آٹھ سالہ بشارو ماتھے پر نادیفہ کا محبت بھرا لمس پاتے ہی جاگ اٹھی۔ یہ نادیفہ کا معمول تھا، وہ ہر روز اپنی پیاری بیٹی بشارو کو فجر کے لیے ایسے ہی اٹھاتی تھی۔ بشارو نے بھی کبھی اسے تنگ نہیں کیا کیونکہ فجر اس کی محبوب نماز تھی۔ وہ روزانہ ہی طمانیت بھرا احساس لیے اٹھتی تھی، مگر آج اس کی خوشی دیدنی تھی۔ اس کے چہرے پر کھلتی مسکراہٹ دیکھ کر نادیفہ بھی مسکرا دی تھی۔ دونوں ماں بیٹی نے ایک ساتھ نماز ادا کی اور ہاتھ دعا کے لیے اٹھا دیے۔ نادیفہ کا استغراق ابھی جاری تھا مگر بشارو سے اب چپ رہنا مشکل ہوگیا تھا۔
’’مام! ہم آج وہ لے لیں گے نا؟‘‘
اس کے سوال کا جواب دینے کے لیے نادیفہ کو دعا ختم کرنا پڑی۔
’’اِن شاء اللہ! ضرور میری پیاری بیٹی۔‘‘
اس نے بشارو کا مسرت سے تمتماتا چہرہ چوم لیا۔ پیرس میں موسم بہار کی چھٹیاں جاری تھیں، اسی لیے دونوں ماں بیٹی نے آج شاپنگ کا پروگرام بنایا تھا۔
یوسف الزاہی فرانس میں صومالیہ کے سفارت کار کی حیثیت سے مقیم تھے۔ بشارو ان کی اور نادیفہ کی اکلوتی اولاد تھی۔ دونوں کے لیے اس کی خوشی بے حد عزیز تھی۔ انھوں نے بشارو کی تربیت خالص اسلامی طرز پر کی تھی۔ چونکہ انہیں مختلف ممالک کی تہذیبوں میں زندگی گزارنا پڑتی تھی اس لیے وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی پر دینِ اسلام کے سوا کسی دین کا رنگ چڑھے۔ دونوں میاں بیوی مذہبی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے اس کی خواہشات کی تکمیل کیا کرتے تھے۔
دس بجے وہ دونوں گھر سے پیرس کی معروف شاپنگ اسٹریٹ شانزے لیزے کی طرف جانے کے لیے نکل آئیں۔ روڈ پار سجاتا کا خالی گھر دیکھ کر آج بھی نادیفہ نے دل میں اداسی محسوس کی۔ سجاتا انڈین سفارت کار کی بیوی تھی۔ دو سال قبل جب وہ یوسف الزاہی کی رفاقت میں برکو سے فرانس کے اس خوب صورت شہر میں آبسے تھے تب نادیفہ کی اوّلین شناسائی سجاتا سے ہی ہوئی تھی، گو کہ وہ مسلم نہیں تھی مگر مذہب اسلام سے خاصی شناسا تھی اور اسلامی اقدار کی قدردان بھی تھی، اس لیے بھی وہ نادیفہ کودل سے قریب محسوس ہوتی تھی۔ نادیفہ نے کبھی اسے مغربی رنگ میں رنگے نہیں دیکھا، وہ ہمیشہ اسے قمیص شلوار اور جارجٹ کے دوپٹے میں ہی دکھائی دی تھی۔ چند دن پہلے سجاتا کے شوہر کو انڈیا کی حکومت نے واپس طلب کرلیا تو سجاتا بھی چلی گئی۔
پیرس میں سجاتا ہی نادیفہ کی ہر ضرورت کی جگہ تک پہنچنے میں رہنما رہی تھی۔ شروع شروع ساحلِ سمندر اور سوئمنگ پولز پر بھی وہی نادیفہ اور بشارو کو ساتھ لے جاتی تھی۔ برکو میں انھیں ساحل اور سوئمنگ پول کی تفریح حاصل نہیں تھی۔ بشارو کو پانی کی لہروں سے کھیلنا بہت پسند تھا، اس کا شوق دیکھتے ہوئے نادیفہ ہر دو تین دن بعد اسے شام کے وقت ساحل پر یا سوئمنگ پول پر لے جاتی تھی۔ سچ تو یہ تھا کہ نادیفہ بھی اپنا آپ پانی کی لہروں کے حوالے کرکے طمانیت محسوس کرتی تھی۔ انہی جگہوں پر ان کی ملاقات مسلم کمیونٹی اور دیگر کمیونٹیز کی خواتین سے ہوتی رہتی تھی۔ پیرس دنیا کا خوب صورت ترین شہر تھا اور یہاں کے لوگ بھی بہت اچھے تھے، سب اپنے آپ میں مگن… کسی کو کسی سے کوئی مسئلہ نہیں تھا، یا شاید نادیفہ کو ہی ایسا محسوس ہوتا تھا۔ شروع شروع اسے ساحل اور سوئمنگ پولز پر نہایت مختصر لباس میں مرد و زن کو نہاتے دیکھ کر الجھن محسوس ہوتی تھی، مگر وہ جانتی تھی کہ یورپ میں مرد و زن لباس کی پابندیوں کو قبول نہیں کرتے۔ بہ حیثیت مسلمان ہونے کے اُس کے لیے اِس طرح کے ماحول میں رچ بس جانا آسان نہیں تھا، مگر اس کی یہ الجھن بھی سجاتا نے دور کروا دی تھی۔ اسی نے نادیفہ کو برقینی سے متعارف کروایا تھا جسے پہن کر مسلم خواتین سوئمنگ پولز اور ساحل سمندر کا رخ کیا کرتی تھیں۔ برقینی ایک ایسا لباس تھا جس میں سوائے چہرے کے جسم کا کوئی حصہ نمایاں نظر نہیں آتا تھا۔ برقینی کا لفظ برقعے اور بکنی کے ملاپ سے وجود میں آیا تھا۔ اسے پہن کر ہر مسلم عورت خود کو دیگر غیر مسلم عورتوں کے مقابلے میں معتبر اور محفوظ خیال کرتی تھی۔ عموماً مسلم خواتین ساحل اور سوئمنگ کی جگہوں پر اپنے ایک مخصوص حلقے میں رہا کرتی تھیں جہاں مرد حضرات سے اختلاط کا اندیشہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ سجاتا نے نادیفہ کو اس مشہور برانڈ سے بھی متعارف کروایا تھا جہاں سیاہ اور مختلف رنگوں کی برقینی ملا کرتی تھیں۔
