-1 روزے کے عظیم اجر اور عظیم فائدوں کو نگاہ میں رکھ کر پورے ذوق و شوق کے ساتھ روزہ رکھنے کا اہتمام کیجیے۔ یہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا بدل کوئی دوسری عبادت نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ ہر امت پر فرض رہاہے۔ خداوند تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ متقی اور پرہیزگار بن جائو‘‘۔
نبیؐ نے روزے کے اس عظیم مقصد کو یوں بیان فرمایا:
جس شخص نے روزہ رکھ کر جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ کو اس سے دلچسپی نہیں کہ وہ بھوکا اور پیاسا رہتا ہے۔ (بخاری)
اور آپؐ نے ارشاد فرمایا:
جس شخص نے ایمانی کیفیت اور احتساب کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا تو اللہ اس کے ان گناہوں کو معاف فرمادے گا جو پہلے ہوچکے ہیں۔ (بخاری)
-2 رمضان کے روزے پورے اہتمام کے ساتھ رکھیے اور کسی شدید بیماری یا عذر شرعی کے بغیر کبھی روزہ نہ چھوڑیئے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے:
جس شخص نے کسی بیماری یا شرعی عذر کے بغیر رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑا تو عمر بھر کے روزے رکھنے سے بھی ایک روزے کی تلافی نہ ہوسکے گی۔ (ترمذی)
-3 روزی میں ریاکاری اور دکھاوے سے بچنے کے لیے معمول کے مطابق ہشاش بشاش اور چاق و چوبند اور کاموں میں لگے رہیے اور اپنے انداز و اطوار سے روزے کی کمزوری اور سستی کا اظہار نہ کیجیے۔ حضرت ابوہریرہؓ کا ارشاد ہے کہ: آدمی جب روزہ رکھے تو چاہیے کہ حسب معمول تیل لگائے کہ اس پر روزے کے اثرات نہ دکھائی دیں۔
-4 روزے میں نہایت اہتمام کے ساتھ ہر برائی سے دور رہنے کی بھرپور کوشش کیجیے اس لیے کہ روزے کا مقصد ہی زندگی کو پاکیزہ بنانا ہے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے:
روزہ ڈھال ہے اور جب تم میں سے کوئی روزے سے ہو تو اپنی زبان سے کوئی بے شرمی کی بات نہ نکالے اور نہ شور و گل کرے۔ اور اگر کوئی اس سے گالی گلوچ کرنے لگے یا لڑائی پرآمادہ ہو تو اس روزہ دار کو سوچنا چاہیے کہ میں تو روزہ دار ہوں (بھلا میں کیسے گالی کا جواب دے سکتا ہوں یا لڑ سکتاہوں) (بخاری و مسلم)
-5 احادیث میں روزے کا جو عظیم اجر بیان کیا گیا ہے اس کی آرزو کیجیے اور خاص طور پر افطار کے قریب اللہ سے دعا کیجیے کہ الٰہی میرے روزے کو قبول فرما اور مجھے وہ اجر و ثواب دے جس کا تو نے وعدہ کیا ہے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے روزے دار جنت میں ایک مخصوص دروازے سے داخل ہوں گے اور اس دروازے کا نام ریان ہے، جب روزے دار داخل ہوچکیں گے تو یہ دروازہ بند کردیا جائے گا، پھر کوئی اس دروازے سے نہ جاسکے گا۔ (بخاری)
اور آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ قیامت کے روز روزہ سفارش کرے گا اور کہے گا پروردگار! میں نے اس شخص کو دن میں کھانے پینے اور دوسری لذتوں سے روکے رکھا، الٰہی! تو اس شخص کے حق میں میری سفارش قبول فرما اور اللہ اس کی سفارش کو قبول فرمالے گا۔ (مشکوٰۃ)
اور نبیؐ نے یہ بھی فرمایا کہ افطار کے وقت روزہ دار جو دعا مانگے اس کی دعا قبول کی جاتی ہے، رد نہیں کی جاتی۔ (ترمذی)
-6 روزے کی تکلیفوں کو ہنسی خوشی برداشت کیجیے اور بھوک اور پیاس کی شدت یا کمزوری کی شکایت کرکے روزے کی ناقدری نہ کیجیے۔
