو عاصم نے مڑ کر فسطنیہ کی طرف دیکھا اور اپنا گھوڑا روک کر کہا۔ ’’فسطنیہ یہ سمیرا کا گھر ہے اور اب شاید وہاں مجھے پہچاننے والا بھی کوئی نہ ہو‘‘۔

یونس نے سوال کیا۔ ’’ابا جان! یہاں کے لوگ کسی کو پہچانے بغیر پانی نہیں دیتے؟‘‘۔

(جاری ہے)

حصہ