اگر فلسطین سے محبت ہے

281

فلسطین میں کیا ہورہا ہے؟ کیوں ہورہا ہے؟ اس قسم کی بات چیت آج کل ہر جگہ ہر محفل میں ہورہی ہے لیکن صرف تبصرے کی حد تک، پھر کہانی ختم… ہر کوئی اپنی نظر سے غزہ اور فلسطینیوں کو دیکھ رہا ہے۔ لیکن بحیثیت مسلمان ہم کیا کررہے ہیں اُن کے لیے؟ بس تبصرہ؟ یا دو چار باتیں اور دعا، بس…! بائیکاٹ کرنے کا کہتے ہیں پَر کرتے نہیں۔ ہم کیوں ہر چیز میں اپنا مفاد دیکھتے ہیں! جیسے ابھی میری ساتھی برابر میں لیز چپس کھا رہی تھی تو میں نے اسے ٹوکا کہ تمہیں پتا ہے تم یہودیوں کی کمپنی کی چپس کھا کر فلسطینیوں پر ظلم کا ساتھ دے رہی ہو۔ تو اُس نے کہا کہ سبھی کھا رہے ہیں، میرے نہ کھانے سے کیا ہوجائے گا! اگر یہی چلتا رہا تو کوئی بھی بائیکاٹ کرنے پر راضی نہیں ہوگا۔ بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری یہ ہونی چاہیے کہ ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کا ساتھ دیں، اُن کے درد کو اپنا درد سمجھیں۔ فلسطین میں اُن ماں باپ کا سوچیں جو اپنے ہاتھوں سے اپنی اولاد کو دفنا رہے ہیں۔ اُن کے ہر آنسو کو اپنا آنسو سمجھیں۔ ضروری نہیں ہم فلسطینیوں کی مدد صرف دعا سے کریں، ہم اور بھی بہت سے ایسے کام کرسکتے ہیں جن سے فلسطینیوں کی مدد ہوسکتی ہے۔ سب سے بڑا ہتھیار قلم ہے جس سے ہم اُن کے حق میں لکھ کر ان کی مدد کرسکتے ہیں۔ آج میڈیا کی وار ہے، خاص طور سے سوشل میڈیا کی۔ ہم ہر محاذ پر اپنا کام کریں۔ پھر ہم اسرائیل کی بنائی ہر چیز کا بائیکاٹ کرسکتے ہیں، ان کے لیے سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں میں شرکت کرسکتے ہیں۔

وہ جو جان کی بازی لگا رہے ہیں، اپنی تھوڑی سی محبت اور محنت کے ذریعے فلسطینیوں کو اس عذاب سے لڑنے کی ہمت دے سکتے ہیں۔ کیا آپ لوگوں کو وہ چڑیا یاد نہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں جلنے سے بچانے کے لیے اپنی چونچ میں پانی بھر بھر کر ڈال رہی تھی۔ کیا ہم اس چڑیا جیسا بھی کردار ادا نہیں کرسکتے؟ ہم مسلمان دو ارب سے زیادہ ہیں، ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں اگر متحد ہوکر کرنا چاہیں۔

حصہ