-7 سفر کے دوران یا سفر کی شدت میں روزہ نہ رکھ سکتے ہوں تو چھوڑ دیجیے اور دوسرے دنوں میں اس کی قضا کیجیے۔ قرآن میں ہے:
’’جو کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرلے‘‘۔ (البقرہ185/2)
حضرت انسؓ فرماتے ہیں جب ہم لوگ نبیؐ کے ساتھ رمضان میں سفر پر ہوتے تو کچھ لوگ روزہ رکھتے اور کچھ لوگ نہ رکھتے، پھر نہ تو روزہ دار روزہ چھوڑنے والے پر اعتراض کرتا اور نہ روزہ چھوڑنے والا روزہ دار پر اعتراض کرتا۔ (بخاری)
-8 روزہ میں غیبت اور بدنگاہی سے بچنے کا خاص طور پر اہتمام کیجیے، نبیؐ کا ارشاد ہے:
روزے دار صبح سے شام تک اللہ کی عبادت میں ہے جب تک وہ کسی کی غیبت نہ کرے اور جب وہ کسی کی غیبت کر بیٹھتا ہے تو اس کے روزے میں شگاف پڑ جاتا ہے۔ (الدیلمی)
-9 حلال روزی کا اہتمام کیجیے، حرام کمائی سے پلنے والے جسم کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی۔ نبیؐ کا ارشاد ہے حرام کمائی سے جو جسم پلا ہو وہ جہنم ہی کے لائق ہے۔ (بخاری)
-10 سحری ضرور کھایئے اس سے روزہ رکھنے میں سہولت ہوگی اور کمزوری اور سستی پیدا نہ ہوگی، نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’سحری کھالیا کرو، اس لیے کہ سحری کھانے میں برکت ہے‘‘۔ (بخاری)
اور نبیؐ نے یہ بھی فرمایا:
’’سحری کھانے میں برکت ہے کچھ نہ ہو تو پانی کے چند گھونٹ ہی پی لیا کرو اور اللہ کے فرشتے سحری کھانے والوں پر سلام بھیجتے ہیں۔ (احمد)
اور آپؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:
’’دوپہر کو تھوڑی دیر آرام کرکے قیام اللیل میں سہولت حاصل کرو اور سحری کھا کر دن میں روزے کے لیے قوت حاصل کرو۔ (ابن ماجہ)
اور صحیح مسلم میں ہے، نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں صرف سحری کھانے کا فرق ہے‘‘۔
-11 سورج غروب ہوجانے کے بعد افطار میں تاخیر نہ کیجیے اس لیے کہ روزہ کا اصل مقصود فرمانبرداری کا جذبہ پیدا کرنا ہے نہ کہ بھوکا پیاسا رکھنا، نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’مسلمان اچھی حالت میں رہیں گے جب تک افطار کرنے میں جلدی کریں گے‘‘۔
-12 افطار کے وقت یہ دعا پڑھیے:
اللَهُمَّ لك صُمْتُ، وعلى رِزْقِكَ أفْطَرْتُ(مسلم)
’’الٰہی! میں نے تیرے لیے ہی روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا‘‘۔
اور جب روزہ افطار کرلیں تویہ دعا پڑھیے:
ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ(ابودائود)
’’پیاس جاتی رہی، رگیں تروتازہ ہوگئیں اور اجر بھی ضرور ملے گا اگر اللہ نے چاہا‘‘۔
-13 کسی کے یہاں روزہ افطار کریں تو یہ دعا پڑھیے:
افطر عندکم الصائمون و اکل طعامکم الابرار وصلت علیکم الملائکۃ (ابودائود)
’’(خدا کرے) تمہارے یہاں روزے دار روزے افطار کریں اور نیک لوگ تمہارا کھانا کھائیں اور فرشتے تمہارے لیے رحمت کی دعائیں کریں‘‘۔
-14 روزہ افطار کرانے کا بھی اہتمام کیجیے، اس کا بڑا اجر ہے، نبیؐ کا ارشاد ہے:
جو شخص رمضان میں کسی کا روزہ کھلوائے تو اس کے صلے میں اللہ اس کے گناہ بخش دے گا اور اس کو جہنم کی آگ سے نجات دے گا اور افطار کرانے والے کو روزے دار کے برابر ثواب دے گا اور روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہوگی‘‘۔ لوگوں نے کہا یا رسولؐ اللہ!