آج بھی وہ بشارو کے ساتھ اسی طرف قدم بڑھا رہی تھی۔ تین دن پہلے سوئمنگ کرتے ہوئے پول کی سیڑھیوں میں لگی لوہے کی ایک راڈ سے الجھ کر بشارو کی برقینی کا بازو پھٹ گیا تھا۔ نادیفہ نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ جلد ہی اسے نئی برقینی دلوا دے گی تاکہ بشارو اپنی چھٹیاں خوشی خوشی گزار سکے۔ بشارو کو کاسنی رنگ بہت بھاتا تھا، گزشتہ رات یوسف کے ساتھ شانزے لیزے سے گزرتے اس نے بشارو کے لیے ایک کاسنی رنگ کی برقینی پسند کی، تبھی یوسف الزاہی نے اسے مستقبل کے اندیشوں سے آگاہ کیا تھا۔
مگر ہر بات سے قطع نظر آج وہ بشارو سے کیا وعدہ نبھانے اسے ساتھ لیے جارہی تھی۔ جیسے ہی وہ اس بڑے بڑے شیشوں والی دکان پر پہنچیں تو تمام ڈمیوں پر مختصر ترین لباس چڑھا دیا گیا تھا۔ نادیفہ کے لیے یہ بات تعجب اور کچھ تشویش کا باعث تھی، اس نے ملازم لڑکے سے پوچھا ’’یہاں وہ کاسنی…‘‘
ابھی وہ یہی کہہ پائی تھی کہ وہ بول اٹھا ’’اب وہ تمہیں اس پورے ملک میں نہیں مل پائے گی۔‘‘
نادیفہ کا دل دھک سے رہ گیا۔ وہ چلاّ اٹھی ’’ایسا نہیں ہوسکتا، وہ ہمارے ساتھ یہ نہیں کرسکتے۔ قانون کی پاسداری کرنے والے ہمیں ہمارے حق سے محروم نہیں کرسکتے۔‘‘
’’اب کچھ نہیں ہوسکتا، فیصلہ آچکا ہے۔‘‘ ملازم لڑکا یہ کہہ کر اپنے کام میں مشغول ہوگیا۔
نادیفہ کی پھٹی آنکھیں ہیجان انگیز مختصر لباس پر سے ہوتی ہوئی بشارو کی ڈبڈباتی آنکھوں پر جا رُکیں۔ بیٹی کی نم آنکھیں دیکھ کر نادیفہ کے دل پر چوٹ سی لگی۔ آخر ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک ایسا ملک جو اقوامِ عالم کو نت نئے لباس کا فیشن دیتا ہے وہ مسلمان عورتوں پر لباس کی پابندی لگاکر اُن سے اُن کا تشخص چھین لے!
اس نے بشارو کا ہاتھ تھاما اور دکان سے نکل کر ٹرام کی طرف بڑھ گئی۔ اب اس کے قدم بڑی عدالت کی طرف اٹھ رہے تھے۔ اسے اب بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ ان کے ساتھ بے انصافی کی جاچکی ہے۔ وہ ایک سفارت کار کی بیوی تھی، اس لیے جانتی تھی کہ کچھ مسئلہ چل رہا ہے۔ ایک ماہ قبل محافظوں نے ساحل پر زبردستی ایک مسلمان عورت کے لباس کوکھینچا تھا تب سے ہی آواز اٹھائی جارہی تھی، مگر اسے یقین تھا کہ قومیتوں کے حقوق کی پاسداری کرنے والی قوم ان کا حق غصب نہیں کرے گی، مگر آج بڑی عدالت کا فیصلہ اس کی سوچ کے برخلاف تھا۔ فرانس میں برقینی پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
عدالت کے باہر احتجاج کرنے والوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔ بہت سے مسلم ممالک کے لوگ اس فیصلے کے خلاف منظم انداز میں بینر اور پلے کارڈ لیے کھڑے تھے جن پر فیصلے کے خلاف نعرے درج تھے۔ ایک طرف ایک مقرر عورت ہاتھ میں مائیک تھامے بول رہی تھی:
’’برقینی ہمارا محبوب لباس ہے، برقینی پر پابندی لگا کر ایک آزاد ریاست میں مسلمانوں پر ظلم کیا گیا ہے۔ ہماری مذہبی آزادی پر کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ ہمیں اپنا لباس منتخب کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔‘‘
نادیفہ بھی بشارو کو ساتھ لیے ان سے جا ملی۔ مسلم خواتین مختلف ممالک اور علاقوں کی تھیں، لیکن اکثریت اسکارف اور حجاب کے ساتھ ایک ہی مطالبے کے لیے ایک ساتھ کھڑی تھی۔
nn