میں ایک معروف تعلیمی ادارے میں تقریباً چھ ماہ سے اردو کی معلمہ کے فرائض انجام دے رہی تھی۔
غزہ کے حالات کے پیش نظر جہاں بہت سے اسکولوں کے طلبہ نے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی وہیں ہمارے اسکول کی پرنسپل کو بھی احتجاجی پروگرام کے انعقاد کا خیال آیا، اوراس کی کچھ ذمہ داری مجھے بھی دی گئی۔
اسکول میں پڑھنے والے بچے جس طبقے سے تعلق رکھتے تھے وہاں بائیکاٹ تو دور کی بات، اکثریت کو غزہ پہ ہونے والے مظالم کی بھنک بھی نہ تھی۔
ایسے میں بچوں کو غزہ کے حالات بتا کر، کچھ ویڈیوز دکھا کر میں نے اس پروگرام کے لیے تیار کیا تھا اور اب میری کلاس کے بچے بہت دکھی اور غزہ کے بچوں کی مدد کے لیے بہت پُرجوش تھے، مگر! آج اسٹاف میٹنگ میں پرنسپل صاحبہ نے جو پابندیاں عائد کیں ان کو سننے کے بعد میرا غصہ عروج پر تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ بچوں نے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ نہیں کرنا اور نہ ہی فلسطینی نغمے گانے ہیں تاکہ کوئی پریشانی پیدا نہ ہو۔
وہاں سے تو میں خاموشی سے نکل آئی کہ ’’حکمِ حاکم مرگِ مفاجات‘‘ مگر کینٹین میں اپنی ہم خیال حنا کو دیکھ کر میں برس ہی پڑی:
’’ایسا کیسے ممکن ہے؟‘‘
’’کیا ہوا؟‘‘ چائے کے گھونٹ لیتی حنا نے پوچھا۔
’’ہم فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے یہ پروگرام کررہے ہیں نا؟ تو پھر! پھر کیوں؟ ‘‘
’’اوہ اچھا! رُخِ روشن پہ اسی لیے اتنا تناؤ ہے۔‘‘
’’ہاں! ابھی کل ہی خبر پڑھی تھی کہ فلسطین کے لیے فنڈ جمع کرنے پر ایک جامعہ نے طلبہ کو شوکاز جاری کردیا اور آج… آج یہاں…! اوہ میرے خدا! یہ لوگ کس قدر خودغرض ہیں۔‘‘
’’یہ سب صہیونی غلام ہیں پیاری!‘‘
’’اب میں بچوں کو کیسے روکوں گی؟ تقریر، نغمے اور بائیکاٹ کے بینرز… سب کچھ تیار ہے۔‘‘
ابھی میں بول ہی رہی تھی کہ نویں جماعت کی پلوشہ اور عنایہ مجھے ڈھونڈتی ہوئی آگئیں۔
’’مس میں نے ٹیبلو تیار کیا ہے۔‘‘ پلوشہ نے جوش سے کہا۔
’’اور میں نے تقریر بھی یاد کرلی ہے۔‘‘ عنایہ نے بھی کہا۔
’’اور مس یہ ہم نے فنڈ اکٹھا کیا ہے اپنی کلاس سے، فلسطینی بچوں کے لیے۔‘‘ پلوشہ نے جوش سے ایک ڈبہ میرے آگے کیا۔
ڈبہ لیتے ہوئے میرے ہاتھ کپکپائے اور زبان نے میرے الفاظ کا ساتھ نہ دیا، مگر مجھے کہنا پڑا:
’’گرلز! دراصل ہم نے تھیم بدل دی ہے پروگرام کی۔ ہم صرف فنڈ لیں گے، پرنسپل اس موضوع پہ گفتگو کریں گی۔‘‘
’’مگر کیوں میم!‘‘
’’اٹس… اٹس آ رول۔‘‘
آنسوؤں کا گولہ کہیں حلق میں اٹکا۔
’’از اٹ کلیئر؟ ‘‘
مجھے لگا پلوشہ نے کچھ کہنا چاہا مگر بس یہی کہا:
’’یس میم!‘‘
مایوسی سے پلٹتی عنایہ اور پلوشہ کو دیکھ کر بے ساختہ لبوں سے نکلا:
’’گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا، لا الٰہ الا اللہ‘‘