ہم سب کے پاس اتنا کہاں ہے کہ روزے دار کو افطار کرائیں اور اس کو کھانا کھلائیں۔ ارشاد فرمایا: صرف ایک کھجور سے زیادہ دودھ اور پانی کے ایک گھونٹ سے افطار کرادینا بھی کافی ہے‘‘ (ابن خزیمہ)
-1 اللہ کی راہ میں جو بھی دیں محض اللہ کی خوشنودی کے لیے دیجیے، کسی اور غرض کی لاگ سے اپنے پاکیزہ عمل کو ہرگز ضائع نہ کیجیے اور یہ آرزو ہرگز نہ رکھیے کہ جن کو آپ نے دیا ہے وہ آپ کا احسان مانیں، آپ کا شکریہ ادا کریں اور آپ کی بڑائی کا اعتراف کریں۔ مومن اپنے عمل کا بدلہ صرف اپنے اللہ سے چاہتا ہے۔ قرآن پاک میں مومنوں کے جذبات کا اظہار اس طرح کیا گیا ہے:
’’ہم تم کو خالص لوجہ اللہ کھلا رہیہیں نہ تم سے صلے کے طلب گار ہیں اور نہ شکر گزاری کے‘‘۔
-2 نمود و نمائش اور دکھاوے سے پرہیز کیجیے، ریاکاری اچھے سے اچھے عمل کو خاک میں ملا دیتی ہے۔
-3 زکوٰۃ کھلم کھلادیجیے تاکہ دوسروں میں بھی فرض ادا کرنے کا جذبہ ابھرے، البتہ دوسرے صدقات چھپا کر دیجیے تاکہ زیادہ سے زیادہ اخلاص پیدا ہو۔ اللہ کی نظر میں اس عمل کی قیمت ہے جو اخلاص کے ساتھ کیا گیا ہو۔ قیامت کے ہیبت خیز میدان میں جب کہ کہیں سایہ نہ ہوگا، اللہ اپنے اس بندے کو عرش کے سائے میں رکھے گا جس نے انتہائی پوشیدہ طریقوں سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہوگا۔ یہاں تک کہ بائیں ہاتھ کو یہ خبر نہ ہوگی کہ دائیں ہاتھ سے کیا خرچ کیا۔(بخاری)
-4 اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتلایئے اور نہ ان لوگوں کو دیکھ دیجیے جن کو آپ دے رہے ہیں۔ دینے کے بعد محتاجوں اور ناداروں کے ساتھ حقارت کا سلوک کرنا، ان کی خودداری کو ٹھیس پہچانا، ان پر احسان جتاجتا کر ان کے ٹوٹے ہوئے دلوں کو دکھانا اور یہ سوچنا کہ وہ آپ کا احسان مانیں، اپ کے سامنے جھکیں رہیں، آپ کی برتری کو تسلیم کرلیں، انتہائی گھنائونے جذبات ہیں، مومن کا دل ان جذبات سے پاک ہونا چاہیے۔ اللہ کا ارشاد ہے:
’’مومنو! اپنے صدقہ و خیرات کو احسان جتاجتا کر اور غریبوں کا دل دکھا کر، اس شخص کی طرح خاک میں نہ ملادو جو محض لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے‘‘۔
