میری زندگی کا مقصد

222

دنیا کی رونق انسان ہی کی بدولت ہے۔ ہر دور کا انسان شاید اسی زعم کا شکار رہا ہو کہ اس کے بغیر دُنیا کا نظام رک جائے گا۔ مگر نظام کا خالق حی و قیوم ہے، لہٰذا بڑے بڑے گوہرِ نایاب کی رحلت، نایاب ہیروں کے داغِ مفارقت سے لے کر متکبروں کی دُنیا سے رخصتی بھی دُنیا کے نظام میں کوئی خلل نہ لائی۔

انسان پیدا ہونے کے بعد اپنے گرد و پیش کے حالات سے متاثر ہوکر، کسی نظریے کے زیراثر، اجداد کی کوتاہیوں سے سبق سیکھ کر یا ان کی بالغ نظری سے متاثر ہوکر اپنے لیے مقصدِ زندگی طے کرتا ہے، پھر اس مقصد کے لیے قربانیاں بھی دیتا ہے اور مشکلات کے پہاڑ بھی سرکرتا ہے، مگر طلبِ صادق رکھنے والا اپنی منزل کو ضرور پا لیتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اکثریت کا مقصدِ زندگی کیا ہے۔ بڑے ہی محتاط مشاہدے کے بعد تجزیہ یہ ہے کہ زیادہ تر مسلمان اپنے اصل مقصد سے انحراف تو نہیں کررہے مگر بھولے ضرور بیٹھے ہیں۔ تکلیف دہ حقیقت ہے مگر سچ یہی ہے کہ بحیثیت والدین ہمارا مشن ہی یہ ہوتا ہے کہ بچے کا مستقبل محفوظ کرنے کے لیے اس پر سرمایہ کاری کرنی ہے۔ اور وہ سرمایہ کاری کیا ہے؟ مہنگے اسکول، برانڈڈ کپڑے، جوتے، پیزا، برگر۔ دانستہ یا نادانستہ تقریباً ساری ملت اسی کو مقصد بنا کر بھاگے چلے جا رہی ہے۔

اقبال کیا خوب صورت الفاظ میں مقصدِ حیات کی طرف توجہ دلا گئے:

میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی

اقبال مغربی نظام ِتعلیم کی برائیوں سے بہ خوبی آگاہ تھے، کہتے ہیں:

ہم سمجھتے تھے لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

بحیثیت عوام اپنے آپ کو دیکھیں تو 76 سال سے اپنے تئیں بڑے سمجھدار اور مذہبی لوگ اپنا پیشوا یا سیاسی لیڈر جنہیں مانتے رہے ہیں اُن کے شخصی اوصاف بھی سراہنے کے لائق نہیں رہے اور ملّی کردار بھی انتہائی غیر تسلی بخش رہا ہے۔

جب قوم کی قیادت ہم طاغوت کے بندوں کو سونپ دیتے ہیں تو پھر ہماری پالیسیاں طاغوت کی من چاہی ہوتی ہیں، ہم نہیں سوچتے کہ ان کی موجودگی میں ہمارا تعلیمی نصاب کیونکر قابلِ فخر مسلمان پیدا کرسکتا ہے۔ نورالدین زنگیؒ اور سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کیسے فرنگی مدرسوں اور جامعات سے نکل سکتے ہیں! حیرت ہے ہمیں میکالے کے نظامِ تعلیم پر اعتراض ہے نہ انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے پر۔ اقبال نے مسلم قوم کی بے عملی کی کیا خوب تصویر پیش کی:
وضع میں ہو تم نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں کہ جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
یعنی ہمارا اوڑھنا بچھونا، اٹھنا بیٹھنا، خرید و فروخت اور معاشی و تعلیمی پالیسیاں مستعار لی گئی ہیں۔ لہٰذا جاگیے، قرآن سے اقوام عالم کی تاریخ کا مطالعہ کیجیے جو نظریاتی کشمکش کی ناقابلِ تردید گواہی ہے۔ ہم کفر کو نظریاتی میدان میں شکست دیں گے اور ذہنی غلامی سے نکلیں گے تو ہی عالمِ اسلام کے عملی مسائل میں کفر پر غالب آسکیں گے۔
nn

حصہ