یوں تو ننھے میاں بڑے ہی نیک اور فر ما نبردار بچے تھے ،وقت پر اُ ٹھتے ،صاف ستھرا لباس پہنتے ،سبب کا کہا مانتے تھے ،بس برُی عادت تھی تو محض ایک کہ جو ایک کام شروع کرتے تو اُسے ختم کئے بغیر ہی دوسرا شروع کر لیتے ۔دماغ میں کوئی خیال آتا نہ تھا کہ اُسے عملی جامہ پہنا نے کی تیاری شروع کر دیتے ۔ایک دن صبح سویرے اُٹھے ،نا شتے سے فارغ ہوتے ہی خیال آیا کہ آج پڑھائی کی چھٹی کرتا ہوں اور پرانی البم نکال کر اُس میں تصاویر اور ٹکٹیں لگا تا ہوں ۔
سو چنا کیا تھا بھاگ کر کمرے کی جانب گئے اور الماری سے البم نکال کر دری بچھا کر بیٹھ گئے ۔پاس گوند بھی رکھ لی۔اب کام شروع کر تا ہوں کہ اچانک سے اُس خط کا خیال دماغ میں آگیا جو تقر یباَ۔ ہفتہ پہلے ننھے میاں کو اُن کے دوست نے لکھا تھا ۔
سوچا کہ اُس خط کا جواب دینا زیادہ ضروری ہے تو میز کی طرف لپکے ،خط نہ ملنے کی صورت میں بو کھلا ہٹ سے میز کے درازوں کو اُلٹنے پلٹنے لگے ۔
آخر ایک کونے میں نیلا لفافہ نظر آہی گیا ۔خط کو کھولا اور ایک بار پھر پڑھنے لگے ۔پڑھنے کے بعد جواب لکھنے کی تیاری شروع کی ۔صفحہ اورقلم لے کے جیسے ہی بیٹھے ،باہر سے گملا ٹو ٹنے کی آواز ننھے میاں کے کانوں میں پڑی ۔خط وہیں چھوڑ کرباہر کی طرف بھاگے ۔دیکھا تو یہ کارنامہ بلی مہارانی کا نکلا ۔اتنے میں باورچی خانے سے پکوڑوں کی خوشبو آنے لگی ۔
ننھے میاں جو کھانے کے بے حد شو قین تھے ،با ور چی خانہ کی طرف جانے سے نہ رُک سکے اور پکوڑوں سے لطف اندوز ہونے لگے ۔اسی دوران ننھے میاں کا ننھا منا بھائی اُن کے کمرے میں جا پہنچا تھا ۔دری پرپڑی گوند تصاویر اور ٹکٹیں اُسے کسی نعمت سے کم نہ دکھیں لہٰذا اُس نے اپنے ہاتھوں سے قینچی کا کام لیتے ہوئے سب کچھ پھاڑ ڈالا ۔ابھی بھی جی نہ بھر اتو گوند کو گرا کر چکھنے لگے ۔
ذائقہ پسند نہ آیا تو اُسے چھوڑ دیا ۔اتنی دیر میں ننھے میاں پکوڑوں سے لطف اندوز ہوچکے تھے تو کمرے کا خیال آنے پر کمرے کی طرف بڑھے ۔دروازہ کھولتے ہی قیا مت سا منظر دیکھنے کو ملا ۔ننھا منا بھائی تمام چیزیں برباد کرچکا تھا ۔سوچ میں پڑ گئے کہ اِسکی شکا یت کروں تو کس سے کروں ،ڈانٹ خود کوہی پڑے گی کہ سو بار ہدایت کے باوجودمیں نے اپنے کام مکمل کئے بغیر کیوں چھوڑ دیے ۔اُس دن تو ننھے میاں کی اپنی اِس برُائی سے بھی جان چھوٹ گئی اور ننھے میاں نے آئندہ کے لیے توبہ کرلی ۔