-5 اللہ کی راہ میں دینے کے بعد فخر و غرور نہ کیجیے۔ لوگوں پر اپنی بڑائی نہ جتایئے بلکہ یہ سوچ سوچ کر لرزتے رہیے کہ معلوم نہیں اللہ کی ہاں میرا یہ صدقہ قبول بھی ہوا یا نہیں۔ خدا فرماتا ہے:
’’اور وہ لوگ دیتے ہیں اللہ کی راہ میں جو بھی دیتے ہیں اور ان کے قلوب اس خیال سے لرزتے ہیں کہ ہمیں اللہ کی طرف پلٹنا ہے‘‘۔
-6 فقیروں اور محتاجوں کے ساتھ نرمی کا سلوب کیجیے، نہ ان کو ڈانٹیے، نہ ان پر رعب جمایئے، نہ ان پر اپنی برتری کا اظہار کیجیے، سائل کو دینے کے لیے اگر کچھ نہ ہو تب بھی نہایت نرمی اور خوش اخلاقی سے معذرت کیجیے تاکہ وہ کچھ نہ پانے کے باوجود خاموسی سے دعا دیتا ہوا رخصت ہوجائے۔
قرآن میں ہے:
’’اگر تم ان سے اعراض کرنے پر مجبور ہوجائو، اپنے رب کے فضل کی توقع رکھتے ہوئے ان سے نرمی کی بات کہہ دیا کرو‘‘ (بنی اسرائیل)
اور اللہ کا ارشاد یہ بھی ہے: ’’ اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دو‘‘۔
-7 اللہ کی راہ میں، کشادہ دلی اور شوق کے ساتھ خرچ کیجیے۔ تنگ دلی، کڑھن اور زبردستی کا تاوان سمجھ نہ خرچ کیجیے۔ فلاں و کامرانی کے مستحق وہی لوگ ہوتے ہیں جو بخل، تنگ دلی اور خست جیسے جذبات سے اپنے عمل کو پاک رکھتے ہیں۔
-8 اللہ کی راہ میں حلال ملا خرچ کیجیے۔ خدا صرف وہی مال قبول کرتا ہے جو پاک اور حلال ہو، جو مومن اللہ کی راہ میں دینے کی تڑپ رکھتا ہے وہ بھلا یہ کیسے گوارا کرسکتا ہے کہ اس کی کمائی میں حرام مال شامل ہو۔ اللہ کا ارشاد ہے:
’’ایمان والو! اللہ کی راہ میں اپنی پاک کمائی خرچ کرو‘‘۔
-9 اللہ کی راہ میں بہترین مال خرچ کیجیے۔ قرآن میں ہے:
’’تم ہرگز نیکی حاصل نہ کرسکوگے جب تک وہ مال اللہ کی راہ میں نہ دو جو تمہیں عزیز ہے‘‘۔
صدقے میں دیا ہوا مال آخرت کی دائمی زندگی کے لیے جمع ہورہا ہے، بھلا مومن یہ کیسے سوچ سکتا ہے کہ وہ اپنی ہمیشہ کی زندگی کے لیے خراب اور ناکارہ مال جمع کرائے۔
-10 زکوٰۃ واجب ہونے کے بعد دیر نہ لگایئے، فوراً ادا کرنے کی کوشش کیجیے اور اچھی طرح حساب لگا کردیجیے کہ اللہ نہ کرے آپ کی ذمہ کچھ رہ نہ جائے۔
-11 زکوٰۃ اجتماعی طور پر ادا کیجیے اور اس کے خرچ کا انتظام بھی اجتماعی طور پر کیجیے۔ جہاں جہاں مسلمانوں کی حکومت نہیں ہے وہاں مسلمانوں کی جماعتیں بیت المال قائم کرکے اس کا انتظام کریں۔